تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن شیخ موسی بن شیخ محمد علی بن شیخ یعقوب بن الحاج جعفر، جن سے آل یعقوب کا خاندان بنتا ہے، وہ نجف کے بزرگان اور علماء اور مراجع دین کے نزدیک مورد اطمئنان تھے، بے شک مرحوم شیخ موسی جعفر کاشف الغطاء (سال 1243 ھجری میں وفات پائی) اور جسے دونوں ممالک کے مصلح کے لقب سے نوازا گیا تھا، نے وہابی حملوں [1]سے بچاؤ کی خاطر نجف کے گرد دیواریں بنانے میں ان سے مدد لی.
ان کے خاندان کا شجرہ نسب قبیلہ اوس انصاری[2] سے ملتا ہے.
شیخ محمد علی یعقوبی
شیخ موسی یعقوبی
وہ نجف اشرف میں سال 1380 ھجری بمطابق ستمبر 1960 کو، میلاد النبی شریف کی صبح کے وقت پیدا ہوئے، اور ایک دینی وعلمی خاندان میں پروان چڑھے جو خطابت اور ادب میں مشہور تھا، اسی لیے ان میں سے بعض نے ادبی، فکری اور خطابتی معاجم لکھیں[3]، جیسے ان کے والد شیخ موسی (وفات سنہ 1982/1402)، معروف میگزین (الایمان) کے بانی تھے، اور ان کے دادا شیخ محمد علی (تاریخ وفات سنہ 1385/1965) جسے (شیخ الخطباء) کا لقب دیا گیا، اور ان کے نانا شیخ مہدی (تاریخ وفات سنہ 1372 ھجری/1951م)، اور ان کے پردادا شیخ یعقوب (تاریخ وفات سنہ 1329ھ/1910م) جنہوں نے ان کی تربیت کی اور ان کے والد بزرگ مرجع سید مہدی قزوینی (تاریخ وفات سنہ 1300ھ) کے وصی تھے. اور مرحوم شیخ جعفر شوستری اور مرحوم شیخ حسین قلي کے عرفانی واخلاقی مدرسہ سے سیراب ہوئے.
وہ اپنی فیملی کے ساتھ سنہ 1968 کو بغداد منتقل ہوئے کیونکہ وہ مرحوم شہید سید مہدی حکیم (قدس سره) کے ساتھ دینی، سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں میں شامل تھے، جو بغداد میں دینی واجتماعی امور کی سربراہی کر رہے تھے.
انہوں نے بچپن سے ہی دینی معارف سے سیراب ہونا شروع کیا، اور اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے اور ان کی خطابتی مجالس میں حاضر ہوتے تھے، اور انہیں دقت کے ساتھ سنتے اور پھر واپسی پر اپنی والدہ (رحمھا اللہ تعالي) کے سامنے تفصیل سے بیان کرتے تھے.
اور ان کے والد (رحمہ اللہ) علماء اور اہل فضل کے سامنے ان کی وقت سے پہلے کی بلوغت اور فراست کی تعریف کرتے تھے. انہوں نے میگزین اور کتابوں کا مطالعہ شروع کیا جبکہ ابھی ان کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں تھی. اور (الخمر أم الخبائث) شراب تمام خباثتوں کی ماں ہے کے عنوان سے ایک وسیع تحقیق لکھی جس میں لغت، تفسیر، حدیث، ادب اور بہترین وفکری کتابوں سے استفادہ کیا جبکہ وہ مڈل سکول کے طالب علم تھے اور بالغ بھی نہیں ہوئے تھے. اور جن کتابوں کا وہ مطالعہ کرتے تھے وہ سال گزرنے کے ساتھ مزید عمیق نظر آتی تھیں، اور عظیم لوگوں اور علماء کی سیرت پڑھنے کا بہت شوق رکھتے تھے یہاں تک كه انہوں نے اپنے مرحوم والد شیخ موسی کی، ادباء کی زندگی نامہ لکھنے میں مدد کی جن کا ذکر انکی اس نامکمل تحقیق میں آیا تھا جو ان کے مرحوم والد شیخ الخطباء (شریف رضی کے دیوان میں) کے مخطوط پر تھی، حالانکہ وہ ابھی بچہ تھا اور بالغ بھی نہیں ہوا تھا. پس یہی علمی وسائل ان کی علمی ساخت کی بنیاد تھے.
اور تقریبا سنہ 1973 کو گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ایک چھوٹے سے دینی مدرسے میں داخلہ لیا، جسے مرحوم سید علی علوی (جنہوں نے سنہ 1974 کو اپنی اولاد کے ساتھ ایران کی طرف ہجرت کی) نے بغداد کے محلہ العبیدی میں بنایا تھا.
انہوں نے اپنی دنیاوی تعلیم بغداد میں لوکل مڈل سکول امام سجاد (علیہ السلام) میں مکمل کی، پھر کرادہ میں الإعداديہ الشرقيہ میں داخلہ لیا اور وہی سے اچھے نمبروں کے ساتھ فارغ التحصیل ہوگئے. اور سنہ 1982 کو بغداد یونیورسٹی کی انجینئرنگ فیکلٹی سے سول انجینئرنگ (civil engineering) ميں بی اے (B. A) کی ڈگری حاصل کی.
اور انہیں لازمی طور پر ملٹری سرویس انجام دینی تھی. اس وقت ایران اور عراق کے درمیان جنگ جاری تھی لیکن ان کی دینی تربیت نے انہیں ظالموں کا لباس پہننے سے منع کیا اور ایک لحظے کے لیے بھی ان کے نظام کا حصے بننے سے روکا. اور گھر میں بیٹھے رہے جس سے ان کی جان بھی جا سکتی تھی کیونکہ حکومت کے کارندے ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے خصوصا بغداد میں، اور ملٹری سرویس سے پیچھے رہ جانے والوں کو ایک سرعام محفل میں گولی سے مار دیا جاتا تھا.
