قرآن مجید کی معاشرتی اصلاح کے طریقہ کار سے سبق

| |عدد القراءات : 646
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

 

قرآن مجید کی معاشرتی اصلاح کے طریقہ کار سے سبق

یہاں  پر ہمیں معاشرے کی اصلاح اور اس کی رہنمائی کے لئے قرآن مجید کے طریقہ کار سے حاصل کردہ کچھ دروس کی نشاندہی کرنی چاہئے:

۱۔  کسی خاص  صورت حال سے نمٹتے وقت معلولات سے زیادہ علل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، پس جب مریض کسی ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے اور اس کو  جس بیماری میں مبتلا ہے اس کی علامتیں بتا دیتا ہے تو یہاں پر جو چیز اہم ہے وہ ڈاکٹر کا اس بیماری کی علت کو تشخیص دینا ہے اور پھر اس کا علاج معالجہ کرنا ہے، لیکن بیماری کی تشخیص کے بغیر ہی سر درد ، پیٹ درد یا بلڈ پریشر کے زیادہ ہونے کا علاج کیا جائے تو یہ درست طریقہ نہیں ہے۔مثلا اگر کوئی کوئی چاہتا ہے کہ وہ  خود نمائی اور جوانوں کی غرب زدگی کا علاج کرے جو خمس نہیں نکالتے ہیں یا نماز نہیں پڑھتے ہیں یا فحاشی کرتے ہیں جیسے شراب پیتے ہیں یا لواط کرتے ہیں یا کہیں زیادہ تر لوگ شریعت کے احکامات پر عمل نہیں کرتے اور یا جان بوجھ کر ان احکام کی مخالفت کرتے ہیں تو  ایسے لوگوں سے یہ کہنا کافی نہیں کہ یہ واجب ہے اسے انجام دو یا یہ حرام ہے اسے ترک کردو کیونکہ وہ خود مسلمان ہیں اور یہ سب وہ جانتے ہیں، پس یہاں پر ضروری ہے کہ ہم اس مشکل کو تلاش کریں جو ان دینی امور کی انجام دہی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور اس کے بعد اس کا علاج کریں۔دینی اثر کے کمزور ہونے کا منشاء معاشرے کا اخلاقی اور اعتقادی پہلو  ہے،لہذا قرآن نے  مکے میں اپنی پوری توجہ- یعنی اپنے نزول  کی شروعات میں ان دو پہلووں  پر دی تھی۔ یعنی اسلامی عقاید کو بیان کیا پھر مختلف دلائل کےذریعے ان کا دفاع کیا  اور جو اشکالات وارد ہوئے ان کا  جواب دیا،اور زیادہ تر فطری دلائل سے استفادہ کیا چونکہ کوئی بھی انسان ان کا انکار نہیں کرسکتا،روز قیامت پیش آنے والے مناظر انہیں بتایا،  پچھلی امتوں میں خدا کی سنت کے بارے میں بتایا، ان کو وعظ و نصیحت کی تاکہ ان کی عقل بیدار ہوجائے اور ان کے دل پاک ہوجائیں، اور اس کے بعد ان پر احکام واجب کردیئے تو انہوں نے انہیں قبول کرلیا، ہر ہم جانتے ہیں کہ مکہ میں زمان تربیت مدینے کی نسبت زیادہ تھا، اور یہی سے ہم یہ سبق لیتے ہیں کہ معلولات کی نسبت علل و اسباب پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

۲۔  یہاں پر دوسرے  سبق کے متعلق بات ہوگی جو نفس اور معاشرے کی  اصلاح کےلیے قرآن  کے بتائے ہوئے طریقہ کار سے لیا گیا ہے اور وہ کسی مسلمان کی شخصیت کے اخلاقی اور نظریاتی پہلو کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے،اور اس  اخلاقی اور اعتقادی تعمیر میں قرآن کریم نے مختلف اسالیب اور طریقوں پر اعتماد کیا ہے اور میں نے انہیں اپنے دروس  میں (فلنرجع إلى الله)  بیان کیا ہے اور وہاں پر ہم نے کہا: اس نے تین  جہانوں کا راستہ اختیار کیا ہے جو انسان کے دسترس میں ہیں(العقل، القلب، الروح) مثلا   آسمان سےنعمتوں کا عدم نزول،زمین  کا اپنی برکتوں کو روک دینا، برے لوگوں کا معاشرے پر مسلط ہوجانا اور دعاوں کا قبول نہ ہونا،  قرآن ان سب کی وجہ  لوگوں کا اللہ کے قانون سے دوری اور فریضہ امر بمعروف اور نہی از منکر  کا ترک قرار دیتا ہے،پس جو بھی ان برے نتائج سے بچنا چاہتا ہے تو اپنا یہ فیضہ ادا کرے۔حدیث میں ہے:(إذا تركتم الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر نزعت عنكم البركات ونزلت عليكم البليّات وسلطت عليكم شراركم ثم تدعون فلا يستجاب لكم)( )۔

