قرآن کے سایئے میں زندگی
قرآن کے سایئے میں زندگی
میں نے زندگی قرآن کے سایئے میں ہی گزاری ہے۔ میں اس کی دیکھ بھال میں جوانی کے دور میں سالوں تک رہا ، اور میں اسے سال میں بیس سے پچیس دفعہ ختم کرتا تھا، یہاں تک کہ قرآن میرے گوشت،خون،فکر،زبان اور دل میں شامل ہوگیا،اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ دو اہم تفسیروں کا دقت سے مطالعہ بھی کرتا تھا اور اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میری فکری اور علمی شخصیت بنانے میں ان دو تفسیروں کا اہم کردار ہے اور یہ دونوں تفسیریں (الميزان) اور (في ظلال القرآن) ہیں یہاں تک کہ میں نے ان دونوں کو مکمل کیا اور ان کے اہم نکات کو میں نے خلاصے کے طور پر لکھ لیا اور بعد میں استمرار کے ساتھ میں نے ان کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ وہ افکار اور اچھے لحاظات ہمیشہ کےلیے میرے ذہن،روح اور دل میں زندہ ہیں۔
آپ کو قرآن مجید میں کیا ملا؟ اور جو لوگ قرآن کے سایئے میں زندگی گزارتے ہیں ان کو کیا ملے گا؟عنقریب اس کو اللہ تعالی سبحانہ کی عظمت، اس کی آیات ،قوانین،سنن اور ہر چیز پر اس کی قدرت نظر آئے گی،اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہیں، قوت اور بادشاہت صرف اسی کی ہے، وہی زمین اور جو کچھ اس پر ہے اس کا وارث ہے اور اسی کی طرف انسان لوٹ کر جائیں گے اور وہ شہ رگ سے زیادہ ان کے قریب ہے،اور انسان اور اس کے دل کے درمیان مانع اور حائل ہے، کوئی کسی کو نقصان اور فائدہ نہیں پہنچا سکتا مگر اس کے اذن کے ساتھ، پس اس وقت اللہ تعالی کے سوا ساری چیزیں حامل قرآن کے سامنے چھوٹی ہوجائیں گی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ چیزیں ظاہرا بڑی ہوں یا اس کے پیروکار اور دوست اس کو بڑا بنانے کی کوشش کرتے ہوں۔ اور اللہ تعالی کی قدرت ان کے بنائے منصبوں کو تباہ برباد کردے گی ، نہ قوم عاد کی مادی قدرت باقی رہے گی اور نہ فرعون کی قدرت باقی رہے گی اور نہ قارون کے وہ خزانے بچیں گے جن کی چابیں ایک طاقتور قوم اٹھاتی تھی۔
لیکن حامل قرآن کی قوت اللہ تعالی سے متصل ہوگی۔ وہ اللہ تعالی کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا [مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ](العنكبوت:41)، ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا حمایتی بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے، جس نے گھر بنایا، اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے، کاش وہ جانتے۔ (من خاف الله أخاف الله منه كل شيء)( ).
"جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی ہر چیز اس سے ڈراتا ہے۔"
اور عنقریب تم دیکھو گے یہ بڑی طاقتیں جو [يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى](طه:66)، ان کے جادو سے اس کے خیال میں دوڑ رہی ہیں، اور جو چاہتی ہیں اس کو انجام دینے پر قادر ہیں اور ہر چیز ان کے سامنے ایسے پگھل جاتی ہے جیسے نمک پانی میں، لیکن اللہ تعالی آپ کو بتا دیتا ہے کہ ان کی نابودی اور بربادی کے پیچھے کون ہے: [فَأَتَى اللّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَشْعُرُونَ، ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَآئِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ قَالَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالْسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ](النحل:26-27). پھر اللہ نے ان کی عمارت کو جڑوں سے ڈھا دیا، پھر ان پر اوپر سے چھت گر پڑی، اور ان پر عذاب آیا جہاں سے انہیں خبر بھی نہ تھی۔پھر قیامت کے دن انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن پر تمہیں بڑی ضد تھی، جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ بے شک آج کافروں کے لیے رسوائی اور برائی ہے۔
اور مومنین اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے اور اسی طرح ان کی طرف سےراحت، سکون اور اطمینان بھی پائیں گے لیکن اس کے بعد: [مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ](البقرة:214)، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔
امتحان کا لیا جانا ضروری ہے: [ألم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ] (العنكبوت:1-3). ا ل مۤ۔کیا لوگ خیال کرتے ہیں یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔اور جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ہم نے انہیں بھی آزمایا تھا، سو اللہ انہیں ضرور معلوم کرے گا جو سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔
پس اس وقت مومن نے جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے ان کا اعتراف کرے گا چونکہ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے پس اس پر واجب ہے کہ وہ ان حالات میں صادق ہو اور اللہ سچوں کو عنقریب جزا دے گا اور اس کےلیے قدم بڑحانا آسان کردے گا چونکہ سب کچھ اللہ کے سامنے ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے:[فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا]( الطور: 48) بے شک آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔)،[ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لاَ يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلاَ نَصَبٌ وَلاَ مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَطَؤُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلاَ يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلاً إِلاَّ كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ] (التوبة: 120). وہ اس لیے ہے کہ انہیں اللہ کی راہ میں جو تکلیف پہنچتی ہے پیاس کی یا ماندگی کی یا بھوک کی یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں جو کافروں کے غصہ کو بھڑکائے اور یا کافروں سے کوئی چیز چھین لیتے ہیں ہر بات پر ان کے لیے عمل صالح لکھا جاتا ہے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
وہ اپنے ایمان کی بلندی سے جس نے اس کے دل کو آباد کیا ہے ان اعلی علوم و معارف کا مشاہدہ کرے گا جنہیں وہ اس بھٹکی ہوئی انسانیت کےلیے لے کر آیا ہے جو کہ سراب کے پیچھے بھاگتی ہے اور جھوٹے مقاصد کےلیے زندگی گزارتی ہے اور ایسی چیزوں کی آرزو کرتی ہے جنہیں شیطان کے دوست خوبصورت بنا کر اس کےسامنے پیش کرتے ہیں اور وہ چیزیں مال و دولت ، شان و شوکت اور شہوات ہیں جن کےلیے انسان ایک دوسرے سےلڑتے ہیں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں جبکہ یہ چیزیں ان کےلیے وبال جان ہیں۔اپنے لیے بت تراشتے ہیں ، اس کی عبادت کرتے ہیں اس کی اطاعت کرتے ہیں اور ان سے وفاداری نبھاتے ہیں۔ان کےلیے پارٹیز، کانفرنسز اور جشن و تہوار کا انعقاد کرتے ہیں ،ان کےلیے قربانی پیش کرتے ہیں لیکن نہ صرف حیوانوں کی قربانی بلکہ انسانوں کی قربانی بھی پیش کرتے ہیں اور لاکھوں کے حساب سے پیسہ ان کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔
پس انسان دیکھے گا کہ وہ اس وقت تک تنہا نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کمزور ، ذلیل ، مطیع اور ہتھیار ڈالنے کا احساس نہ کرے اور نہ ہی جن حالات کا وہ سامنا کررہا ہے، جن حالات کو وہ مشاہدہ کررہا ہے اور جن حالات میں وہ زندگی گزار رہا ہے کوئی نئی بات ہےاور نہ ہی اس کا تجربہ انوکھا ہے۔[قُلْ مَا كُنتُ بِدْعاً مِّنْ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلا مَا يُوحَى إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلا نَذِيرٌ مُّبِينٌ]( الأحقاف: 9)، کہہ دو میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ تمہارے ساتھ، میں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور سوائے اس کے (کوئی بات) نہیں کہ میں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔
پس اس راستے پر اس سے پہلے أنبياء عظام وأولياء كرام، مبلغین ، اصلاح کرنے والے اور اللہ کے نیک بندے تھے۔ انہوں نے اس سے کہیں زیادہ تکلیف برداشت کی اور صبر کیا اور اپنے معاشرے کا ان سے زیادہ سامنا کیا ۔بات ایک ہی ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا: [فَمِنْهُم مُّهْتَدٍ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ]( الحديد: 26(پس بعض تو ان میں راہِ راست پر رہے، اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں۔)،[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إذا اهْتَدَيْتُمْ]( المائدة: 105). "اے ایمان والو! تم پر اپنی جان کی فکر لازم ہے، تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی گمراہ ہو جب کہ تم ہدایت یافتہ ہو"
اور وہ اپنی تخلیق کے لیےخدا کا شرف دیکھے گا جب وہ خود ان سے مخاطب ہوکر ان سے براہ راست خطاب کرے گا، عظیم خدا ، آسمانوں اور زمین کاخالق، انتہائی خوبصورت ناموں کے ساتھ ، ان کی طرف اپنا پیغام بھیجے گا اور انہیں اپنا عہد سونپ دے گا یعنی ان کو اور شرف بخشے گا اور اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوسکتی ہے۔[وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً]( الإسراء: 70) اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی۔
آپ اپنے محبوب کا پیغام پڑھنے والے شخص کے احساسات کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ المطلق (إن القرآن عهد الله إلى خلقه فينبغي لكل مؤمن أن ينظر فيه)( )."بے شک قرآن اپنے بندوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے پس ہر مومن کو چاہیے کہ اس میں غور کرے۔"