انہیں دقت اور تحقیق کے ساتھ مطالعہ کرنے کی فرصت ملی اور کتابیں لکھنا شروع کیا_ جیسے کتاب: دور الأئمة في الحياة الإسلامية لکھی (اسلامي زندگي میں ائمه كا كردار) _ حالانکہ ان سخت حالات میں ان کا خیال ركھنے والا کوئی نہیں تھا یہاں تک کہ خدا وند متعال نے اپنے لطف سے سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) سے رابطہ کرنے کے لیے خفیہ راستہ نکالا، یہ سنہ 1985 میں ہوا تھا.
انہوں نے اسلامی فکر، اخلاق اور تہذیب نفس میں کئی مقالات اور مراسلات لکھے جنہیں دو کتابوں کی شکل میں شايع كيا گیا جو کہ (الشهيد الصدر الثاني كما أعرفه) اور كتاب (قناديل العارفين) ہیں. جس طرح سید شہید صدر ثانی نے ان کے افکار سے اپنا عظیم انسائیکلوپیڈیا (ماوراء الفقہ) اور کتاب (نظرة في فلسفة الأحداث في العالم المعاصر) لکھی.
انہوں نے سنہ 1991 میں قیامِ شعبانی میں شرکت کی اور نجف اشرف کے مجاہدین کے ساتھ کربلا ءمقدسہ کے دفاع کے لئے نکلے جب ریپبلکن گارڈ فرسسز نے کربلا پر چڑھائي کی. لیکن مجاہدین نے انہیں غیر مسلح افراد کے ساتھ واپس نجف بھیجا لہذا انہیں جنگ میں شرکت کرنے کی فرصت نہیں ملی.
انہوں نے قیام کی کامیابی کے بارے میں ایک اہم بیان اور کچھ اہم کلمات لکھے اور جوانوں کا حوصلہ بڑھایا، اور بعض کلمات کو صحن حیدری سے لاؤڈ سپیکر کے زریعے نشر کیا گیا.
مرجع سید شہید محمد محمد صادق صدر (قدس سرہ)
مرجع سید شہید محمد محمد صادق صدر (قدس سرہ)
مجاہدین کی طرف سے سید شہید صدر ثانی کی گرفتاری سے ایک دن پہلے بطور قائد ان کی بیعت کے بعد انہوں (قدس سرہ) نے پانچ گروہ تشکیل دیے اور شیخ یعقوبی کو سیاسی اور میڈیا گروہ کا سربراہ بنایا.
لیکن یہ گروہ اپنی تشکیل کے دوسرے دن نجف اشرف پر صدامی افواج کے حملوں اور سید شہید صدر ثانی (قدس اللہ سرہ) کی گرفتاری کی وجہ سے اپنا عمل برقرار نہیں رکھ سکے.
انہوں نے سنہ 1992 (شعبان/1412ھ) کے آغاز میں دینی لباس زیب تن کیا. اور بزرگ مرجع مرحوم سید خوئی (قدس سرہ) نے اپنے گھر ان کو عمامہ پہنایا.
وہ سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے اور قیامِ شعبانی اور زبردستی انہیں بغداد منتقل کرنے کی وجہ سے بہت کم لوگ ان سے رابطہ کرتے تھے.
وہ سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کے اولین مددگار تھے اور اسی سال ان کی مرجعیت کے اعلان کی ابتداء میں ان کے واحد حمایتی تھے. اور اس بات کو خود سید شہید صدر نے بعض ریکارڈڈ ملاقاتوں میں بیان کیا ہے، اور ان کا ان (قدس سرہ) کے ساتھ رہنا حوزہ علمیہ کے اندر اور باہر بہت سارے لوگوں کو سید شہید صدر (قدس سرہ) کی طرف رجوع کرنے کے حوالے سے قانع کرنے کا سبب بنا یہاں تک کہ ان (قدس سرہ) کی مرجعیت کا دائرہ وسیع ہوگیا، اور شیخ یعقوبی اس دینی مرجعیت میں سید صدر (قدس سرہ) کے بعد دوسری شخصیت بن گئے.
اور سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) نے انہیں جامعة الصدر الدينية/ الصدر دینی یونیورسٹی کے قیام کے تقریباً ایک سال بعد انہیں اس کا ڈین مقرر کیا، اور یہ وہ ادارہ ہے جو حوزہ علمیہ اور اکیڈمک یونیورسٹیز کے درمیان ایک مکمل پروجکٹ رکھتا ہے. اور انہیں (قدس سرہ) کو جناب شیخ یعقوبی کے علاوہ کوئی اور مناسب بندہ نہیں ملا جو اس ادارے کو چلائے اور اس کے اہداف کو عملی بنائے، کیونکہ وہ دونوں فیلڈز میں آگے تھے، جیسا کہ انہوں (قدس سرہ) نے جناب شیخ کو ماہ صفر سنہ 1419 ھ کو جب اس امر کی مسؤولیت دی تو اس وقت نے يه بات کہی.
