موعظة، شفاء ہدایت اور رحمت
موعظة، شفاء ہدایت اور رحمت
اس آیت کی تفسیر میں سید طباطبائی (قدس سره) نے جو بیان کیا ،اختصار کے ساتھ اسے یہاں پر میں بیان کرتا ہوں۔راغب نے المفردات میں کہا ہے:وعظ: یعنی دھمکی سمیت ڈانٹنا۔اور خلیل نے کہا: یہ دل کی بھلائی اور سینوں کی افادیت کی یاد دہانی ہے، یہ کنایہ ہے تمام روحانی خبیث صفات کے ختم ہوجانے سے جو انسان کے شقی ہونے،اس کی اچھی زندگی کے خراب ہونے کا سبب بنتی ہیں اور دنیا و آخرت کی بھلائی اس پر حرام قرار دیتی ہیں،اور اس نے صدور یعنی دلوں سے تعبیر کیا چونکہ جب لوگوں نے دل سینے میں پایا تو سوچا کہ انسان جو کچھ درک کرتا ہے وہ دل سے درک کرتا ہے اور اسی کے توسط سے امور کو سمجھتا ہے، اسی سے محبت ، بغض، ارادہ، نفرت، اشتیاق اور امید کرتا ہے اور یہ خواہش کرتا ہے کہ اپنے دل کو جو کچھ اس کے دل میں ہے یعنی اس کے اسرار اور روحانی صفات جو کہ انسان کے باطن میں ہیں یعنی فضائل اورذائل، اس کےلیے خزانہ قرار دے۔
میں کہتا ہوں:احادیث دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کریم شفاء ہے تمام جسمانی امراض کےلیے بلکہ بعض احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ اگر سورہ فاتحہ ۷۰ دفعہ کسی مردے پر پڑھی جائے تو مردہ زندہ ہوجاتا ہے اور یہ عجیب نہیں ہے۔
رحمت ، کسی کو پریشانی یا کوئی نقصان اٹھاتے ہوئے دیکھ کردل میں اس کےلیے ایک خاص احساس کا پیدا ہونا ہے اور رحم کھانے والے بندے کا نقصان اٹھانے والے بندے کی پریشانی کو کم کرنا اور اس کا نقصان پورا کرنا ہے۔اور جب اس بات کی نسبت دی جائے خدا وند متعال کی طرف تو یہ نتیجہ کے معنی میں ہوگا نہ احساس و تاثر کے معنی میں چونکہ اللہ تعالی پاک و منزہ ہے اس طرح کے احساس سے جو مخلوق کو حاصل ہوتا ہے پس اللہ کے مورد میں رحمت سے مرادمطلق عطا ہے اور اس کا فیض ہے جو اپنی خلق کو عطا کرتا ہے۔
میں کہتا ہوں:ان اسمائے مبارکہ کی تشریح یہاں پر صرف ایک جہت سے تھی اور اللہ تعالی کے مورد میں ان کا فہم ناممکن ہے مخلوقات کی نسبت۔
جب آپ ان چار صفات پر توجہ کریں گے جنہیں اللہ تعالی سبحانہ نے مذکورہ آیت میں بیان کیا ہے، میری مراد موعظہ، شفا،ہدایت اور رحمت - اور ان کا آپس میں مقایسہ کریں گے اور پھر ان میں غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ آیت ایک جامع بیان ہے چونکہ اس کا عمدہ اور پاکیزہ اثر اور اس کا پاک و طاہر عمل عام ہے جو وہ مومنین کے نفسوس اور دلوں میں بٹھادیتا ہے- اور یہ انہیں احساس دلاتا ہے۔
اور کھبی ان پر غفلت طاری ہوجاتی ہے اور اضطراب انہیں گھیر لیتا ہے۔ شک و شبہات کی تاریکی ان کا باطن تاریک کردیتی ہے اور ان کے دل اخلاقی بیماروں کی وجہ سے بیمار پڑتے ہیں تو ان حالات میں قرآن ان کو وعظ ونصیحت کرتا ہے ان کو خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے، ان کی بری عادتوں اور ان کے برے اعمال پر انہیں ان کی سرزنش کرتا ہے اور نیکی اور سعادت کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
پھر ان کو حقیقی علوم،اچھے اخلاق اور اچھے اعمال سے آشنا کرواتا ہے جن کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کا درجہ بلند ہوتا ہے اور وہ اللہ کے قریب ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مقربین میں شامل ہوجاتے ہیں اور مخلصین کی طرح وہ بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔
پھر یہ انہیں رحمت کا لباس پہناتا ہے، انہیں دار الکرامت میں لے کر آتا ہے اور انہیں خوشی کے تخت پر بیٹھتا ہے یہاں تک کہ وہ نبیوں، صدیقین،شہداء اور صالحین کے ساتھ ملحق ہوجاتے ہیں، جو کہ بہت اچھے دوست ہیں اور انہیں اعلی علیین میں مقربین کے زمرے میں داخل کرتا ہے۔
پس قرآن ایسا واعظ ہے جو دلوں کو شفا دیتا ہے، صراط مستیم کی طرف ہدایت کرتا ہے، اللہ تعالی کے اذن سے رحمت افاضہ کرتا ہے چونکہ اللہ اور اس کی مخلوقات کے درمیان یہ رابط ہے، یہ دلوں کےلیے موعظہ اور شفا ہے اور مومنین کےلیے رحمت اور ہدایت ہے۔