قرآنی تصور کے مطابق اسلام سے پہلے کے معاشرے کی صفات اور خصوصیات
قرآنی تصور کے مطابق اسلام سے پہلے کے معاشرے کی صفات اور خصوصیات
جاہلیت کی صفات میں سے پہلی صفت لوگوں کا اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا ہے اور عبادت کا مطلب اطاعت اور وفاداری ہے جیسا کہ ان (عليهم السلام) سے وارد ہوا ہے اللہ تعالی کے اس قول کی تفسیر میں: [اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَهاً وَاحِداً لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ] (التوبة: 31)" انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، حالانکہ انہیں حکم یہی ہوا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔" انہوں (عليه السلام) نے فرمایا: (أما والله ما دعوهم إلى عبادة أنفسهم، ولو دعوهم ما أجابوهم، ولكن أحلوا لهم حراما، وحرموا عليهم حلالا فعبدوهم من حيث لا يشعرون)( )" لیکن خدا کی قسم انہوں اپنی عبادت کےلیے انہیں دعوت نہیں دی،اگر وہ دعوت بھی دیتے تو اسے قبول نہ کرتے، لیکن ان کےلیے حلال کو حرام قرار دیا اور حرام کو حلال قرار دیا۔ پس ان کی پیروی کی اس حال میں کہ وہ اس بات سے آگا ہ نہیں تھے۔" یہ عبادت زمانہ جاہلیت میں غیر اللہ کےلیے تھی لہذا قرآن کی پہلی سورہ میں اللہ کے سوا کسی اور اطاعت نہ کرنے کا مطالبہ آیا ہے: [كَلا لا تُطِعْهُ](العلق:19)، "ہرگز ایسا نہیں چاہیے، آپ اس کا کہا نہ مانیے۔" اس زمانے میں معبودوں کےلیے اطاعت متعدد تھی: [مَا نَعْبُدُهُمْ - أي الأصنام - إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى](الزمر:3)،" ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔"
[وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ](آل عمران:64)،" اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے"[إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلا](الأحزاب:67)، "ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا سو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔"[فَاتَّبَعُواْ أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ](هود:97)،" پھر وہ فرعون کے حکم پر چلے، اور فرعون کا حکم ٹھیک بھی نہ تھا۔"[فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيّاً](مريم:59)، "پھر ان کی جگہ ایسے ناخلف آئے جنہو ں نے نماز ضائع کی اور خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، پھر عنقریب گمراہی کی سزا پائیں گے۔"[وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ](البقرة:170)،" اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھی راہ پائی ہو؟"
[وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَّرِيدٍ، كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَن تَوَلاهُ فإنه يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ](الحج: 3-4)، " اور بعضے لوگ وہ ہیں جو اللہ کے معاملے میں بے سمجھی سے جھگڑتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کے کہنے پر چلتے ہیں۔جس کے حق میں لکھا جا چکا ہے کہ جو اسے ساتھی بنائے گا تو وہ اسے گمراہ کر کے رہے گا اور اسے دوزخ کے عذاب کا راستہ دکھائے گا۔"
[إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ]( الفتح: 26). " جب کہ کافروں نے اپنے دل میں سخت جوش پیدا کیا تھا جہالت کا جوش تھا"
یہ کچھ زمانہ جاہلیت کے معبود تھے جن کی خدا کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی تھی اور وہ تھے(بت ، غیر مخلص علماء ، فرعون نفس امارہ کی خوہشات، شیطان ، عصبیت ، رواج اور روایات جو باپ دادا سے وراثت میں ملی تھیں)اور ان سب کی جڑ خواہشات نفس کی پیروی ہے۔[فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ](القصص: 50). " پھر اگر تمہارا کہنا نہ مانیں تو جان لو کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کے تابع ہیں، اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو اللہ کی ہدایت چھوڑ کر اپنی خواہشوں پر چلتا ہو، بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔"