اور وہ (قدس سرہ) ان کی بہت تعریف کرتے تھے اور ان کی طرف اشارہ کرتے تھے اور ان میں سے بعض کلمات کتاب (المشتق عند الأصوليين) اور (قناديل العارفين) کے مقدمے میں نشر ہوئے ہیں. اور اپنی شہادت سے پانچ ماہ پہلے اور دقیقا 5 جمادی الثاني کے دن سنہ 1419/بمطابق 27/9/1998م کو، انہوں نے شیخ یعقوبی کو الصدر دینی یونیورسٹی کے طلاب کے ساتھ ایک ریکارڈڈ ملاقات میں اپنا نائب مقرر کیا اور کہا: (ابھی میں کہ سکتا ہوں کہ میرے بعد ہمارے حوزے کا واحد نمائندہ جناب محمد یعقوبی ہیں اور ان کے اجتھاد کی گواہی دی گئی... لہذا میرے بعد انہیں حوزہ کو سنبھالنا چاہیے اور میں اس بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا).
وہ ذي القعد 1419ھ/شباط 1999م میں سید شہید صدر کی شہادت تک ان کے ساتھ رہیں، اور انہوں نے ہی ان کی اور ان کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان سخت اور خوفناک حالات اور حکومتی مسلح جلادوں کے درمیان، انکے تھوڑے سے دوستدار افراد کے ہمراہ انہیں سپرد خاک کیا.
جناب شیخ یعقوبی نے اسلامی تحريک کی ذمہ داریاں سنبھال ليں جس کی ابتداء سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) نے عراق میں کی تھی اور اس تحریک کے مراکز جن میں ان (قدس سرہ) کے چاہنے والے زیادہ ہیں،کی حفاظت کی.
اور حکومت کی طرف سے سید شہید صدر (قدس سرہ) کے کام کرنے کے وسائل کو ختم کرنے کے بعد انہوں نے نئے وسائل کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ان میں سرفہرست نماز جمعہ ہے. اور جناب شیخ کے چاپ شدہ کلمات ایک کتاب بعنوان (جھاد واجتھاد) میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں.
دینی تعلیم
اپنی وسیع علمی اور ثقافتی بنیاد جسے انہوں نے بیس سالوں میں مطالعہ اور علماء اور خطباء کی مجالس کے ذریعے حاصل کی تھی، جناب شیخ یعقوبی نے اپنی دینی تعلیم حوزہ علمیہ کی متوسط سطوح (یعنی شرح لمعہ، اصول فقہ، (مظفر) (قدس سرہ) کی ابتداء جامعہ النجف الديني میں کی، انہیں جامعہ کے ڈین مرحوم سید محمد کلانتر (قدس سرہ) نے داخلہ لینے پر قانع کیا.
اور انہوں نے تعلیمی مراحل محنت اور جدوجہد کے ساتھ بروقت گزارے، اور سطوح عالیہ کے ساتھ سید شہید صدر (قدس سرہ) کی خواہش پر بحث خارج شروع کی. اور شوال 1414 ھجری سے ان (قدس سرہ) کے پاس مباحث الالفاظ پڑھنا شروع کیا، اور ان کی تقریرات میں (مباحث المشتق) دو جلدوں میں شايع هوگئی ہے، اور (1417 _1421) کے دورانیے میں جناب آیت اللہ شیخ محمد اسحاق فیاض کے درس الاصول العمليہ میں شریک ہوئے.
اور (1415_1420) کے دوران آیت اللہ سید سیستانی کے درس فقہ میں حاضر ہوئے. اور (1416_1418) تک مرحوم شہید میرزا علی غروی (قدس سرہ) کے پاس حاضر ہوئے اور ان كى ابحاث قلم بند کیں.
اور حوزہ علمیہ جامعہ النجف میں داخلہ لینے کے ایک سال بعد انہوں نے مقدمات پڑھانا شروع کیا، اور وہ سید شہید صدر (قدس سرہ) کا رسالہ عملیہ (منھج الصالحین) استدلال اور مقارنہ اور غور وفکر کے ساتھ پڑھاتے تھے، کیونکہ اس وقت ظالم نظام کی طرف سے دینی کتب پر سختی کی وجہ سے منابع متوفر نہیں تھے، اور شہید صدر نے اپنی ریکارڈڈ ملاقاتوں میں اس درس کو ان کی اعلمیت کی دلیل قرار دی، اور شیخ یعقوبی غالبا سید شہید کی رائے کو دلیل کے ساتھ قوی قرار دیتے تھے.
اس کے بعد سطوح متوسطہ (لمعہ اور اصول فقہ) اور عالیہ (مکاسب اور کفایہ) پڑھانا شروع کیا، اور ان کا علمی دائرہ حاضرين اور استفادہ کے لحاظ سے سب سے وسیع دائرہ تھا.
حرم امیر المومنین (علیہ السلام) کے پاس مسجد الرأس الشريف میں ان کے درس کفایہ میں تقریبا 200 فاضل طلاب حاضر ہوتے تھے.
اور شعبان (1427ھ/2006م) میں فقہ کی بحث خارج پر لیکچرز دینا شروع کیا، اور اختلافی مسائل کو موضوع بحث قرار دیا، اور اس میں فقہاء کے نزدیک دقیق علمی واختلافی مسائل کو چنتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ علمی استفادہ ہو.
اس وقت ان کے درس خارج میں حوزہ علمیہ کے 200 سے زیادہ طلاب اور اساتذہ شریک ہوتے ہیں، اور ابھی تک ساٹھ سے زیادہ علمی وعملی اہم مسائل لکھے جا چکے ہیں. اور ان کی یہ ابحاث کتاب (فقہ الخلاف) میں چھاپے جائینگے. ابھی تک اس کتاب کی 12 جلدیں شايع چکی ہیں اور دو جلدیں طباعت کے مرحلے میں ہیں.