" جب تم امر بمعروف اور نہی از منکر چھوڑ دیتے ہو تو آپ سے برکات چھین لی جاتی ہیں ،تمھارے اوپر مصیبتیں نازل کی جاتی ہیں اور تم پر تم سے ہی برے لوگ مسلط کردیئے جاتے ہیں پھر جب تم دعا کرتے ہو تو پھر تمھاری دعا قبول نہیں ہوتی۔"

جن اسالیب اور طریقوں کی طرف ہم نے اشارہ کیا ان میں سے سرفہرست موت کے مناظر ،موت کے بعد کے مناظر،قیامت کے دن کے مناظر،کافروں اور فاسقوں  کی جہنم میں اور اپنے شیاطین کے ساتھ گفتگو اور جو لوگ اللہ تعالی کے قوانین سے منہ موڑتے ہیں  ان کی سزا کی یاد دہانی، کو پیش کرنا ہے۔اللہ تعالی کا قول ہے: [دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا] (محمد: 10)،[فَأَخَذَهُمُ اللّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ] (آل عمران: 11)، "جس طرح فرعون والوں اور اُن سے پہلے لوگوں کا معاملہ تھا، انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا پھر اللہ نے اُن کے گناہوں کے سبب سے انہیں پکڑا، اور اللہ سخت عذاب والا ہے۔"

اور اس فطری حقیقت کے اقرار کے بدلے ان پر بے حساب نعمتیں نازل کرنا: [هَلْ جَزَاء الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ] (الرحمن: 60)، " نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے۔" پھر  اس خوشی کا بیان جو انسانی دل ، زندگی اور معاشرے کو برقرار رکھتی ہے اگر وہ خدا کے قانون کے مطابق ہو۔[وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ](الأعراف:96)." اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے۔"

عقیدہ اور اخلاق یہ دو، انسان کی زندگی کے مقصد کو بیان کرتے ہیں اور اس ہدف کے حصول کےلیے اس کےلیے راستہ بھی معین کرتے ہیں، مثال کے طور پر ، اگر میں کسی رفاہی منصوبے کے لئے چندہ دینا چاہتا ہوں یا کسی نادار شخص کی مدد کرنا چاہتا ہوں ، تو  دو لوگوں میں سے کون اس میں جلدی کرےگا: مومن جو اللہ تعالی کی رضا چاہتا ہے اور اس سے عوض چاہتا ہے یا وہ شخص جو دین سے دور ہے اور جس کا سارا ہم و غم  اپنی دولت میں اور اضافہ کرنا ہے: [قَدْ يَئِسُوا مِنَ الآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ] (الممتحنة: 13)،" تو آخرت سے ایسے نا امید ہو گئے کہ جیسے کافر اہلِ قبور سے نا امید ہو گئے۔"

پس پہلا شخص اس کام میں جلدی سے حصہ لے گا  چونکہ اس کے پیچھے محرک اس کا عقیدہ اور اخلاق ہے اور مومن کا ہدف اللہ تعالی ہے، پس  آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹے مت بنو۔پس امت کے زوال کی وجہ زندگی کے اصلی ہدف کو فراموش کرنا ہے جس کی وجہ سے  یہ  سیدھے راستے سے ہٹ گئی: [وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ] (الأنعام: 153). " اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے سو اسی کا اتباع کرو، اور دوسرے راستوں پر مت چلو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے، (اللہ نے) تمہیں اسی کا حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔"

