(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)

| |عدد القراءات : 584
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)(1)

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔

(اللهم عرفني نفسك فإنك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف نبيك اللهم عرفني رسولك فإنك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك اللهم عرّفني حجّتك فإنك إن لم تعرفني حجتك ضللت عن ديني)( )

"خدایا! مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر سکوں گا  خدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو  نےمجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت (حجت زمانہ) کو نہیں پہچان سکوں گا  خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما دے کیونکہ اگر تو  نے مجھے اپنے حجت علیہ السلام کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاں گا۔"

اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے؛ ہر زمانے میں امام  اور حجت کے وجود کے لزوم پر،زمانہ غیبت میں ہماری زمہ داری اور امام سے مربوط ہماری مسوولیت پر،اسی طرح  بہت سارے سوالات اور شبہات جو امام (عليه السلام) سے مربوط ہیں  ان کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔آئمہ (عليهم السلام) (باب الله الذي لا يؤتى إلا منه)( )  " باب اللہ ہیں خدا اسی دروازے سے ہی عطا کرتا ہے۔"

جو شخص اپنے دروازے سے آشنا نہیں وہ کس طرح ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ کی ہدایت نہ ملے وہ مکمل گمراہی میں ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک مادیات میں غرق ہونا اور مابعد الطبیعہ  اور غیب کا انکار کرنا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقَالُواْ إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ] (الأنعام:29)، "اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے سوا ہمارے لیے اور کوئی زندگی نہیں اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔"[وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ](الجاثية: 24)،" اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے، حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں، محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔"

 پس قرآن آیا  اور اس نے ان کےلیے بلند اہداف بیان کیے جن کےلیے وہ زندگی گزارتے ہیں: [وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ] (الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"

[قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ] (هود:61)، "اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا۔"

[ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ] (يونس:14) "پھر ہم نے تمہیں ان کے بعد زمین میں نائب بنایا تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو۔"

انسان صرف اس دنیا کےلیے خلق نہیں ہوا کہ اپنی ساری توجہ اسی پر فوکس کرے بلکہ اس کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس کو آباد کرے اور اسے آخرت کی کھیتی بنادے، اللہ تعالی انسان کے اعمال پر نظر رکھتا ہے،مادیات میں غرق اس انسان  کی اللہ تعالی سرزنش کرتا ہے۔[أَيَحْسَبُ الإنسان أَن يُتْرَكَ سُدىً، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى، ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى، فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى، أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى](القيامة: 36 - 40)، " کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔کیا وہ ٹپکتی منی کی ایک بوند نہ تھا۔پھر وہ لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اسے بنا کر ٹھیک کیا۔پھر اس نے مرد و عورت کا جوڑا بنایا۔پھر کیا وہ اللہ مردے زندہ کردینے پر قادر نہیں۔"

جی۔ خدایا تم اس پر قادر ہو بلکہ ہر چیز پر قادر ہو۔ لیکن اس  سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو ترک کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو  اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف قرار نہ دے بلکہ اس کو اصلی اور حقیقی ہدف جو کہ اللہ تعالی کی رضایت ہے اسے حاصل کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار دے: [وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ](القصص: 77)، " اور جو کچھ تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، اور اپنا حصہ دنیا میں سے نہ بھول، اور بھلائی کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے، اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

دنیا حاصل کرنے میں   کوئی قباحت نہیں لہذا کہا گیا ہے: (الدنيا مزرعة الآخرة)( )۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے: (الدنيا متجر أولياء الله)( ) "دنیا خدا کے دوستوں کی تجارت کی جگہ ہے" اس میں وہ اللہ تعالی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ایسی تجارت کہ جس میں کوئی نقصان نہیں۔

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک انتشار اور فرقہ بندی ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](الروم:31-32)، "اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی فرقے ہو گئے، سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پا س ہے۔"

اور یہ  سب کچھ اس وجہ سے ہے چونکہ انہوں نے اپنا اصلی محور جس کے ارد گرد انہوں نے جمع ہونا تھا اسے کھو دیا ہے اور وہ اللہ تعالی کی توحید ہے اور خانہ کعبہ اس کی علامت،لیکن اللہ تعالی سے دور یہ معاشرہ  سب سے پہلے کئی ملکوں میں تقسیم ہوگیا یہاں تک کہ ان ملکوں کی تعداد (180) بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے،پھر ایک ہی ملک کے اندر قوموں میں  تقسیم  ہوگیا،پھر فکری تقسیم بندی کا شکار ہوگیا کہ یہ کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے جبکہ یہ سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں،ان کی قوم ایک ہے، ان کا مذہب ایک ہے،ان کا دین ایک ہے لیکن اپنی آیڈیولوجی کا بیڑا غرق کردیا ہے یہاں تک کہ ایک دین کے اندر بلکہ ایک مذہب کے اندر کئے فرقے ہیں اور ہر فرقہ مذید کئی فرقوں میں تقسیم ہے وغیرہ:

[كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ](المؤمنون: 53)، "ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔"

اور اللہ تعالی نے اس بات کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے  کہ امت کے اندر یہ انتشار اور تفرقہ بندی الہی راستے سے دور ہونے کی سزا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ] (الأنعام: 65)،

"کہہ دو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں مختلف فرقے کر کے ٹکرا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔"

اور اسلام  قرآن کریم کے توسط سے انہیں متحد کرنے آیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

[وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ](آل عمران: 103)

"اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔"

[وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فإن حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِيَ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ، وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] (الأنفال: 62 - 63).

"اور اگر وہ چاہیں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو تجھے اللہ کافی ہے، جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن اللہ نے ان میں الفت ڈال دی، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔"

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک موت کا ڈر ہے اور ہر اس چیز کا ڈر جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں  نے اپنی آخرت کھودی ہے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اپنی خواہشات و شہوات  کی تسکین بنالیا ہے۔