قرآن کی واپسی میں حوزہ کی مسوولیت

| |عدد القراءات : 453
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

قرآن کی واپسی میں حوزہ کی مسوولیت

اور میرا خیال ہے کہ معاشرے کا پہلا طبقہ جس کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ہے وہ حوزہ علمیہ ہے یعنی اس کے طلباء،اس کے فضلاء ، اس کے خطبا اور اس کے علماء کیونکہ  حوزہ کی بھلائی معاشرے کی بھلائی اور حوزے کا فساد معاشرے کا فساد ہے۔اللہ کی پناہ، رسول اللہ (صلى الله عليه وآله)  کی حدیث شریف میں آیا ہے: (صنفان من أمتي إذا صلحا صلحت أمتي وإذا فسدا فسدت أمتي، قيل يا رسول الله (صلى الله عليه وآله) ومن هم؟ قال (صلى الله عليه وآله): الفقهاء والأمراء)( )." میری امت کے دو طبقے ایسے ہیں اگروہ ٹھیک ہوجائیں  تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوجاتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائیں تو پورا معاشرہ خرا ب ہوجاتا ہے، کہا گیا یا رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) وہ کون ہیں؟تو انہوں (صلى الله عليه وآله)نے فرمایا:علماء اور حکمران ۔"

میں نے اپنی بعض کتابوں میں کہا ہے( )یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ قرآن مدرسہ کے نصاب سے غائب ہے ،حوزے کا نصاب کچھ یوں  تیار کیا گیا ہے کہ طالب علم کو  اپنی تحصیل کے آغاز  سےلے کر انجام تک  اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور دوسری دفعہ ایک آیت تب ہی تکرار کرتا ہے جب کسی نحوی،اصولی، اورفقہی مسئلے میں قرآن سے استدلال کرنا ہو،دقت  اور توجہ سے قرآن کا مطالعہ نہیں کرتا اپنے قلب، روح اور نفس کےلیے قرآن سے غذا نہیں لیتا۔ ممکن ہے کھبی ایسا ہوجائے کہ ایک حوزوی فقہ اور اصول میں ایک بڑے درجے تک پہنچ جائے لیکن وہ ایک قرآنی زندگی نہیں گزار رہا ہو اور قرآن سے تعامل کا اور اس کو ایک اصلاحی پیغام کی طرح لینے کا اس نے تجربہ نہ کیا ہو۔اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دن گزر رہے ہوں، ہفتے گزر رہے ہوں  لیکن طالب علم نے قرآن مجید کو ہاتھ ہی نہ لگایا ہو کہ اس کی  کچھ آیتوں کی تلاوت کرے اور ان میں غور و فکر کرے اور ایسا اس لیے ہوا ہے چونکہ اس کے  اور قرآن کے درمیان  کوئی گہرا روحانی  ارتباط برقرار نہیں۔اگر اسے قرآنی غذا مل جاتی تو یہ دوسروں سے بے نیاز ہوجاتا اور اسے ترک نہ کرتا۔حوزہ اور معاشرے کےلیے یہ ایک بڑی مصیبت ہے اور ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ اسے اچھی طرح سے پڑھنے کے قابل نہ ہوں۔

جب حوزہ کی ذمہ داری  معاشرے کی اصلاح اور  اسے اللہ تعالی کےقریب کرنا ہے تو ان کا پہلا کام قرآن مجید کو سمجھنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہے قوم اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اپنے قرآن پر قائم نہیں رہتی،اس سے ہدایت نہیں لیتی اور اس کے نور سے رہنمائی نہیں لیتی جیسا کہ حدیث ثقلین میں آیا ہے: (إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي أهل بيتي ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي أبداً)( ).

آج کی جاہلیت

انسانیت آج ایک نئی جہالت کی زندگی گزار رہی ہےاس تصور کے مطابق جو قرآن جہالت کو دیتا ہے چونکہ وہ اس کو ایک ایسا دورانیہ نہیں مانتا جو اسلام کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ختم ہوا بلکہ یہ ایک معاشرتی صورتحال ہے جس کا امت شکار ہوچکی ہے۔جب بھی قومیں اللہ تعالی کی شریعت سے روگردانی کرتی ہیں تو اس میں مبتلا ہوجاتی ہیں[أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْماً لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ] (المائدة:50)،" تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں، حالانکہ جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں ان کے ہاں اللہ سے بہتر اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔" اور قرآن پاک نے اس طرف متوجہ کیا ہے جب کہا: [وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى] (الأحزاب:33)" اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو،"یہ گویا ایک دوسری جاہلیت کی طرف اشارہ ہے اور یہ وہی ہے جس میں آج کی انسانیت  اپنی زندگی گزار رہی ہے یعنی بدبختی میں ، بدحالی اور پریشانی میں۔