کیا آج لوگوں کی حالت بدل گئی ہے؟ میں ان اقوام کے لوگوں کو نہیں چاہتا ہوں جو خود کو مہذب کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی صدی سے لے کر اپنے پیروں کے تلووں تک اسلام سے پہلے کے زمانے کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ہمیں ان لوگوں کی روشن فکر باتیں سننے کی طرف بلاتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن کافروں کے ہم رکاب ہیں اور شہوا ت ان کے بنائے ہوئے جدید خداوں جیسے کھیل، فن، بعض نظریات اور منحرف قوانین کی اطاعت میں پھنسے ہوئے ہیں ، اور ابھی تک اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت میں ہیں جیسے قبیلے کے سردار اور معزز افراد جو کہ شرع مقدس کی رعایت کیے بغیر حلال خدا وند کو حرام اور حرام خدا وند کو حلال قرار دیتے ہیں،اور ابھی تک اپنے آباو اجداد کی رسوم و رواج اور قوانین کی اللہ تعالی کی شریعت سے زیادہ اطاعت کرتے ہیں تاکہ معاشرہ اللہ کی معصیت پر راضی ہو لیکن اپنے آباو و اجداد کی نافرمانی اور ان کے رواج اور قوانین چھوڑنے پر راضی نہ ہو، اور ان کی زبان حال بولتی ہے: ( النار ولا العار ) اس اسلام کے برعکس جسے امام حسین علیہالسلام نے کربلا میں پیش کیا تھا:
الموت أولى من ركوب العار والعار أولى من دخول النار
ننگ و عار سے موت بہتر ہے اور جہنم میں داخل ہونے سے عار بہتر ہے
اور یہ قبائلی رسم و رواج میں زیادہ واضح ہے اور یہ غریب عورت پیار اور فیشن کے کردار کی پابندی کرتی ہے، اور جو آداب کا تقاضہ ہے اور جسے مغرب نے صادر کیا ہے یعنی کپڑے، میک اپ کا سامان اور غیرضروری چیزیں اگرچہ یہ سب شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ تو کیا اس صورت حال میں عبادت، اطاعت اور محبت سے کچھ بچے گا؟یہ سب تو شرک جلی کی مثالیں ہیں اور قرآن نے بھی ان خداوں کے بارے میں خبر دی ہے جن کی عبادت سے قیامت کے دن یہ دوری کا اظہار کریں گے لیکن اس دن ان کی ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔:
[وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً وَأَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ، إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُواْ مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الأَسْبَابُ، وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّؤُواْ مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ](البقرة: 165-166).
" اور ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اور شریک بنا رکھے ہیں جن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اللہ سے رکھنی چاہیے، اور ایمان والوں کو تو اللہ ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے، اور کاش دیکھتے وہ لوگ جو ظالم ہیں جب عذاب دیکھیں گے کہ سب قوت اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔جب وہ لوگ بیزار ہو جائیں گے جن کی پیروی کی گئی تھی، ان لوگوں سے جنہوں نے پیروی کی تھی، اور وہ عذاب دیکھ لیں گے اور ان کے تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔اور کہیں گے وہ لوگ جنہوں نے پیروی کی تھی کہ کاش ہمیں دوبارہ جانا ہوتا تو ہم بھی ان سے بیزار ہوجاتے جیسے یہ ہم سے بیزار ہوئے ہیں، اسی طرح اللہ انہیں ان کے اعمال حسرت دلانے کے لیے دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں۔"
انسان اللہ تعالی کو چھوڑ کر جن خداوں کی عبادت کرتا ہے اور ان کی خدمت میں اپنی محبت اور اطاعت پیش کرتا ہے قرآن ان کی یوں توصیف کرتا ہے: [مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ](العنكبوت:41)،" ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا حمایتی بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی ہے، جس نے گھر بنایا، اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے، کاش وہ جانتے۔" اور اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إذا جَاءهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ](النور:39)." اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے جنگل میں چمکتی ہوئی ریت ہو جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے اسے کچھ بھی نہیں پاتا اور اللہ ہی کو اپنے پاس پاتا ہے پھر اللہ نے اس کا حساب پورا کر دیا، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔"
یہ ایک قابل توجہ بحث ہے کیوں کہ یہ لوگوں کی توجہ ان کے عقائد کے انحراف کی طرف مبذول کرواتی ہے ، کہ وہ خالص توحید سے دور ہیں ، اور خدا کی اطاعت ان متعدد بتوں کی اطاعت کی نسبت کہیں زیادہ کم ہے ۔اور بحث (جدید جاہلیت کے بت) کے عنوان سے ہونی چاہیے جن کا خطرہ ان کے مخفی ہونے کی وجہ سے اور ان کی طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ہے حتی مومنین کےلیے چہ جائے دوسرے لوگ۔
لیکن جہاں تک بات ہے شرک خفی کی تو یہ اور بڑی مصیبت ہے،آپ کو کم ہی کوئی مخلص کام ملے گا،اگر کوئی یہ گمان کرتا ہےکہ وہ مخلص ہے تو پھر جب وہ مسجد بناتا ہے تو وہ کیوں اپنا نام ایک بڑی تختی پر لکھتا ہے ،اگر اس کا کام خدا کے لئے تھا تو کیوں کسی کو کچھ دینے کے بعد اس پر اپنا احسان جتلاتا ہے اور اس کام کو موضوع گفتگو بناتا ہے۔
