جس نے بھی عترت طاہرہ سے منہ موڑا اس نے قرآن سے تمسک نہیں کیا

| |عدد القراءات : 669
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

جس نے بھی عترت طاہرہ  سے منہ موڑا اس نے قرآن سے تمسک نہیں کیا

لیکن امت نے کتاب خدا کو ترک کیا اور اس سے دور ہوگی-یہ تب ہوا- جب سے اس نے عترت طاہرہ کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا دیا وہ مقام جسے اللہ نے ان کےلیے انتخاب کیا تھا چونکہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ممکن نہیں۔انہوں نے اللہ تعالی کے  اس قول سے رو گردانی کی : [وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ](القصص:68). "اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے، انہیں کوئی اختیار نہیں ہے۔"

اور کسی کا یہ کہنا (حسبنا كتاب الله)غلط ، شیطان کا فریب  اور نفس امارہ کا دھوکہ ہے جسے ابھی تک وہ تکرار کرتا ہےاور شیطان اس شخص کی زبان سے یہ جاری کرواتا ہے جو اسلام کی اساس کو خراب کرنا چاہتا ہےکہ اس اساس  میں خود  قرآن بھی ہے جس کے بارے میں ادعا کیا جاتا ہے کہ وہ کافی ہے جب کہ حقیقت یہ  ہے کہ قرآن کی فعالیت مشروط ہے ایسے شخص کے ساتھ جو اس  پر  عمل کرتا ہے اور اس کے مفاہیم اور احکام سے واقف ہے اور وہ عترت ہے۔

اور یہ فتنہ- قرآن اور  اس کے ناطق پرانا ہے اور جو لوگ اس فتنے کا شکار ہوگئے ان میں سے ایک امیرالمومنین  علیہ السلام تھے جب انہیں ثالثِی اور قرآن کو حکم  قرار دینے پر مجبور کیا گیا ،امام علیہ السلام نے فرمایا: (هذا القرآن إنما هو خط مستور بين الدفتين لا ينطق بلسان ولا بد له من ترجمان وإنما ينطق عنه الرجال)[1]

"یہ قرآن  ایک لکھا ہوا  خط ہے جو کہ دو جلد کے درمیان چھپا ہوا ہے اور یہ زبان کے ساتھ بولتا نہیں، اس کو ترجمان کی ضرورت ہے اور یقینا انسان ہی اس کی ترجمانی کرسکتے ہیں۔"پس کتاب اور عترت  ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں اور ان میں سے ایک سے تمسک کرکے دوسرے کو چھوڑنا ممکن نہیں، اہل البیت علیہ السلام اللہ تعالی کا دروازہ ہیں جو اسی کی طرف سے معین ہے اور ہمیں اس نے دروازوں کے ذریعے ہی گھروں میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔

دوسرے لوگ جو ہمارے مقابلے میں قرآن مجید میں زیادہ دلچسپی لینے کا دعوی کرتے ہیں وہ قطعی غلط ہے۔ البتہ انہوں نے حروف کے مخارج پر ،غنا کی حد تک    خوبصورت آواز میں اسے پڑھنے اور ان قوانین کی رعایت کرنے جو انہوں نے وضع کیے ہیں اور ان میں سے بعض تو حکم شرعی کے خلاف ہیں، توجہ دی ہے، اور ان تمام امور کا تعلق ظاہر سے ہے، اور جو چیز اصل ہے وہ اس کا محتوی اور مضمون ہے اور اس پر عمل کرنا ہے ،لفظ چھلکا ہے اور  معنی وہ لب  اور مغز ہے اور متکلم  صرف لفظ کو ملاحظہ نہیں کرتا  بلکہ اس کو معنی کےلیے ظرف  قرار دیتا ہے اور مخاطب تک بات پہنچانے کےلیے وسیلہ قرار دیتا ہے اور متکلم  کا اصل ہدف اور مراد معنی ہے۔