ان کے درس کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ وہ قدیم علماء اور نجف اشرف اور قم مقدسہ کے مدارس کے ہم عصر علماء کی آراء پر بحث کرتے ہیں.
اجتماعی تحریک
جناب مرجع بچپن سے ہی اسلامى کام اور تحریک بیداری سے محبت کرتے تھے اور مساجد میں جاتے اور خطباء کو سنتے تھے اور جو دینی اور تاریخی مسائل سکیھتے تھے وہ اپنے دوستوں کو بتاتے تھے.
اور ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے جو اس فکر کی مدد کرتی تھیں، اس کی ابتداء مجلہ (الایمان) سے کی جسے ان کے مرحوم والد نے گزشتہ نوے کی دھائی میں شايع کیا تھا اور وہ اسلامی تحریک کے پیروکاروں کے منابع میں سے تھا، اور اسلامی مفکرین کی کتابوں اور میگزینز سے استفادہ کیا جن میں سر فہرست سید شہید محمد باقر الصدر (قدس سرہ) تھے.
اور1985 سے سید شہید صدر ثانی کے ساتھ خط وکتابت کے زریعے خصوصی تربیت پائی، اسی لیے سنہ 1988 میں ان کا اپنی طبیعی زندگی کی طرف لوٹتے ہی ان کے ساتھ ملحق ہوگئے. اور جب سال 1992 میں دینی لباس زیب تن کیا تو حوزہ علمیہ نے ان کے لیے نئے آفاق کھول دیے تاکہ سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی تحريك میں دینی کام انجام دے سکیں. سید شہید کو ان کی حکمت، بصیرت، اعتدال، اخلاق اور علمی وعملی صلاحيات میں جلد پیشرفت پسند آئی، اسی لیے وہ انہیں تحریک اسلامی کی قیادت کے لیے اپنا نمائندہ منتخب کرنے میں متردد نہیں ہوئے اگرچہ عنوانِ مرجعیت کو پیش کرنے کا وقت نہیں تھا. اسی لیے انہوں (قدس سرہ) نے ان کے بعد جناب شیخ کی طرف بطور قائد رجوع کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ ان کے اجتھاد کی گواہی دی جائے پھر ان کی طرف بطور قائد اور تقلید کے لیے رجوع کیا جائے. اور یہ سب سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی آواز کے ساتھ توثیق شدہ ہے.
اور سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی شہادت کے بعد جناب شیخ نے صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام کے لیے پروگرام ترتیب دیا تاکہ آنے والے چیلنجز اور نتائج کا سامنا کیا جا سکے جن کی طرف اپنی کتاب (جھاد واجتھاد) میں اشارہ کیا ہے، اور اس کام کے لیے نئے وسائل اور اسالیب کو اختیار کیا جن کے زریعے اسلامی تحریک کی روح پلٹا دی اور جو صدمہ تحریک کو سنہ 1999 میں سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی شہادت کے بعد پہنچا تھا اس کو پر کیا.
اپنے اصلی وظیفے کے ساتھ ساتھ جو کہ مسجد الراس الشریف میں فقہ اور اصول پڑھانا تھا، اس جمع غفیر کو غنیمت جانتے تھے جس میں اس کے فاضل مرید اور ان کے نہج پر بھروسہ کرنے والے شریک ہوتے تھے اور اور وہ مختلف مرجعتی جہات سے تعلق رکھتے تھے، اور بعض مناسبات میں اسلامی بیداری[4] اور اہل بیت (علیہم السلام) کی سیرت سے ہدایت اور اصلاح اخذ کرنے کے بارے میں لیکچرز دیتے تھے تاکہ حوزہ علمیہ کو آگے لے جائیں اور معاشرے کی قیادت میں (حوزہ علمیہ) اپنی زمہ داری نبھا سکے.
اور وہ لیکچرز ظالم نظام کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے تھے اور اس کے کارندے مسجد کے دروازے اور اس کے نزدیک علاقے میں چوکس رہتے تھے تاکہ حاضرین کو ڈرا دھمکا سکیں.
اور کسی ایک لیکچر کے دوران نجف کا چیف سکیورٹی مسجد میں داخل ہوا اور حاضرین کو اپنی طرف متوجہ کرایا تاکہ انہیں دینی سرگرمیاں اور امت کی بیداری چھوڑنے کی نصیحت کرے اور معروف دروس حاصل کرنے پر اکتفاء کریں، اور ان لیکچرز کو ریکارڈ کیا جاتا تھا اور عراق کے مرکزی اور جنوبی شہروں اور ان سے باہر ہزاروں کیسٹوں کی شکل میں نشر کیا جاتا تھا جسے (کیسٹ کا انقلاب) سے جانا گیا. اور اس نشر میں الصدر دینی یونیورسٹی کے طلاب کا جوش اور قربانی کے ساتھ بڑا دلیرانہ کردار تھا.
اور (شکوة القرآن) _ یعنی قرآن کا شکوہ _ کے عنوان سے ہونے والے محاضرات نے امت کے شعور کو ہلا کر رکھ دیا، اسی طرح ان دو خطابوں (كيف خطط رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم للخلافة من بعده) اور (ماذا خسرت الأمة حينما ولّت أمرها من لا يستحق) نے بھی. اور صدامی حکومت کا خیال تھا کہ وہ ان خطابات کے نشانے پر ہے.
اسی طرح جناب مرجع اہم مسائل کے بارے میں دینی موقف بیان کرتے تھے جیسا کہ حکومت کی طرف سے طالبات کا شرعی حجاب کے ساتھ فائل فوٹو (file photo) نکلوانے پر پابندی کے فیصلے کے خلاف ان کا سخت موقف سامنے آگیا اور اس کی آواز دور دور تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے ظالم حکومت اس فیصلے کو کینسل کر پر مجبور ہوگئی.
اسی طرح انہوں نے غیر ملکی سگریٹ کی خرید وفروخت پر پابندی لگا دی جس کے زریعے صدام کی اولاد تجارت کرتی تھی.
اسی طرح سال 2003 ميں عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف ان کا حکیمانہ موقف جو کہ عراقی عوام کا عام موقف بن گیا. اور مومنین نے ان مواقف کا وسیع استقبال کیا جو مختلف مراجع کی تقلید کرتے ہیں.
جناب مرجع نے جوان لڑکے اور لڑکیوں پر خاص توجہ دی اور (فقہ طلبة الجامعات) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو یونیورسٹی کے طلاب کے درمیان بہت معروف ہوگئی اور مخفیانہ طور پر اس کے ہزاروں نسخے شايع كیے گئے. اور کتاب (الحوزة وقضايا الشباب) بھی بہت مشہور ہوگئی. اور انکی سرپرستی میں (دروس للصبي المسلم) اور (دروس للفتى المسلم) منظر عام پر آگئیں. اور اسی طرح کئی متنوع حکایات اور کہانیاں.
اسی طرح عورت كى تربیت اور بیداری پر توجہ دی، اور اس میدان میں ان کے آثار میں سے (فقه المرأة المسلمة) و (دور المرأة في بناء العراق الجديد) اور (الأربعون حديثا في قضايا المرإة) ہیں. اور ان کی سرپرستی میں (رفقا بالرجال يا قوارير) اور (فلسفة تشريعات المرأة) اور (الخطابة النسائية بين الواقع والطموح) شايع ہوگئیں.
اور ان کی سرگرمیوں میں سے جن کے لئے بہت جد وجہد کی، انحرافی مسائل کی تشخیص اور اجتماعی مشکلات اور مفصل بیانات اور فتاوي کی شکل میں ان کا علاج ہے جو کہ نصیحت، وعظ اور ان کے اجتماعی، اقتصادی، نفسیاتی اور فکری برے نتائج کی طرف توجہ دلانے پر مشتمل ہے.
اور ان کی یہ نشریات ظالم حکومت کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں نشر ہوتی تھیں اور ان کی پریشانی کا سبب بنتی تھیں جیسا کہ خود انہوں نے اس کا اظہار کیا.
اور اس حوالے سے ان کی کتاب (ظواهر اجتماعية منحرفة) کے کچھ سلسلے نشر ہوگئے. اور (نحو مجتمع نظيف)، (احذر في بيتك شيطان)، (فقه العائلة) اور (الزواج والمشكلة الجنسية) وغیرہ کے سلسلے سے چودہ کتابیںشايع ہوگئی ہیں.
اور 11 دسمبر/2001 کے حادثے کے بعد جب مغرب کی طرف سے مشرقی مسلمان کے ساتھ تہذیبوں کے ٹکراؤ (clash of civilizations) کے آغاز کا اعلان ہوا تو جناب شیخ نے دونوں تہذیبوں کی اساس اور اصول اور اسلامی تہذیب کی برتری کو بیان کرنے والے پروجیکٹ کی قیادت کی. اور کئے لیکچرز دیے جنہیں کتاب (نحن والغرب) میں جمع کئے گئے جس کا بعض اجنبی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے.
ان کی اہم سرگرمیوں میں سے جنہیں ظالم حکومت کے دور میں انجام دی ہیں، ان میں سے گرمیوں کی چھٹیو میں یونیورسٹی کے طلاب کے لیے کورسز رکھنا ہے جن میں وہ فقہ، اخلاق، عقائد، قرآن، اسلامی بیداری کے بارے میں دروس پڑھتے تھے، اور تقریبا 200 کے قریب جوانوں نے ان میں شرکت کی، اور کتاب (جھاد واجھتاد) میں آپ کو اس حوالے سے مفصل کلام ملے گا.
مرجعیت
شیخ یعقوبی نے حوزہ علمیہ کی اخلاقیات کی رعایت کرتے ہوئے اپنے اجتھاد کے اعلان میں صبر اور انتظار سے کام لیا، لیکن ان کے طلاب کی خواہش پر حرم امیر المومنین (علیہ السلام) کے پاس مسجد الراس الشريف میں کفایہ الأصول کا درس جاری رکھا جو کہ سید شہید صدر (قدس سرہ) کے درس کا اتمام تھا. اس کے بعد سال 1422ھ/2001م میں بہت سارے اساتذہ اور اہل فضل کی موجودگی میں ایک نیا سلسلہ شروع کیا جس میں صاحب کفایہ پر مناقشہ اور ان کے مستقل اصولی مبانی کی تاسیس شامل تھا، اسی طرح اپنی استدلالی ابحاث کو نشر کیا جو سنہ 1420ھ سے بعض اختلافی مسائل پر دے رہے تھے جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ جناب شیخ کے بارے میں سید شہید صدر (قدس سرہ) کی وصیت جو انہی کی آواز کے ساتھ نشر ہوئی تھی، پر اچھی طرح قانع ہوگئے. اس میں کہا تھا (ابھی میں کہ سکتا ہوں کہ میرے بعد ہمارے حوزے کا واحد نمائندہ جناب محمد یعقوبی ہیں اور ان کے اجتھاد کی گواہی دی گئی... لہذا میرے بعد انہیں حوزہ کو سنبھالنا چاہیے اور میں اس بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گا).