پس ہم نے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں موجود خلاء کو پر کرنا ہے تاکہ وہ لوگ صحیح راستے کا انتخاب کریں اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق   اپنی زندگی گزاریں اور ہمیں چاہیے کہ ہم دلوں کو زندہ کرنے کےلیے، انہیں نرم کرنے کےلیے، ان کی اصلاح کےلیے  قرآن کے بتائے ہوئے راستے کا انتخاب کریں یعنی  پہلے ان کے عقاید کو ٹھیک کریں جو کہ حقیقت میں اخلاق فاضلہ کا منشاء ہیں:

[أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ] (الحديد: 16)."کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت اور جو دین حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب (آسمانی) ملی تھی پھر ان پر مدت لمبی ہو گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے، اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔"

یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس میں مفکرین اور تربیت کرنے والوں کو داخل ہونا چاہئے اور وہ دروازہ وعظ و نصیحت میں ،دلوں کو زندہ کرنے میں  قرآن کریم  اور اس کی تمام آیات شریفہ ہیں اگر عاقل ان میں غور و فکر کرے گا  تواپنی زندگی گزارنے کے طور طریقوں پر ضرور نظر ثانی کرے گا، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: [كَمْ تَرَكُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ، وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ، وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ، كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْماً آخَرِينَ، فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاء وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ] (الدخان: 25 - 29).

"کتنے انہوں نے باغات اور چشمے چھوڑے ہیں۔اور کھیتیاں اور مقام عمدہ۔اور نعمت کے ساز و سامان جس میں وہ مزے کیا کرتے تھے۔اسی طرح ہوا، اور ہم نے ان کا ایک دوسری قوم کو وارث کر دیا۔پس ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔"

اور میں  آپ کو دو کتابوں(القلب السليم)   کو پڑھنے کی نصیحت کرتا ہوں جس کی دو جلدیں ہیں  پہلی جلد عقاید کے بارے میں ہے اور دوسری جلد اخلاق کے متعلق ہے اور یہ دونوں ایک  مخلص اور پاک دل سے نکلی ہیں۔

۳۔ لوگوں کی رہنمائی، ہدایت  اور اصلاح آہستہ آہستہ کریں اور نرمی سے ان کا ہاتھ تھام لیں  ،مثال کے طور پر، آہستہ آہستہ شراب پینے سے منع کرنا-اس  لیے کہ یہ عادت اس معاشرے میں لوگوں  کے دل دماغ میں رچ بس چکی تھی- تو قرآن نے اسے کئی مراحل میں حرام قرار دیا اور سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا: [يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ] (البقرة: 219)، " آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں ۔"ان میں سے بعض نے کہا  ہم اسے نہیں پئیں گے چونکہ یہ گناہ ہے اور اللہ تعالی نے فحاشی حرام قرار  دی ہے ان میں سے کچھ ظاہری گناہ ہیں اور کچھ باطنی گناہ ہیں، اور بعض نے  کہا ہم تھوڑی سی پی لیتے ہیں چونکہ اس میں منافع موجود ہیں ،پھر اللہ تعالی کا فرمان آیا: [لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّىَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ] (النساء: 43)، " اے ایمان والو! جس وقت تم نشہ میں ہو تو نماز کے نزدیک نہ جاؤ یہاں تک کہ سمجھ سکو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔" پھر کچھ لوگوں نے اسے ترک کردیا اور کہا ہم شراب نہیں پیئیں گے چونکہ یہ نماز کے منافی ہے، پھر  سورہ مائدہ کی آیت نازل ہوئی  جس نے پکا شراب پینا حرام قرار دیا: [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ] (المائدة: 90). " اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب شیطان کے گندے کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔"

اور خود قرآن کریم ۲۳ سال کی طولانی مدت میں نازل ہوا جس  کا ہدف   مختلف زمانوں  ، مکانوں   اور مختلف حالات میں لوگوں کی مختلف صلاحیتوں اور لیول کے حساب سے ان کے امراض اور مشکلات کا درمان تھا۔