اور قرآن مجید کے الفاظ اور خطوط سے بیان بازی کرنے والوں اور اس کے معانی کو ضایع کرنے والوں  کی مذمت میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ایک مشہور حدیث ہے: (كم من قارئ للقرآن والقرآن يلعنه)[2] " قرآن کے پڑھنے والے کتنے ہی ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے۔"قرآن اس کا مخالف ہے چونکہ وہ جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل نہیں کرتا اور أبي جعفر (عليه السلام) کی حدیث ہے، انہوں نے فرمایا: (قرّاء القرآن ثلاثة: رجل قرأ القرآن فاتخذه بضاعة واستدر به الملوك واستطال به على الناس فذاك من أهل النار، ورجل قرأ القرآن فحفظ حروفه وضيع حدوده فذاك من أهل النار، ورجل قرأ القرآن فوضع دواء القرآن على داء قلبه فأسهر به ليله وأظمأ به نهاره وقام به في مساجده وتجافى به عن فرشه فبأولئك يدفع الله العزيز الجبار البلاء، وبأولئك يديل الله من الأعداء-أي ينصرهم على الأعداء- وبأولئك ينزل الله الغيث من السماء فوالله هؤلاء قراء القرآن أعز من الكبريت الأحمر)[3] قرآن کے پڑھنے والے تین طرح کے ہیں:ایک وہ شخص   جو قرآن اس لیے پڑھتا ہے تاکہ اس کے ذریعے بادشاہوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کے درمیان اپنے اوپر افتخار کرے، یہ شخص اہل جہنم میں سے ہے، دوسرا وہ شخص ہے  جو قرآن پڑھتا ہے اس کے الفاظ کو حفظ کرتا ہے لیکن اس کے احکامات پر عمل نہیں کرتا یہ بھی اہل جہنم ہے اور تیسرا وہ شخص ہے جس نے قرآن پڑھا ہے،اور قرآنی دواء کو اپنے  درد دل پر رکھا ہے،اس کی رہنمائی میں  راتوں کو جاگتا ہے اور دنوں میں پیاسا رہتا ہے اور مساجد میں نماز کےلیے کھڑا ہوتا ہے، اپنے  نرم بستر کو ترک کرتا ہے۔اللہ تعالی  انہی کی خاطر بلا دور کرتا ہے اور انہی کے توسط سے دشمنوں سے انتقام لیتا ہے اور انہی کے طفیل آسمان سے بارش برساتا ہے۔ خدا کی قسم   قرآن کے ایسے قارئین خالص سونے سے کم ہیں۔"

اور امام حسن(عليه السلام) کی ایک حدیث  میں آیا ہے: (وإن أحق الناس بالقرآن من عمل به وإن لم يحفظه وأبعدهم منه من لم يعمل به وإن كان يقرأه)[4] " لوگوں میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن پر عمل کرتا ہے اگرچہ اس نے اسے حفظ نہیں کیا ہے اور لوگوں میں بد ترین شخص وہ ہے جو قرآن پر عمل نہیں کرتا ہے اگرچہ وہ اسے پڑھتا ہے"۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب اور عترت کو الگ کرنے اور اس طرح کتاب کو اس کے محتوی اور مضامین  سے خالی کرنے اور  صرف اس کے الفاظ پر توجہ دینے کی ترغیب دینے کا منصوبہ پرانا ہے۔ اور اس بات کی طرف معصومین (عليهم السلام) نے متوجہ کیا ہے۔پس جو بھی قرآن کےلیے اہتمام کرتا ہے اور اللہ تعالی کا یہ قول پڑھتا ہے: [وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ] (القصص:68) "اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے، انہیں کوئی اختیار نہیں ہے۔" اور پھر اللہ تعالی نے ان کےلیے جو اختیار کیا ہے اس سے منہ موڑتے ہیں اور ان کے غیر کو ان پر مقدم کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے اس امر کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا ہے اور  اسلام کی رسالت کو دوسرے پلڑے میں رکھا ہے [يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ](المائدة:67)." اے رسول! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، بے شک اللہ کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا۔" اور قرآن کا کوئی بھی پیرکار جو بلند آواز میں یہ پڑھتا ہے[قُل لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى](الشورى:23)"  کہہ دو میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا بجز رشتہ داری کی محبت کے"۔ اور پھر أهل بيت النبوة کےلیے  دشمن بناتا ہے اور ہر جگہ  ان کی پیروی کرتا ہے اور اگر انہیں کتاب خدا کی ذرا سی بھی سمجھ ہوتی تو اس آیت کو اللہ تعالی کے اس قول کے ساتھ ملاتے[قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً](الفرقان:57)" کہہ دو میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راستہ معلوم کرنا چاہے۔" تا کہ ان کو اس حقیقت کا علم ہوجاتا کہ  اہل بیت علیہم السلام  ہی وہ راستہ  و سبیل ہیں جن کی پیروی کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے،اس قول کے ساتھ: [وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ](الأنعام:153)" اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے سو اسی کا اتباع کرو، اور دوسرے راستوں پر مت چلو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے، (اللہ نے) تمہیں اسی کا حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔" اور امام باقر (عليه السلام)  نے اپنے اس قول کے ساتھ اس آیت کی تفسیر کی ہے کہ: (نحن السبيل فمن أبى هذه السبل فقد كفر)[5]" ہم ہی وہ راستہ ہیں جو بھی اس راستے کا انکار کرے گا وہ کافر ہے"