جاہلیت کی صفات میں سے دوسری صفت یہ ہے کہ جو قانون ان کے امور کو منظم کرتا ہے اور ان کے تنازعات پر نظر رکھتا ہے وہ اللہ تعالی کے قانون سے بہت دور ہے: [أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ] (المائدة:50)، "تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔"
پس ہر وہ حکم جو اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم سے جدا ہو، قرآن کی تعبیر میں وہ جاہلیت کا حکم کہلاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی کے زیادہ تر افراد قبائلی رسم و رواج کے تحت زندگی گزارتے ہیں جنہیں جاہل لوگوں نے بنایا ہے اور یہ اللہ تعالی کے قوانین سے بہت دور ہیں۔
اگر آپ بھی سماجی طبقات کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اس کے اور مصادیق مل جائیں گے۔ آپ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں دیکھتے ہیں جنہیں مختلف ملکی قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے جنہیں ناقص انسان نے ہی بنایا ہے جو اپنا نفع و نقصان ہی اچھے سے نہیں جانتا اور جس کی فکر کا دائرہ محدود ہے۔آپ دیکھتے ہو کہ ہر روز وہ اپنے قوانین بدلتا ہے کھبی اضافہ کرتا ہے تو کھبی کم کرتا ہے۔حدیث شریف نے قانون کی ہر خلاف ورزی اور اس پر عمل درآمد میں ناکامی کو جاہلیت کہا ہے۔معصوم (عليه السلام) کا قول ہے: (من مات ولم يوص مات ميتة جاهلية)( )." جو بھی مرا وصیت کیے بغیر تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
پس فرعون جو کہتا ہے [مَا أُرِيكُمْ إِلا مَا أَرَى]( غافر: 29)، " تو تمہیں وہی سوجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور میں تمہیں سیدھا ہی راستہ بتاتا ہوں۔"یہ ایک ایسی حالت ہے جو کہ کسی فرد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ہمیشہ سے تکرار ہوتی ہے ان لوگوں کے ہاں جو اپنے آپ کو قانون ساز سمجھتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر۔
اور جہالت کی ایک خصوصیت اس کے عقائد کا انحراف ہےاور اللہ تعالی کے اس قول میں اس طرف اشارہ ہو اہے: [يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ]( آل عمران: 154)، " اللہ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے کر رہے تھے۔"
مثال کے طور پر ، ان کا ماننا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان نے کیا گناہ کیا ہےاس کو عذاب سےنجات مل جائے گی جب وہ وہ اپنے خداوں کےلیے قربانی کرے گا۔
آج ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہے، منبر حسینی پر بیٹھنے والوں نے ان کے ذہنوں میں بٹھایا ہے کہ جو مرضی ہے گناہ کرو ان گناہوں سے نجات کےلیے اور جنت میں داخل ہونے کےلیے امام حسین علیہ السلام کے غم میں ایک آنسو بہانا ہی کافی ہے اور یہ سب لوگ اس حدیث شریف سے استنباط کرتے ہیں: (من بكى على الحسين ولو مقدار جناح بعوضة وجبت له الجنة)( )،" جو بھی حسین پر روئے گا اگرچہ مچھرکے بازو کے سائز جتنا تو اس پر جنت واجب ہے" اور شاعر کے اس شعر کے ساتھ انیوں نے استدلال کیا ہے:
فإنَّ النار ليس تمس جسماً عليه غبار زوار الحسينِ
بے شک آگ اس جسم کو چھو نہیں سکتی جس پر حسین کے زائرین کی دھول ہو۔
اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے امام حسین (عليه السلام) کی تکریم کا ہم انکار نہیں کرتے وہ اس تکریم کا بلکہ اس سے زیادہ کا مستحق ہے لیکن یہ جنت میں داخل ہونے کے علل و اسباب میں سے ایک علت ہے تمام علت نہیں ہے جنت میں داخل ہونے کےلیے علت اور شرائط کا کامل ہونا اور تمام موانع کا رفع ہونا ضروری ہے اور ان شرائط میں سے پہلی شرط ہے اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کی اطاعت ہے اور قرآن اس بات میں صریح ہے: [وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى]( الأنبياء: 28)، "اور وہ شفاعت بھی نہیں کرتے مگر اسی کے لیے جس سے وہ خوش ہو، اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔"امام صادق (عليه السلام) کی حدیث میں ذکر ہوا ہے: (لن تنال شفاعتنا مستخفاً بالصلاة)( )،" جو نماز کو اہمیت نہیں دیتا وہ ہماری شفاعت کا مستحق نہیں ہے۔" اور اس آیت کے بھی خلاف ہے: [فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ](الزلزلة: 7 - 8)، "پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔"مگر یہ کہ سچے دل سے توبہ کرکے اس کا تدارک اور جبران کرے۔
اس انحراف کا لوگوں کے عقاید پر بہت برا اور ان کی لاشعوری پر بہت برا اثر پڑا، لوگ قرآن سے دور اس عقیدے کو اپنانے لگیں نتیجے میں قرآن پر عمل کو ترک کردیا۔
جاہلیت کی علامتوں میں سے بد حجابی،خود نمائی،بے شرمی اور برائیوں کو عام کرنا ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے: [وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى]( الأحزاب: 33)، "اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو،"
اور آج کے معاشرے نے اپنی تمام تر صلاحتوں کو بروے کار لاتے ہوئے اپنے فسق وفجور کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے اور انہیں برائیوں کی طرف دھکیلنے میں سابقہ امتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور جس طرح جاہلیت نے شیطانی طریقوں سے اپنی جنسی جبلت کو راضی کرنے کے لئے طریقے وضع کیے تھے اور قوانین وضع کیے تھے ، جیسے قریش میں یہ رواج عام تھا کہ مکہ کے باہر سے آنے والے لوگ اپنے کپڑوں میں خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرسکتے چونکہ انہوں نے اس لباس میں اللہ تعالی کی معصیت کی ہے لہذا یا تو اہل مکہ کے لباس میں یا نئے کپڑوں میں یا کرایہ پر لے کر ان میں طواف کعبہ کریں۔
آج شیطان کے دوستوں نے فسق و فجور کے کلبوں کے علاوہ ،کھیل کے نام سے فحاشی پھیلانے کے نئے طریقے ڈھونڈے ہیں جس میں بے حیائی اور فحاحشی ، فحاشی کے اڈوں سے کم نہیں ۔فحاشی کے اڈوں میں جو کچھ ہوتا ہےچھپ چھپا کر ہوتا ہے، بے حیائی کرنے والا سب کے سامنے ننگا نہیں ہوتا لیکن کھیل کود میں تو سب کے سامنے کھل کر بے حیائی ہوتی ہے شرمانا تو دور کی بات بلکہ اپنے کیے پر فخر کیا جاتا ہے اور مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔یہ سب شیظان کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں اور ان سے جیسے چاہے کھیلتا ہے۔ اس طرح لقب اور دیگر نام جیسے بیوٹی کوئین یا فیشن ڈسپلے کے نام پر یا آرٹ کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے یہ سبب پاگل پن اور فحاشی ہے لیکن معاشرے کے لئے قابل قبول ہے، اس تباہی اور بربادی سے کوئی بچ نہیں سکتا مگر جسے اللہ بچائے۔ ان کاموں کا ایک ہی ہدف ہے کہ انسان حیوانوں سے بدتر زندگی گزارے،بے حیائی اور برائی عام ہو۔
جاہلیت کی نشانیوں میں سے ایک زندگی کے بارے میں غلط قسم کے تصورات ہیں، مثلا زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی دوسرے قبیلوں میں نہیں کرتے تھے چونکہ وہ اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتے تھے اور اس کو (الحُمُس)، کا نام دیتے تھے۔ اور آج کی جاہلیت میں بہت سارے معاشرے کے طبقات ایسے ہیں جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں ، اس کے واضح مصادیق میں سے ایک آج کل کے سادات ہوسکتے ہیں، ان میں سےبعض اپنے آپ کو اولاد رسول خدا (صلى الله عليه وآله)کہتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کی شادی کسی غیر سید فیملی میں نہیں کرتے بلکہ سید فیملی میں ہی کرتے ہیں ۔اور کھبی تو ایسا ہوجاتا ہے کہ بچیاں سید فیملی سے رشتہ نہ آنے کی وجہ سے گھر بیٹھی رہتی ہیں یہاں تک کہ ان کی شادی والی عمر نکل جاتی ہے اور وہ شادی سمیت خانہ آبادی اور ماں بننے والی ٰعظیم نعمت سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔اور یہ سب انہیں غلط قسم کے جاہل تصورات کی وجہ سے ہے۔قرآن فرماتا ہے: [خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء]( النساء: 1)، " اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔"
اور رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی تعلیمات میں سے ہے: (إذا جاءكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه)( )، اگر کوئی آپ کے پاس آتا ہے جس کے اخلاق اوردین سے آپ راضی ہیں تو ان سے شادی کرادو۔"اگر رسل اللہ (صلى الله عليه وآله) سے نسبت جوڑ کر ان کو عزت مل جاتی ہے تو یہ سمجھنا چاہیے رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کا شرف اسلام اور اطاعت خدا کی وجہ سے ہے نہ اس لیے کہ وہ محمد بن عبداللہ ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [لَئِنْ أَشرَكتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ]( الزمر: 65)،" کہ اگر تم نے شرک کیا تو ضرور تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔"[وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ، لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ، فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ]( الحاقة: 44 - 47)،" اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا۔تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔"