نیمہ شعبان کی شب ميں خداوند متعال سے استغاثہ وفریاد
30/06/2020 21:29:00 |
9/ذي القعد/1441|عدد القراءات : 478

بسم اللہ الرحمن الرحيم
نیمہ شعبان کی شب ميں خداوند متعال سے استغاثہ وفریاد
ہم شعبان کے مہینے میں ہیں جس ميں مومنین کے لیئے خیر وبرکات کا نزول ہوتا ہے۔ اور نیمہ شعبان کی رات کے نزدیک ہوتے جا رہے ہیں جس کی فضیلت کے بارے میں امام باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے: (هي أفضل ليلة بعد ليلة القدر فيها يمنح الله العباد فضله ويغفر لهم بمنَّه، فاجتهدوا في القربة الى الله تعالى فيها، فإنها ليلة آلى الله عز وجل على نفسه أن لا يردَّ سائلاً فيها ما لم يسأل الله فيها المعصية؛ یہ شب قدر کے بعد افضل ترین رات ہے جس میں خدا اپنے بندوں پر لطف کرتا ہے اور اپنے احسان سے ان کی بخشش کرتا ہے، پس اس میں خدا کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں، بے شک یہ ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ عزوجل نے اپنے اوپر فرض کیا ہے کہ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹا ئے جب تک وہ معصیت کا سوال نہ کرے۔) اور مروی ہے کہ اس سے مقصود خداوند متعال كا يہ قول ہے (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) (الدخان : 4) ۔ چونکہ حدیث نبوی شریف کے مطابق خداوند متعال اس رات عمریں لکھتا ہے اور پورے سال كا رزق تقسیم کرتا ہے، اور اس پورے سال کے اندر (بندے كے ساتھ) جو کچھ ہونے والا ہے اس کو نازل کرتا ہے۔
پس ہمیں چاہیئے کہ اس مبارک فرصت کو غنمیت جانیں اور زمین پر بقية الله (ارواح دو جہان ان پر فدا ہوں) کی سلامتی، نصرت، آسانی، اور تعجیل ظہور کے لیئے دعا کریں تاکہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہے۔ اور خدا وند متعال ہم سے ہم وغم اور مشکل کو دور کرے، اور آسائش اور عافیت میں ہمارے لیئے وہ چیز اختیار کرے جسے وہ پسند کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے۔ اور ہمارے امور کو خاتمہ بالخیر فرمائے۔
اس حوالے سے جو مسنون دعائیں ہیں ان سے میں وہ دعا ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن، اور امام حسین (علیہ السلام) نے عاشوراء کے دن پڑھی تھی (اللَهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِي فِي كُلِّ كَرْبٍ ؛ وَأَنْتَ رَجَائِي فِي كُلِّ شِدَّةٍ ؛ وَأَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِـي ثِقَةٌ وَعُدَّةٌ، كَمْ مِنْ هَمٍّ يَضْعُفُ فِيهِ الْفُؤَادُ، وَتَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ، وَيَخْذُلُ فِيهِ الصَّدِيقُ، وَيَشْمَتُ فِيهِ الْعَدُوُّ، أَنْزَلْتُهُ بِكَ، وَشَكَوْتُهُ إلَيْكَ، رَغْبَةً مِنِّي إلَيْكَ عَمَّنْ سِوَاكَ، فَفَرَّجْتَهُ عَنِّي، وَكَشَفْتَهُ، وَكَفَيْتَهُ، فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ، وَصَاحِبُ كُلِّ حَسَنَةٍ، وَمُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَةٍ؛ اے پروردگا! ہر مشکل میں تم ہی میرا اعتماد ہو۔ اور ہر پریشانی میں تم میری امید ہو، اور مجھ پر نازل ہونے والے تمام امور میں میرے اعتماد اور كاميابى كا وسيلہ ہو، کتنی ہی ایسی مشکلات ہیں جن سے دل کمزور ہوتے ہیں، انہیں سنھبالنے کی تدبير کم ہوتی ہے، اس میں دوست ذلیل اور دشمن خوش ہوتا ہے، تیری محبت کی خاطر دوسروں کو چھوڑ کر آپ کے سامنے اپنا شکوہ بیان کیا بيان ہے، پس میری مشکل كو دور کر، اور تم ہی ہر نعمت کے ولی ہو، ہر نیکی کے مالک ہو، اور مقصود محبت ہو۔)