بلکہ آج کی جاہلیت نے قدیمی تمام جہالتوں کا دو  برابر اپنے اندر سمیٹا ہے، پس  طاقتور کمزور کو کھا رہا ہے، ہم جنس پرستی  کو ایک باضابطہ قانون کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے جو اس کی اجازت دیتا ہے، اور دو مردوں کے مابین شادی قابل قبول ہے ،زنا کی بد بو، اس کی حیوانی بربریت اور اس کی وجہ  سےپیدا شدہ امراض ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں جیسے ایڈز وغیرہ پوری دنیا میں، ناپ تول میں بیمانی نہ  صرف افراد کی سطح پر ، بلکہ ممالک کی سطح پر بھی اپنی تمام شکلوں میں پھیلی ہے، انسانی معاشروں کے مابین تعلقات میں کوئی مساوات نہیں ہے اسے اصطلاح میں  (دوہرا معیار) کہا جاتا ہے ۔ شیاطین انس و جن میں سے راہبوں اور دوسرے گمراہ   سرکردہ رہنماوں  جو کہ ایک دوسرے کو طمع کی باتیں فریب دینے کے لیے سکھاتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنے لیے رب اخذ کرنا  جوکہ حرام کو حلال قراردیتے ہیں اور  حلال کو حرام قرار دیتے ہیں اوراللہ کے علاوہ جن کو معبود بنا کر عبادت کی جاتی ہے، وہ متعدد ہیں  صرف پتھروں تک محدود نہیں بلکہ شیطانی ذہن ان کو اور زیادہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، اور شیاطین انس و جن ایک دوسرے کو  طمع کی باتیں فریب دینے کےلیے سکھاتے ہیں اور صراط متقیم سےروک دیتے ہیں۔[لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ، ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ](الأعراف:16-17)" کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا، اور تو اکثر کو ان میں سے شکرگزار نہیں پائے گا۔')،[وَلاَ تَقْعُدُواْ بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجاً](الأعراف:86)" اور راستوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راہ سے روکو اور اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو"۔ اور خدا کے راستے کی نافرمانی کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور  فظرت سلیم سے منحرف ہونے کی کوشش کرتے ہیں، بے حیائی سے لے کر بغاوت اور فتنہ انگیزی کے جالوں تک ، اسٹاک ایکسچینج تک  ، ان فنکاروں تک جن کے پاس اخلاقیات ، معاشرتی اقدار اور دیگر کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئی کاروبار نہیں ہے۔

یہ ساری کی ساری صفات و خصوصیات اس زمانے کی جاہلیت کی علامتیں ہیں، اور یہ قرآن کا مفہوم ہے کہ جسے مکمل طور پر سمجھنا ضروری ہے۔

اس بیان کی مذید وضاحت کےلیے ہم  پہلی جہالت کے عقاید و رسومات اور موجودہ جاہلیت کے عقائد و رسومات کے مابین ایک مقایسہ کرتے ہیں،اور اس مقایسہ کے اہداف میرے نزدیک متعدد ہیں:

۱۔قرآنی مفاہیم اور اصطلاحات کو واضح کرنا اور ان کے معانی کا استنباط کرنا  جن کا قرآن نے ارادہ کیا ہے اور ان پر پڑی دھول کو  صاف کرنا جو کہ قرآن سےغفلت کا نتیجہ ہے،اور عقول کا اس کی طرف رجوع کیے بغیر  استعمال کرنا۔

۲۔  قرآن کی ضرورت کو سمجھنا جب ہمیں سمجھ آجاے کہ انسانیت اپنی پہلی جاہلیت کی طرف پلٹ چکی ہے اور اب اس کو قرآن کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا کرادار ادا کرے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حقیقی اسلام کی طرف لے کر جائے۔

۳۔ مھدویت کو فروغ دینا(أرواحنا له الفداء) اور اس بات پر علمی دلیل اقامہ کرنا  کہ بشریت پہلی جاہلیت کی طرف پلٹ چکی ہے اس  ڈوبتی ہوئی انسانیت کو بچانے کےلیے قرآن کا فی نہیں بلکہ  رسول الله (صلى الله عليه وآله) کی طرح جسمانی طور پر زمین پر  کوئی موجود ہو اگرچہ وہ نبی نہ ہو چونکہ نبوت کا سلسلہ ان (صلى الله عليه وآله) کے ساتھ ہی منقطع ہوچکا ہے اور یہ صفات  صرف الحجة بن الحسن (أرواحنا له الفداء) میں ہی جمع ہیں، اور یہی وہ علامات ہیں جو متحقق ہوچکی ہیں اور  اور الموعود کا دن قریب  آچکا ہے۔.