قرآن کی شکایت
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں أبي عبد الله (عليه السلام) کی کافی اور خصال میں موجود اس حدیث شریف سے اپنی گفتگو کا آغاز کروں۔امام علیہ السلام نے فرمایا ہے: (ثلاثة يشكون إلى الله عز وجل مسجد خراب لا يصلي فيه أهله وعالم بين جهّال ومصحف معلّق قد وقع عليه الغبار لا يُقرأ فيه)"تین چیزیں اللہ تعالی سے شکایت کرتی ہیں وہ مسجد جو خرابہ بن چکی ہے اور اب اس میں کوئی نماز نہیں پڑھتا،جاہلوں کے درمیان عالم اور قرآن کریم جس پر گرد و غبار پڑی ہے اور اسے کوئی نہیں پڑھتا"[1]اور عالم کی بہترین اور واضح مثال اہل البیت (علیہم السلام) ہیں اور خاص طور پر ہمارے زمانے کے امام عجل اللہ فرجہ ہیں(أرواحنا له الفداء)۔پس جو تین چیزیں شکایت کرتی ہیں وہ قرآن کریم ،عترت اور مسجد ہیں اور اسی بات پر پیامبر اسلام (صلى الله عليه وآله) کی ایک حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔انہوں نے فرمایا: (يجيء يوم القيامة ثلاثة يشكون: المصحف والمسجد والعترة يقول المصحف يا ربّ حرّفوني ومزقّوني، ويقول المسجد: يا رب عطلّوني وضيعّوني وتقول العترة يا رب قتلونا وطردونا وشردونا، فأجثو للركبتين في الخصومة فيقول الله عز وجل لي: أنا أولى بذلك منك)[2]قیامت کے دن تین چیزیں اللہ کے حضور شکایت کریں گی: قرآن ، مسجد اور عترت؛قرآن کہے گا ائے خدا انہوں نے مجھ میں تحریف کی ، مجھے پھاڑا،مسجد کہے گی انہوں نے مجھے ترک کیا ، مجھے ضایع کیا اور عترت کہے گی ائے معبود انہوں نے ہمیں قتل کیا ،ہمیں دربدر کردیا،تو میں خدا کی بارگاہ میں گھٹنے ٹیک کر اس حق کا مطالبہ کروں گا، پس اللہ تعالی مجھ سے کہے گا اس کام کو انجام دینے میں ، میں تم سے زیادہ بہتر ہوں۔"
اس حدیث سے مندرجہ ذیل چند ایک نکات کا استفادہ کیا جاتا ہے:
۱۔امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے کی بنیاد اور اساس یہی تین ارکان ہیں،لہذا ان پر زور دیا گیا ہے،اور اس لحاظ سے اس کا معنی وہی مشہورحدیث تقلین کا معنی ہے: (إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي أهل بيتي ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي أبداً وقد نبأني اللطيف الخبير أنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض يوم القيامة)[3]۔ "میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛اللہ تعالی کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت ،جب تک انہیں تھامے رکھو گے کھبی گمراہ نہیں ہوجاو گے اور مجھے لطیف اور خبیر نے خبر دی ہے کہ جب تک قیامت کے دن حوض کوثر میں مجھ پر وارد نہیں ہونگی یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی۔' اور دو سنگین چیزیں ان تین میں سے دو ہیں، لیکن تیسری وہ مسجد ہےجس میں ثقلین اپنا معاشرتی کردار ادا کرتے ہیں اور اس کی مقدس فضاوں میں امت سے ارتباط قائم کرتے ہیں۔
۲۔ حدیث اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ عنقریب امت ان تینوں سے منہ موڑ لے گی اور ان کی طرف پشت کرے گی اسی لیے انہوں (صلى الله عليه وآله) نے ایک حقیقت کے طور پراس شکایت کی خبر دی اور وہ (صلى الله عليه وآله) امت کو اس نقصان سے آگاہ فرماتے ہیں اور اس کی سخت سزا کو بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی خود ان تینوں کےمتعلق حساب کتاب لیں گے جو کہ حاکم اور عادل ہے۔
یہ تینوں مسلمانوں کے وجود کی بنیاد اور ضمانت ہیں اور ان کو ضایع کرنے کا مطلب مسلمانوں کا زوال اور تباہی ہے۔پس ہم پر واجب ہے کہ ہم امت کی حیات میں ان کی تاثیر اور ان کو چھوڑنے کے عظیم نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تینوں کے متعلق الگ سے ایک ایک کرکے بحث کریں اور کس طرح سے یہ مسلمانوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اس کو بیان کریں۔
اور میں اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں کہ میں اپنے نفس کو آج کی اصطلاح میں عام مدعی قرار دوں، اور ان تین شکایتوں کو دور کروں اور ثقل اللہ الاکبر کی شکایت دور کرنے سے شروع کرتا ہوں: قران پاک ، جو خداوند متعال سے اپنے بندوں تک پھیلی ہوئی رسی ہے، یہ شکایت رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) قیامت کے دن اٹھایں گے: [وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا] (الفرقان: 30)"اور رسول کہے گا اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔" اس نے مسلمانوں کو اس خطرہ سے متنبہ کیا جب اس نے انھیں پچھلی قوموں کے انحراف کی وجہ بتائی اور وہ اللہ تعالی کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا تھا اسے ترک کرنا تھا،اللہ تعالی نے فرمایا: [قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّىَ تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ](المائدة:۶8)."کہہ دو اے اہل کتاب! تم کسی راہ پر نہیں ہو جب تک کہ تم قائم نہ کرو تورات کو اور انجیل کو اور اسے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔"پس جو بھی اس سے متمسک رہے گا وہ اس راستے پر چلے گا جو اللہ تعالی تک پہنچتا ہے اور جو اس سے منہ موڑے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔
اس شکایت کی وجہ مسلمان معاشرے کی قرآن سے دوری ہے[4] حتی وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت کے پابند ہیں ،اس کےلیے اہتمام کرتے ہیں اور اس کی آیات میں تدبر کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی میں امامت کا درجہ دیں تاکہ وہ ان کے لئے مشعل راہ بنے اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی رہنمائی کرے،انہوں نے اسے فراموش کردیا اور صرف رمضان المبارک کے مہینے میں تھوڑا بہت پڑھتے ہیں، اور ہم ماہ مبارک رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن کےلیے اہتمام کرنے پر زور دیتے ہیں جس کی وجہ ان دونوں کے درمیان گہرا تعلق ہے،حدیث میں آیا ہے: (إن لكل شيء ربيعاً وربيع القرآن شهر رمضان)۔[5] ہر چیز کی ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار، ماہ رمضان ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مہینوں میں اسے نظر انداز کریں یا اس کے ساتھ تعلق کم کردیں۔
([1]) الكافي: كتاب فضل القرآن، باب قراءة القرآن في المصحف، ح3. الخصال: 1/ 142 أبواب الثلاثة.
[2]۔ وسائل الشيعة: كتاب الصلاة، أبواب أحكام المساجد، باب 5، حديث2.
[3]۔ کتب عامہ اور خاصہ میں یہ روایت موجود ہے، مذید معلومات کےلیے اس کتاب کی طرف رجوع کریں(المراجعات) للسيد عبد الحسين شرف الدين الموسوي.
4- ۔میں نے کچھ عام لوگوں پر تحقیق کی، جو کہ طلبہ تھے اور حوزہ علمیہ میں داخلہ لینا چاہتے تھے، کہ ان کا قرآن سے لگاو کتنا ہے اور مفروض یہ تھا کہ قرآن پر ان کا ایمان اور اس سے ان کا تعلق گہرا ہوگا جس کی وجہ سے انہوں نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے لیکن میں نے دیکھا کہ ان میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے ابھی تک قرآن ہی ختم نہیں کیا تھا اور بعض ایسے تھے جنہوں نے مشکل سے پوری زندگی میں دو دفعہ ختم کیا ہے اور وہ منبر پر جاتے ہیں اور اکثر ان میں وہ تھے جو صرف مختلف مناسبات اور پروگرامز میں مختلف سورتیں پڑھتے تھے اور یہ تو صرف تلاوت کی بات ہے جہاں تک بات ہے فہم قرآن کی ،تمام معانی کو سمجھنے کی اور ان کے مفاہیم میں غور و فکر کی تو وہ ان سے مکمل جاہل تھے۔
[5]۔ معاني الأخبار: الشيخ الصدوق، ص228.