بے شک ان کی وصیت پوری ہوگئی لیکن جناب شیخ کا خیال تھا کہ حوزہ علمیہ کی رائج ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی اجتھاد کے اعلان کا وقت نہیں آیا، اگرچہ ان کے پاس صلاحیت موجود تھی جس طرح کہا جاتا ہے، لیکن عملی جانب کی اہمیت وجود ِصلاحیت سے کم نہیں.
وہ سید شہید صدر (قدس سرہ) کو صبر اور انتظار کی نصیحت کرتے تھے، اور اس وقت میدان تقلید کی مرجعیت سے زیادہ ایک اسلامی قیادت کا محتاج ہے کیونکہ ایسے مراجع موجود ہیں جن کی طرف رجوع کرنے سے مکلف برئ الذمہ ہو جاتا ہے، اور شہید صدر (قدس سرہ) نے سب سے پہلے ایک متبادل قیادت چاہی تا کہ اس کے اجتھاد کی گواہی دی جا سکے اور لیڈر شپ اور تقلید میں ان کی طرف رجوع کیا سکے، انہوں (قدس سرہ) نے کہا: (عراقی عوام ایسی قیادت کی محتاج نہیں جو تقلید پر مشتمل نہ ہو کہ تقلید کسی كى اور کرتے ہیں اور وکالت یا دوسرے عناوین کے تحت بات کسی اور کی سنتے ہیں، یہاں تک کہ فرمایا: اگر الله نے مجھے زندگی دی اور مزید کئی سال زندہ رہا تو حتمی طور پر میرے طلاب کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں جن میں مجھے اخلاص، جد وجہد، اجتھاد، طہارت قلبي، تجربہ، تقوی وغیرہ نظر آرہا ہے، اور وہ حوزیہ علمیہ کی قیادت کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہیں، اور شاید اس وقت وہی اعلم ہوں.. )[5].
لہذا جناب شیخ نے اس وقت تحریک اسلامی کی قیادت سنبھالی.
اور جب ماہ صفر سنہ 1424ھجری بمطابق اپريل 2003 کو، کاظمیہ مقدسہ میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اپنے اجتھاد کا اعلان کیا تو مراجع دین، علماء اور اہل فضل کی ایک بڑی تعداد نے سنہ 1424ھ/2004م کو ان کی استدلالی بحوث پر مطلع ہو نے کے بعد، ان کے اجتھاد کی گواہی دی.
ان میں سے هيں:
- جناب آیت اللہ شیخ محمد علی الکرامی (دام ظلہ الشريف) (جسے آیت اللہ شیخ منتظری (قدس سرہ) نے اجتھاد کی اجازت دی).
- جناب آیت اللہ شیخ محمد صادقی طہرانی (قدس سرہ) (جسے سید خوئی (قدس سرہ) نے سنہ 1386ھ میں اجتھاد کی اجازت دی).
اور دوسرے مراجع وغیرہ، اللہ گزشتگان پر رحم کرے اور باقی ماندہ گان کی حفاظت کرے.
اہل علم اور باشعور افراد خصوصا سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کے پیروکاروں کی توجہ ان کی نسبت بڑھ گئی تاکہ مرجعیت کا آغاز کریں لیکن انہوں نے انہیں صبر اور انتظار اور مسؤولین کو مہلت دینے کا حکم دیا تاکہ حساسیت اور مشکلات ایجاد کیے بغیر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں. اور سنہ 1999م کو سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی شہادت کے بعد تحریک اسلامی کی قیادت جاری رکھی، کیونکہ کبھی بھی شیخ یعقوبی نے مرجعیت اور قیادت کو ہدف اور مقصد قرار نہیں دیا، بلکہ یہ قیام دین، تعلیماتِ اہل بیت (علیہم السلام) کی پرچار، کرامت انسان کی حفاظت اور ان کے حقوق کا دفاع اور فرد اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا وسیلہ ہے.
اسی لیے مرجعت کو عملی کرنے سے پہلے، ان کا ہدف فریضہِ امر بالمعروف والنهي عن المنكر کا أحياء اور کار خير اور شعور کی طرف دعوت کے ذریعے حوزات علمیہ کی مدد، ان کی تبلیغ، علم اور عمل میں مشغول افراد کی مدد، دینی عمل سے خالی میدانوں کو پر کرنا، اور فساد اور انحراف کی اصلاح کرنا تھا تاکہ اسلام اور مسلمین سربلند ہوں.
سال 1427ھ/2006م کو بحث خارج شروع کرانے اور اور بہترین علمی صلاحیت دکھانے کے بعد جو کہ (فقہ الخلاف) انسائیکلوپیڈیا کے نام سے نشر ہوئی، حوزہ علمیہ کے بہت سارے اساتذہ، فضلاء، باشعور مومنین اور قابل تعلیم افراد کی نظر میں مرجعیت کی ابتداء كى ضرورت بڑھ گئی، اور اس کے ساتھ جناب شیخ نے دینی عمل کے بہت سارے خالی میدان مشخص کئیے تاکہ اسلام اور مسلمین سربلند ہوں اور خداوند متعال کی طرف دعوت منتشر ہو، اور يه صرف مرجعیت کے عنوان سے ہی ممکن تھا.
جناب شیخ نے سنہ 1430ھ/2009م کو اپنا رسالہ عملیہ (سبل السلام) طباعت کے لیے پیش کیا، اور مومنین کو تقلید کی خاطر اس کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی، اس سے پہلے وہ قیادت اور رہنمائی کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے. اور ان کا اصلی ہدف اس خالی جگہ کو پر کرنا، حوزات علمیہ کی مدد کرنا اور انہیں مسلمان ممالک میں پھیلانا اور علم وعمل میں مشغول افراد کی کمک کرنا تھا.
اور ان کی دقیق علمی ابحاث، ان کے بلند اخلاق، مسلمانوں کی مشکلات اور خواہشات نے مزید مومنین کو ان کی طرف رجوع کرنے میں حصہ لیا، یہاں تک کہ یہ بات واضح ہوگئی کہ آج ان کی مبارک مرجعیت سید سیستانی (قدس سرہ) کے بعد دوسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے. اور یہ بات مغربی متخصصین کے ایک گروہ کے اعداد وشمار جسے اربعین کے وقت لاکھوں لوگوں کے سامنے انجام دیا گیا جس میں تجربہ کار گروہوں نے ان کی مدد کی، سے ثابت ہوگئی ہے. اس تحقیق کو ایک کتاب بعنوان (الوجھہ کربلاء)[6] نشر کیا گیا جسے حرم عباس (علیہ السلام) کی جنرل سکریٹریٹ (The General Secretariat of the al-Abbas's (p) shrine) نے نشر کیا، اور نتائج نے یہ واضح کیا کہ مرجع یعقوبی کے پیروکار سوائے سید سیستانی کے باقی تمام مراجع کے پیروکاروں سے زیادہ ہیں. اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے دفاتر اور نمائندگیاں کھولنے کی درخواستیں بڑھ گئیں لیکن انہوں نے صرف مذکورہ اہداف کی خاطر قبول کیا، اور آج قم، مشھد، شام، انڈیا، پاکستان، افغانستان، اندونیشیا، تھائی لینڈ، بورما اور بیس سے زائد افریقی ممالک میں (ان کے دفاتر اور نمائندگیاں) موجود ہیں.
مرحوم مرجع سید محمود ہاشمی شاہرودی (قدس اللہ سرہ)
اور مرحوم مرجع سید محمود ہاشمی شاہرودی (قدس اللہ سرہ) جناب شیخ کی مرجعیت کو قوی جانتے تھے اور انہیں _ ان کے دو قریبی علماء کے مطابق_ تیار کیا اور میگزین (فقہ اہل البيت علیہم السلام) کا رئیس مقرر کیا جس میں جناب شیخ اجتھادی ابحاث کےحصے جس میں بزرگ مراجع کی ابحاث نشر ہوتی ہیں، میں فقہی استدلالی ابحاث کی نشر واشاعت کی نگرانی کرتے تھے اور کہا یہ میگزین بہت محکم اور دقیق ہے.
ان کی بابرکت مرجعیت کی آواز اقوام متحدہ تک پہنچ گئی جس کی طرف ان دونوں اشاعتوں میں اشارہ کیا گیا ہے جنہیں یونیسکو (United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization) نے نجف کے بارے میں نشر کیا تھا. اور پہلے ایڈیشن جو کہ (النجف بوابة الحكمة) کے عنوان سے ہے، میں یہ عبارت آئی ہے (بے شك ان چار بزرگ مراجع کے ساتھ ایک اور جدید مرجع ملحق ہوا جو جدیدیت اور سیاسی امور میں ان سے آگے ہے اور وہ شیخ محمد یعقوبی ہے جو کہ سید محمد محمد صادق آل صدر، موثر جاذبیت کے مالک، جسے سال 1999 میں قتل کیا گیا، کا ایک شاگرد ہے. وہ ایک دینی مدرسے کا سرپرست ہے، اور مراجع کے مقام تک پہنچ گیا کیونکہ اس نے عراق کے اندر سے بہت سارے مقلدین کو اپنی طرف جذب کيا).[7]
اور دوسرے ایڈیشن جو کہ (النجف: تاريخ وتطور المدينة المقدسة) کے عنوان سے ہے میں یہ عبارت لکھی گئی ہے:
(اور بھی مجتھدین ہیں جو مرجعیت تک پہنچ گئیے ہیں اور ان کے درمیان مرجع آیت اللہ العظمی شیخ محمد یعقوبی معروف ہیں جو کہ ایک بلند مقام کے مالک ہیں. بے شک مرجع محمد یعقوبی نے اپنے استاد مرجع محمد محمد صادق صدر کی مکتوب وصیت کی بنا پر مرجعیت کا اعلان کیا).[8]
ایک اور مقام پر کہا: (اہل نجف جب مرجعیت کا تذکرہ کرتے ہیں تو چار بزرگ مراجع میں سے کسی ایک کا یا سب کا قصد کرتے ہیں اور بتحقيق محمد یعقوبی کو بطور مرجع پنجم ان کے ساتھ اضافہ کیا جاتا ہے).[9]
ان کے بارے میں علماء کے اقوال
جناب شیخ کی مرجعیت اور قیادت کی اہلیت، اور انکی باشعور فکر، عالی بصیرت اور ثقافتی منصوبوں کے بارے میں مراجع دین اور بزرگ علماء وفضلاء کے بہت سارے اقوال صادر ہوئے ہیں، یہاں پر ہم ان میں سے بعض اقوال قائل کے نام کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور باقی کو محفوظ رکھتے ہیں[10]:
1. سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ)
انہوں نے اپنی کتاب (المشتق عند الأصوليين) جس میں جناب شیخ نے اپنے استاد کے اصولی مباحث کو قلم بند کیا ہے، اور سید شہید (قدس سرہ) نے اسے اپنے انسائیکلوپیڈیا (منھج الأصول) کی دوسری جلد قرار دی ہے، کے مقدمے میں لکھا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحد لله رب العالمين وصلى الله على خير خلقه محمد وآله الطيبين الطاهرين واللعن الدائمة على أعدائهم أجمعين.