اور جو لوگ بھی (حسبنا كتاب الله)  کا نعرہ لگاتے ہیں اور صرف قرآن سے ہی دلیل مانگتے ہیں ان سے کہا جائے کہ یہ بات درست ہے لیکن اس سے جو ارادہ کیا جارہا ہے وہ باطل ہے، بلکہ یہ کلمہ ہی باطل ہے اور اس سے باطل کا ہی ارادہ کیا جارہا ہے۔ اور یہ لوگ اس کے ذریعے اسلام کی بنیادوں کو خراب کرنا چاہتے ہیں کیونکہ قرآن پر اکتفاء کرنے کا مطلب ہے- جیسا کہ وہ گمان کرتے ہیں- بے نیازی حتی رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے بے نیازی اور  اس کا مطلب ہے شریعت کی ساری تفصیلات سے لاعلمی، بے شک رسول الله (صلى الله عليه وآله) اور اس کی آل سے آئمہ معصومین علیہم السلام  اس قرآن  کے پابند ہیں اور وہی اس کے احکام کو بیان کرنے والے ہیں۔

اور یہ تمام علوم جو اس وقت موجود ہیں، کیا ممکن ہے آپ ڈاکٹر یا انجینئر بن جایں بغیر اس فیلڈ کے سپیشلسٹ اور استاد کی مدد کے جو  کہ اس فیلڈ کے رموز و اسرار سے واقف ہے اور اس علم کو سمجھتا ہے؟ پس قرآن  کیسے بغیر معلم کے سمجھ میں آسکتا ہے جو کہ :[تِبْيَاناً لِّكُلِّ شَيْءٍ](النحل: 89) "جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے۔" و[مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ](الأنعام:38) "ہم نے ان کی تقدیر کے لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔"اور اس میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے،ہرزمانے میں[مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ](الصافات:154) "تمہیں کیا ہوا کیسا فیصلہ کرتے ہو۔"اور رسول خدا (صلى الله عليه وآله) نے اس خطرے کی طرف اپنے اس قول  کے ذریعے اشارہ کیا ہے: (لا ألفين أحدكم متكئاً على أريكته يأتيه الأمر من أمري مما أمرت به أو نهيت عنه فيقول: لا ندري ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه)[6]" میں تم میں سے کسی کو نہ دیکھوں اس حال میں  کہ وہ تکیہ لگا کے بیٹھا ہے اور میرے اوامر میں سے کوئی امر یا نہی اس تک پہنچے اور وہ بولے: میں نہیں جانتا،اور ہم صرف اسے قبول کرتے ہیں جو کتاب خدا میں موجود ہے۔"