اور عنقریب وہ دیکھے کہ ہر چیز اس کائنات میں ایک دقیق مقدار کےمطابق ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ]( القمر: 49)، بے شک ہم نے ہر چیز اندازے سے بنائی ہے۔
[وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ]( الحجر:21)، اور ہم صرف اسے معین مقدار پر نازل کرتے ہیں۔
[وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ]( الأنبياء: 47)، "ہم انصاف کی ترازو قائم کریں گے۔"
تمام مخلوقات ، افراد اور معاشرے ، مقررہ عمر کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔
[سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ]( النساء: 26)،" تمہیں پہلوں کی راہ پر،"
)،[وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ]( الأنعام: 38)
"اور ایسا کوئی زمین پر چلنے والا نہیں اور نہ کوئی دو بازوؤں سے اڑنے والا پرندہ ہے مگر یہ کہ تمہاری ہی طرح کی جماعتیں ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع کیے جائیں گے۔"
اس عظیم قانون الہی سے کو ئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔[فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلاً]( فاطر: 43)، "پس تو اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا، اور تو اللہ کے قانوں میں کوئی تغیر نہیں پائے گا۔"
جب کوئی شخص اللہ تعالی کی سنت اور اس کے قوانین کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتا ہے ، تو وہ کس طرح دوسروں کی عبادت کرسکتا ہے؟پس یہاں کھیل کود اور فضولیات میں وقت گزارنے کی گنجائش نہیں۔[رَبَّنَآ مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَِ]( آل عمران: 191)، "اے ہمارے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا تو سب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔"
[وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ]( الذاريات: 56)، "اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے۔"[لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْواً لاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ]( الأنبياء: 17) "اور اگر ہم کھیل ہی بنانا چاہتے تو اپنے پاس کی چیزوں کو بناتے اگر ہمیں یہی کرنا ہوتا۔"بے دلیل اور اتفاقی واقعات کی کوئی گنجائش نہیں جنہیں ملحدین طویل عرصے سے کھینچ رہے ہیں اور کئی سالوں سے لوگوں کے اذہان کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کے توسط سے کئی لوگوں کو یہ منحرف کرچکے ہیں خدا ان کا بیڑا کرے۔پس انسان کی تخلیق کے پیچھے ایک مقصد ہےانسان کو چاہیے اسی ہدف کےلیے زندہ رہے اور اس مقصد کے حصول کےلیے اپنی پوری طاقت لگائے اور وہ ہدف اللہ تعالی کی رضا ہے۔
عنقریب قرآن مجید میں وہ خدائی امداد کی فراہمی کا وعدہ پا لے گا، ہر مشکل میں ،نفس امارہ یا شیطان کے ساتھ معرکے میں ،اللہ تعالی اس کے ساتھ ہے اور جب تک وہ اللہ کے ساتھ ہے اللہ اس کی نصرت کےلیے کافی ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلا تَخَافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ، نُزُلا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ، وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ]( فصلت: 30 - 33) "بے شک جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور جنت میں خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ہم تمہارے دنیا میں بھی دوست تھے اور آخرت میں بھی، اور بہشت میں تمہارے لیے ہر چیز موجود ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تم جو وہاں مانگو گے ملے گا۔بخشنے والے نہایت رحم والے کی طرف سے مہمانی ہے۔اور اس سے بہتر کس کی بات ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور خود بھی اچھے کام کیے اور کہا بے شک میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں۔"
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیات ہیں جو مومنین کے دلوں پر سکون اور اطمنان کے نزول پر دلالت کرتی ہیں اور ملائکہ وغیرہ کے ذریعے ان کی مدد پر۔
پس وہ قرآن کے سائے میں اطمینان پائے گا۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے: [أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ]( الرعد: 28)، "اللہ کے ذکر کے ساتھ اپنے دلوں کو مطمئن کرو۔"ذہنی سکون ، دلوں کی شفاء،ہدایت اور برکت اور دوسری اچھائیوں سے قرآن نے اپنی توصیف کی ہے۔
حامل قرآن جب یہ سب حاصل کرے گا تو اس کا عزم مضبوط ہوجائے گا، اس کا دل قوی ہوجائے گا،اس کے نفس کو سکون و آرام ملے گا،اس کی ہمت بڑھے گی اور اس کی حکمت ظاہر ہوجائے گی اس کے بعد یہ عطا کا مرکز ، اپنے اور معاشرے کے لئے بھلائی کا ذریعہ ہوگا۔ جیسا کہ عظیم مصلحین کا یہی حال ہے جن میں سب سے آگے رسول الله (صلى الله عليه وآله اور أمير المؤمنين (عليه السلام) ہیں .