اور ان (دعاؤوں) میں سے امام سجاد (علیہ السلام) سے کی دعا ہے جب انہیں کسی اہم امر کا سامنا ہوتا یا کوئی مشکل آتی اور مصیبت میں ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اور وہ صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا ہے جو (يامن تُحلَّ به عُقد المكاره) سے شروع ہوتی ہے۔
منھج الدعوات میں سید ابن طاووس نے روایت کی ہے کہ یسع بن حمزہ القمی نے امام مہدی (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا جس میں عباسی خلیفہ کے وزیر کی طرف سے پیش آنے والی مشکل اور انکے قتل کی دھمکی کا شکوہ کیا، تو امام نے جواب میں لکھا: خوف اور پریشانی کی ضرورت نہیں، اس دعا کے زریعے خدا کو پکارو وہ جلد تمہیں اس سے چھٹکارا دے دگا اور کامیابی عطا کرے گا، بے شک آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) مصیبت اور بلا کے نزول، دشمنوں کے ظہور، اور فقر و تنگ دستی سے خوف کے وقت یہ دعا پڑھتے ہیں، پس اس نےدن کے شروع میں دعا پڑھی اور نصف دن نہیں گزرا تھا وہ باعزت آزاد ہوگیا۔
اور ان دعاووں میں سے (يا غياث المستغيثين أغثني؛ اے فریاد کرنے والوں کی فریاد سننے والے، میری فریاد سن لے۔) کے زریعے خدا وند متعال کی بارگاہ میں فریاد اور پناہ مانگنا ہے۔ مرحوم شیخ احمد وائلی نے اس فریاد کے اثر کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے، کہ ایک بادشاہ ایک دن غمگین اور پریشان حال تھا اور اسکا سبب بهى اسے معلوم نہيں تها، اس کے معاونوں اور مشيروں نے اس کے مزاج کو بدلنے، اسے خوش کرنے اور غم دور كرنے کے لیئے ہر قسم کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ پس بادشاہ نے حکم دیا کہ کشتیاں تيار کریں تاکہ تفریح کے لیئے سمندر كى طرف چلے جائیں شاید اسی طرح اس کی حالت بہتر ہوجائے۔ پس انہوں ضرورت کا سامان تیار کر لیا اور سمندری سفر پر نکلے۔ اس دوران ایک انسان کی فریاد سنی، بادشاہ نے اپنے بندوں کو سمندر میں اترنے اور اس شخص کو ڈھونڈنے کا حکم دیا یہاں تک كہ انہوں نے اسے ڈھونڈ لیا اور بچا لیا۔ اور اسے بادشاہ کے پاس لے آئے، بادشاہ نے اس کا حال پوچھا تو اس نے جواب دیا: ہم ایک کشتی میں سوار تھے، سمندر کی لہریں اٹھیں اور کشتی ٹوٹ گئی اور سب مسافر ڈوب گئے سوائے میرے۔ میں خدا وند سے فریاد کر رہا تھا اور چلا رہا تھا: ( يا غياث المستغيثسن أغثني؛اے فریاد کرنے والوں کی فریاد سننے والے، میری فریاد سن لے۔) یہاں تک کہ آپ لوگ آئے اور مجھے نجات دی۔
پس یہ سب رحمت الہی کے دروازے ہیں اور اس کے لطف ورحمت کے نزول ہونے کے اسباب ہیں، خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس میں شامل کرے اور بدحالی کو بہترین حالت میں بدل دے، اور ہمارے دین اور دنیا کے بگڑے ہوئے کاموں کی اصلاح کرے۔
اور وائرس کرونا میں مبتلا ہونے کے آثار میں سے مغرب میں خدا وند متعال کی طرف رجوع کرنے اور پروردگار کو غضبناک کرنے والے جرم وفساد کو ترک کرنے والی فریاد کا بلند ہونا ہے۔
خداوند متعال نے فرمایا: (وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا؛ او ر جب سمندر میں تمہیں کوئی حادثہ پیش آتا ہے توسوائے اللہ کے جن جن کو تم پکارتے تھے وہ سب ناپید ہو جاتے ہیں پھر جب اللہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو تم منہ موڑنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ثابت ہوا ہے) (الاسراء :67)
مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمی محمد یعقوبی- نجف اشرف
10/شعبان/1441ھ
2020م/4/4