اور ممکن ہے اس درجہ بندی اور تدرج کی مختلف شکلیں ہوں مثلا جب ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے  کسی ظاہری بیماری کا علاج کریں-جیسے کسی قبیلے کے رسم و رواج- تو ہم  پہلے مرحلے میں  ہم ان کی صداقت ، افادیت کے بارے میں  شکوک و شبہات  پیدا کریں گے پھر ان کی جگہ پر دوسرے آپشنز پر بات کریں گے، جب ان کے ذہنوں میں یہ شکوک و شبہات اثر کریں گے تو وہ دوسرے آپشنز کی طرف متوجہ ہوجائیں گے اور انہیں تبدیل کرنے کےلیے آمادہ ہونگے، تو اس وقت  انہیں توڑ دیا جائے گا لیکن اگر ایک دم سے بغیر کسی مقدمے کے  انہیں توڑنے کی کوشش کی جائے تو یہ شروعات میں ہی  ناکام ہوجائے گا۔اور یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ جو چیز اسے وراثت میں ملی ہے اور جس چیز سے وہ مانوس ہے اس کا احترام کرتا ہے اور اگر کوئی اسے بدلنا چاہے تو وہ سارے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں جو اس سے مانوس ہیں اور اس کےلیے احترام کے قائل ہیں۔

جب رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) رسالت پر مبعوث ہوئے تو انہوں نے  براہ راست بتوں کو نہیں چھیڑا بلکہ انہوں (صلى الله عليه وآله) علی (عليه السلام) اور خديجة (عليها السلام) نے اللہ تعالی کی عبادت کی  قریش  کے سامنے لیکن اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا، لیکن آپ (صلى الله عليه وآله) نے  مختلف سوالات کے لیے دروازہ کھول دیا : کہ یہ تینوں کیا کررہے ہیں ؟ اور یہ کس کی عبادت کررہے ہیں؟ انہوں نے اپنی قوم کا طریقہ کیوں چھوڑ دیا ؟ اور ان میں یہ شجاعت اور ایمان راسخ کہاں سے آیا جس نے انہیں  سب کے سامنے لاکر کھڑا کردیا۔۔۔ ان سوالوں  کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا- کتاب سیرہ میں  عبداللہ بن  مسعود کے قصے کی طرف رجوع کریں- قریش نے اس کی مخالفت نہیں کی ، کیونکہ اس نے ان کو مشتعل نہیں کیا  اور براہ راست ان کو نہیں چھیڑا۔

۴۔ امت کو دین کے اصول کی طرف متوجہ کرنا   چونکہ امت کا وجود صرف انہیں کے ذریعے حفظ  ہوتا ہے خاص طور پر جب معلوم ہو کہ ان(صلى الله عليه وآله) کےبعد  امت  ان سے روگردانی کرے گی اور انہیں نظر انداز کرے گی، لہذا انہوں نے ان پر بہت تاکید کی  یعنی امر بمعروف و نہی از منکر، مومنین کےلیے امامت اور ولایت،کافروں سے جنگ،رشتہ داروں سے مودت،قرآن اور عترت سے تمسک، مساجد ،نماز جماعت اور نماز جمعہ کی مواظبت کرنا، لیکن  ابھی آنحضرت (صلى الله عليه واله) رخصت بھی نہیں ہوئے تھے امت نے سب کچھ بھلادیا اور انحراف کا  شکار ہوگئ۔خیر ونیکی اور اصلاح  کی معاشرے میں واپسی کےلیے ضروری ہے مذکورہ امور  کے کرادار کو  مستقل بنیادوں پر امت کی زندگی میں واپس لایا جائے۔

۵۔ جو شخص معاشرے کی اصلاح چاہتا ہے، اس کی ہدایت چاہتا ہے، حامل قرآن ہے، مبلغ دین ہے تو جتنا ہوسکے اس کی مشکلات کو کم کیا جائے جن کا وہ سامنے کررہا ہے اور اس کو حوصلہ دینا چاہیے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: [المص، كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ](الأعراف: 1-2)، " ا ل م صۤ۔یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے تاکہ تو اس کے ذریعے سے ڈرائے اور اس سے تیرے دل میں تنگی نہیں  ہونی چاہیے اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے۔"

و[فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاء مَعَهُ مَلَكٌ] (هود: 12)، "پھر شاید آپ اس میں سے کچھ چھوڑ بیٹھیں گے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور ان کے اس کہنے سے آپ کا دل تنگ ہوگا کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتر آیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا،"