لیکن اللہ سبحانہ و تعالی کے دشمن  اور شیطان کے پیروکار جانتے ہیں کہ قرآن اس امت کا قلعہ ہے جو انہیں انحراف سے بچاتا ہے اور اہل بیت (عليهم السلام) اس کے محافظ ہیں پس انہوں نے انہیں قوم سے دور کرنے کا منصوبہ بنایا، پس قوم بغیر لیڈر کے  رہ گئی اور قلعہ بغیر محافظ کے رہ گیا اور دشمن  کے ہاتھوں آسان شکار بن گئی ا ور اب آپ اسے سیدھے سادے شبہے سے لرزتے ہوئے دیکھتے ہیں اور مشکل اور امتحان کے آغاز میں ہی  یہ ڈھیر ہوجاتی ہے۔

((وهذه أعظم ثلمة انثلم بها علم القرآن وطريق التفكر والتفكير الذي يندب إليه، ومن الشاهد على هذا الإعراض قلة الأحاديث المنقولة عنهم (عليهم السلام) فإنك إذا تأملت ما عليه علم الحديث في عهد الخلفاء من المكانة والكرامة وما كان عليه الناس من الولع والحرص الشديد على أخذه ثم أحصيت ما نقل في ذلك عن علي والحسن والحسين وخاصة ما نقل من ذلك في تفسير القرآن لرأيت عجباً: أما الصحابة فلم ينقلوا عن علي (عليه السلام) شيئا يذكر وأما التابعون فلا يبلغ ما نقلوه عنه (عليه السلام) -إن أُحصي - مائة رواية في تمام القرآن، وأما الحسن (عليه السلام) فلعل المنقول عنه لا يبلغ عشراً، وأما الحسين (عليه السلام) فلم ينقل عنه شيء يذكر، وقد أنهى بعضهم الروايات الواردة في التفسير إلى سبعة عشر ألف (ذكره السيوطي في الإتقان) حديث من طريق الجمهور وحده، وهذه النسبة موجودة في روايات الفقه أيضاً))[7]" اور یہ بہت بڑا خلا ہے جس کی وجہ سے قرآن کا علم ،طریق تفکر  اور جس  تفکر کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں ،ان کے درمیان اور  ہمارے درمیان فاصلہ آگیا۔

 اور  اس  بے رخی  اور اعراض کی علامت  ان  (عليهم السلام) کی طرف سے روایت شدہ احادیث کی کمی ہے۔اگر آپ خلفاء کے زمانے میں علم حدیث کے مقام ومنزلت کے بارے میں غور وفکر کریں کہ کس قدر لوگ علم حدیث سیکھنے کا شوق رکھتے تھے اور پھر آپ  اس باب میں امام علی ، حسن و حسین علیہم السلام سے نقل شدہ احادیث کو شمار کریں  اور خاص طور پر ان روایات کو نقل کریں جو تفسیر قرآن میں ان سے وارد ہوئی ہیں تو آپ کو تعجب ہوگا:صحابہ نے امام علی علیہ السلام سے کچھ بھی ذکر نہیں کیا کہ جس کا ذکر کیا جائے اور تابعین نے جو  کچھ ان (عليه السلام)  سے ذکر کیا ، اس کو اگر آپ شمار کریں تو اس کی تعداد سو تک نہیں پہنچتی،اور جہاں تک بات ہے امام حسن (عليه السلام) کی تو اس سے منقول شدہ احادیث کی تعداد ۱۰ ہوگی اور امام حسین (عليه السلام) سےکوئی حدیث نقل نہیں ہوئی۔اور  ان میں سے بعض نے تفسیر میں وارد شدہ روایات کی تعداد۱۷ ہزار بتائی ہے(جنہیں سیوطی نے الاتقان میں ذکر کیا ہے)اور اسی تعداد سے فقہی روایات بھی موجود ہیں۔

 جس کردار کو نبھانے کےلیے خدا  وند متعال نے اہل بیت علیہم السلام  کا انتخاب کیا  تھا ان کو اس سے دور کرنے سے قرآن کا جتنا نقصان ہوا اس کا کچھ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

۱۔ بہت سارے اصلی علوم کی عدم موجودگی جو کتاب سے نہیں سمجھے جاسکتے  ہیں مگر ان  سے(عليهم السلام).

۲۔نفس اور معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار نبھانے سے قرآن کا پیچھے ہٹنا کیونکہ وہ اور عترت ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے،امت کی زندگی میں قرآن اکیلا اپنا کرادار نہیں نبھا سکتا مگر یہ کہ عترت  کا ساتھ ہو۔

۳۔ قرآن کھلاڑیوں،خواہشات نفسانی  اور شخصی مفادات کے پجاریوں کے ہاتھوں اسیر ہوگیا بلکہ دشمنوں کے ہاتھوں،پس ان میں سے ہر ایک نے اپنے اعتقاد پر دلیل قرآن میں پایا حتی خوارج نے  تحکیم کے بعد ان کے اور ابن عباس کے درمیان جو ہوا اس میں  انہوں نے قرآن سے استدلال کیا ،پس علي (عليه السلام) نے اسے قرآن سے استدلال کرنے سے منع کیا  کیونکہ وہ(حمّال ذو وجوه)[8] ہے اور ان کے حقیقی معانی ایسی تفسیروں پر قربان ہوگئیں جن کی پیروی کرنے سے قرآن نے منع کیا ہے۔

[فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ  مِنْهُ  ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ  وَابْتِغَاء  تَأْوِيلِهِ]، لیکن اس کا جواب واضح ہے اور قرآن پہلے اس کا جواب دے چکا ہے :[وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ] (آل عمران:7)،" سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں، اور حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے  اور مضبوط علم والوں کےاور کوئی نہیں جانتا "۔ اور راسخوں فی العلم کے سب سے روشن مصادیق اہل بیت  (عليهم السلام) ہیں.

۴۔ امت انتشار کا شکار  ہوگئی چونکہ اس کی عصمت و تقدس  اور اس کے اتحاد کے محور رسول اللہ کے مطابق قرآن اور اہل بیت ہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:  [وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ](آل عمران:103)" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔"رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: وہ کتاب اور عترت ہیں اور حضرت الزهراء (عليها السلام) نے بھی مسجد رسول الله (صلى الله عليه وآله) میں اپنے خطبے میں اس عصمت کا ذکر کیا ہے: (وجعل إمامتنا نظاما للملة)[9]" ہماری امامت کو اس نے امت کےلیے نظام قرار دیا ہے۔" یعنی اسی کے ساتھ امت کے امور تنظیم ہوتے ہیں اور مستقر ہوتے ہیں، پس  ان کا اہل بیت سے دور ہونے کا نتیجہ  استعمار اور طاغوت کا ان پر مسلط ہونا ہے جنہوں اسی قرآن کو  حرث و نسل کی ہلاکت کےلیے استعمال کیا  اور یہ لوگ (بادشاہوں کے واعظ) اور ان کے ہمراہ دوسرے لوگ تھے جنہوں نے  ان برے کاموں کو انجام دینے کےلیے جواز پیش کیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: [أَطِيعُواْ اللهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ] (النساء:59)،" اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں۔"۔پس انہوں نے ان فاسقوں  اور کافروں   کو مسلمانوں کے امور کا سرپرست بنادیا۔

 



1- نهج البلاغة: ۔ الخطبة 25[1]

[2]مستدرك الوسائل: كتاب الصلاة، أبواب قراءة القرآن، باب7، حديث 7. ۔

[3] ۔ الخصال: 142.

[4] ۔ إرشاد القلوب: 79.

[5]۔ بحار الأنوار: 24/13، باب: أنهم عليهم السلام السبيل والصراط وهم وشيعتهم.

.[6]۔  الميزان في تفسير القرآن: ج3 في البحث الروائي للآيات 28-32 من سورة آل عمران، نقله عن أحمد وأبي داود والترمذي وابن ماجة وابن حبّان وغيرهم من رواة العامة

[7] ۔ الميزان في تفسير القرآن: ج5/ بحث تأريخي في ذيل الآيات 15-19 من سورة المائدة.

[8] ۔ بحار الأنوار: 2/245.

[9] ۔ كشف الغمة: 2/110. [9]