نبی اور اہل بیت نبی(صلوات الله عليهم أجمعين) کا قرآن کےلیے اہتمام
نبی اور اہل بیت نبی(صلوات الله عليهم أجمعين) کا قرآن کےلیے اہتمام
"اہل بیت(عليهم السلام) کی قرآن پر توجہ اتنی زیادہ تھی کہ امام سجاد (عليه السلام) نے فرمایا:اگر مشرق اور مغرب کے درمیان موجود تمام لوگ مر جایں اور قرآن مجید میرے ساتھ ہو تو مجھے تنہائی سے نہیں لگے گا۔"
رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے قرآن کی تلاوت کا حکم دیا ہے :[وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً] (المزمل:4) اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر
اور اللہ تبارک و تعالی نے انہیں حکم دیا کہ وہ رات کا فرض ادا کرکے اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجائے، پس اللہ تعالی نے فرمایا: [إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً، إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً وَأَقْوَمُ قِيلاً] (المزمل:5-6) " ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری بات کا (بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔بے شک رات کا اٹھنا نفس کو خوب زیر کرتا ہے اور بات بھی صحیح نکلتی ہے۔"اور رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) نے صرف تلاوت کو کافی نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ وہ ان کے محضر میں قرآن کی تلاوت کرے تو اس نے معذرت کی اور کہا: (إنه نزل عليك يا رسول الله وتريد أن تسمعه مني. فيقول (صلى الله عليه وآله):یا رسول اللہ یہ آپ پر نازل ہوا ہے اور آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں تو رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: أحب أن أسمعه منك. فيقرأ عبد الله وعينا رسول الله (صلى الله عليه وآله) تفيض من الدمع)." میں چاہتا ہوں میں یہ آپ سے سنوں، پس عبداللہ نے قرآن پڑھا اور رسول الله (صلى الله عليه وآله) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔"
آنحضرت چاہتے تھے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے اس کے تمام اعضا ء و جوارح لطف اٹھائیں؛ ان کا دل، ان کے کان اور ان کی زبان۔ وہ جانتے تھے کہ ہر عضو کا علم حاصل کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے، پس اس نے چاہا- جب کہ وہ اکمل خلق ہیں- کہ اس کے تمام اسباب کامل ہوں۔اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جس نے بھی حواس میں سے کوئی حس کھویا تو اس نے ایک علم کھویا، پس اس نے چاہا اپنے تمام جوارح کے ساتھ معارف قرآن سے استفادہ کرے، اسی وجہ سے قرآن کریم اونچی آواز میں پڑھنا مستحب ہے۔ یہ اس سے مختلف ہے جو قرآن مجید کو سننے اور قرآن کو دیکھنے کی فضیلت اور ثواب میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر وہ نماز میں پڑھنے کے باوجود جو کچھ پڑھتا ہے اسے حفظ کرلیتا ہے ، اس بارے میں آگےحدیث کا ایک مجموعہ انشااللہ ذکر کیا جائے گا۔
آنحضرت(صلى الله عليه وآله) قرآن سے بہت لگاو رکھتے تھے،ایک دفعہ آپ (صلى الله عليه وآله) نے مسلمانوں کےلیے سورہ رحمن کی تلاوت کی جب کہ وہ غور سے اسے سن رہے تھے،رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: میں نے یہ سورہ جنات کےلیے بھی پڑھی تھی وہ قرآن کے سننے میں آپ سے بہتر تھے، انہوں نے پوچھا وہ کیسے یا رسول اللہ (صلى الله عليه وآله)؟ تو رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا:میں جب بھی پڑھتا تھا: [فَبِأَيِّ آلاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ] تو وہ کہتے تھے: لا بشيء من آلائك ربنا نكذّب اور جب اللہ تعالی کا یہ قول پڑھا : [أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى] تو آپ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: بلى سبحانك اللهم، چونکہ وہ براہ راست خطوط اور سطور کے ذریعے خدا تعالٰی سے سنتے تھے۔
اور آگے بیان ہوگا کہ امام کاظم (عليه السلام) قرآن ایسے پڑھتے تھے جیسے وہ کسی سے مخاطب ہوں، رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے سورہ زمر ایک پاک دل جوان پر پڑھا اور جب اس آیت تک پہنچے: [وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً](الزمر:73) " اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے رہے جنت کی طرف گروہ گروہ لے جائے جائیں گے"اس جوان نے ایک لمبی سانس لی جیسے اس کی جان نکل گئی،آنحضرت (صلى الله عليه وآله) نے سورہ دھر کی تلاوت کی اور جب یہ سورہ آنحضرت پر نازل ہورہی تھی تو ان کے پاس ایک سیاہ فام شخص تھااور جب وہ جنت کی صفت تک پہنچے تو اس نے ایک چیخ ماری اور اس کی جان نکل گئی۔
پس رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا:جنت کے شوق نے تمھارے ساتھی کی جان نکال دی، یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی اس آیت نے توصیف کی ہے: [الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ](البقرة:121)." وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے، وہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں، جو اس سے انکار کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔"