اربعین فرج (کامیابی) ۔۔۔۔۔۔عاشورا سے اربعین تک

| |عدد القراءات : 554
اربعین فرج (کامیابی) ۔۔۔۔۔۔عاشورا سے اربعین تک
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

بسمہ تعالی

 

اربعین فرج (کامیابی) ۔۔۔۔۔۔عاشورا سے اربعین تک

امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: جب بنی اسرائیل پر عذاب کی مدت لمبی ہوگئی تو خدا کی بارگاہ میں 40 دن تک آہ وبکا کی۔ اس وقت خدا نے موسی اور ہارون پر وحی نازل کی کہ ان کو فرعون سے نجات دے دیں جنہیں 170 سال تک زلیل کیا ہوا تھا۔۔۔اسی طرح اگر آپ بھی یہ کام کرینگے تو خدا ہم سے بھی مصیبت دور کرے گا، اور اگر ایسا نہیں کروگے تو یہ امر اپنی انتہا تک پہنچ جائیگا۔(1)

اور خدا کے ولی اعظم (صلوات اللہ وسلامہ علیہ) کی تعجیل، نصرت اور زمینہ سازی کا ایک حصہ اور اسباب میں ایک سبب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اور امام صادق علیہ السلام ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ تعجیل نصرت اور زمینہ سازی، ہدایت، صلاح اور لوگوں کے درمیان عدل پھیلانے میں اپنا فریضہ ادا کریں اور انہیں ظلم وجور سے نجات دیں۔ اور خدا کی بارگاہ میں آہ وبکاء وفریاد اور توسل کریں تاکہ ہمارے فاسد امور کی اصلاح کرے۔ اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو تقدیر جیسی ہے ویسی ہم اور ان میں جاری ہوگی۔

اور بہتری کے لیئے کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔اور ان کے ساتھ جو ہوگا اس کے مسوول ہم ہونگے اور وہ (سلام اللہ علیہم) ہر حال میں امر خدا کے مطیع ہیں۔

اربعین کے ایام جو امام حسین علیہ السلام سے مربوط ہیں اور عاشورا سے اربعین تک پھیلے ہوئے ہیں، وہ اس آہ وبکا اور فریاد کے لیئے ایک مناسب اربعین ہے۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کے قضیے کا تعلق عدل الہی کی ریاست سے مربوط ہے۔ چونکہ وہ ہر خیر کے لیئے ایک باثر امر ہے اور ہدایت دینے والوں اور مصلحین کے ہاتھوں میں قوت کا منبع ہے۔ اور یہ دعوتیں قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہیں چونکہ لاکھوں لوگ انکی ضریح شریف کی زیارت کے لیئے نکلیں گے یا دنیا کے ہر کونے میں انکی مجالس برپا کرینگے، اور امام حسین علیہ السلام کے قبہ کے نیچے، انکی مبارک مجالس میں، اور ایمان سے لبریز دلوں کے ساتھ لاکھوں کے اجتماع میں دعا قبول ہوتی ہے (اور وہ جوارح جو اطاعت کے ساتھ آپ کی طرف بڑھے اور آپ سے استغفار کی)(2)۔ اس مقدس مکان اور باشرف زمان میں کوئی حاجت طلب کرنا استجابت اور قبولیت کے لائق ہے۔

ہم جان لیں کہ دعا کے کلمات سے صرف زبان کو حرکت دینا کافی نہیں جب تک اخلاص اور صدق کے ساتھ مقرون نہ ہو۔ اور داخلی نفس بہتری کی طرف نہ بڑھے، اور انفرادی اور اجتماعی واقع کی اصلاح پر عزم نہ ہو جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت میں ہے: (خداوند متعال سے پاک وصادق نیتوں کے ساتھ مانگو تاکہ وہ آپکو کامیاب کرے) (3)

 

محمد یعقوبی_ نجف اشرف

شب 9 محرم الحرام/ 1441، بمطابق 9/9/2019

 

 

حوالہ جات

 

( 1)  تفسير العياشي: 2/154 ح49.

( 2)  أمير المؤمنين (عليه السلام)  کی معروف دعا،دعاء كميل سے چند فقرے.

( 3)  نبی اکرم (صلى الله عليه وآله وسلم)کے معروف خطبہ،خطبہ شعبانیہ سے جو آنحضرت نے شعبان کے آخری جمعے میں بیان فرمایا تھا.