اما بعد، بے شک دین اور مذہب پر بالعموم اور میرے اوپر بالخصوص حالانکہ میں ایک خطار کار بندہ ہوں، خداوند متعال کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے مجھے فاضل ومخلص اور باہمت محنتی طلاب عطا کیے اللہ ان سب کو محسنین کی جزاء عطا کرے.
اور ان میں سے یہ جلیل القدر شیخ اور باشرف علامہ شیخ محمد موسی یعقوبی (دام عزہ) ہیں، بے شک وہ علم اصول پر ہمارے دروس میں پابندی کے ساتھ شریک ہوئے اور فہم، کتابت اور درس وتدریس کے زریعے بہت زیادہ اہتمام کیا. اور انہوں نے اس کتاب میں ہمارے لئے اپنی کاوشوں اور فکری راتوں کا ایک نمونہ پیش کیا ہے. میں نے اس کا مراجعہ کیا ہے، اور دقت سے پڑھی ہے. لہذا میں نے دیکھا کہ یہ ہدف کو پورا کرتی ہے اور علم اصول کے مطالب سے لبریز ہے.
لیکن میں نے انہیں معنی کے تحفظ اور توضیح مبنی کے بعد اجازت دی ہے.
بے شک وہ اس بڑی کاوش اور محنت کے ساتھ اجتھاد اور پائیداری کی طرف قدم بڑھائینگے. میں ان کے لیے علم اور عمل کی خدمت کے میدان میں ایک روشن مستقبل کی امید کرتا ہوں اور یہ تمنا کرتا ہوں کہ وہ مخلص مراجع اور پاکیزہ قائدین میں سے ہونگے، خدا انہیں محسنین کی جزاء عطا کرے.
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.
یہ تحریر 19 رمضان المبارک سنہ 1418 ھ کو لکھی ہے.
محمد الصدر[11]
اور جناب شیخ کو اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھا جس میں انہیں اپنا نائب مقرر کرتے ہیں. اس خط میں لکھا ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارے قابل احترام شیخ آپ کی عزت ہمیشہ برقرار رہے، آداب اور تسلیم کے بعد عرض ہے:
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں آپکو اپنے افضل وپاک دل اور حق پرست طلاب میں شمار کرتا تھا اور اب بھی ایسا کرتا ہوں. اگر مستقبل میں کوئی ایسا دن پیش آئے جس میں مرجعیت کے انتخاب کا امر سامنے آ جائے تو میں آپ کو ہی منتخب کرونگا تاکہ مرجعیت منصف اور دوسروں کی حاجات کو پورا کرنے والے علماء کے ہاتھوں میں باقی رہے، نہ کہ سخت دل اور دنیا پرست افراد کے ہاتھوں میں.
یہاں تک کہ میں نے بہت سوچا ہے کہ میری غیر موجودگی میں آپ کو پیش امام بنا لوں تاکہ اس امر کى مقدمہ سازی ہو جائے. اور ابھی تک اس سوچ وبچار میں مشغول ہوں، آپ کا یہ واضح پیغام اس سے منع نہیں کرتا.
اس طرح میں نے ابھی تک اپنے طلاب میں کسی ایسے شخص کو نہیں پایا جو جامع الشرائط اور آپ سے بہتر ہو حالانکہ ان كى تعداد زیادہ ہے اور ان کا طرز تفکر اور ذوق متنوع ہے. بے شک اللہ نے اپنی نصرت اور قوت سے آپ کے زریعے میری تمنا پوری کی.
1 جمادی الثاني 1418 ھجری.[12]
2. مرجع دینی جناب آیت اللہ شیخ محمد علي گرامی (دام ظلہ)
بسمہ تعالی
یہ بات واضح ہے کہ بے شک علماء ہی دین حنیف کے محافظ ہیں اور اور ان کے قلم کی سیاہی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرتی ہے، ان علماء میں سے قابل قدر شیخ یعقوبی (دام ظلہ) ہیں. بے شک میں نے ان کی کتابوں میں سے بعض ابحاث پر سرسری نظر کی اور بعض ابحاث کو دقت کے ساتھ پڑھا، اور دیکھا کہ وہ دقیق اور جامع ہیں، لہذا میری رائے میں وہ (دام ظلہ) مجتھد ہیں اور وہ اپنے استنباط پر عمل کر سکتے ہیں. خدا انہیں کامیاب کرے، اور میرے خیال میں وہ مستقبل میں ان شخصیات میں سے ہونگے جو اسلام اور مسلمین کی بڑی خدمت کرینگے. اللہ ہمیں اور انہیں اپنی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب کرے.
14 ذي القعد 1424ھ.
3. مرجع دین مرحوم آیت اللہ شیخ محمد صادقی (قدس سرہ) صاحب تفسير الفرقان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين وصلى على محمّدٍ وآله الطيبين الطاهرين.
اس کے بعد، بے شک میں نے قابل احترام شیخ آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی (اللہ ان کی حفاظت کرے اور ان کی برکات ہمیشہ باقی رہیں) کی فقہی ابحاث پڑھیں، پس میں نے انہیں ایک دقیق، عميق، صاحب علم اور محنتی مجتھد پایا، لہذا وہ اپنے فقہی استنباطات پر عمل کر سکتے ہیں جو کہ فقہاء کے درمیان رائج ہیں، خصوصا وہ فقہاء جو اپنے فتووں میں قرآن کو اصلیت بخشتے ہیں.
والسلام علیکم ورحمت اللہ
قم المقدسہ _ محمد صادقی طہرانی
8/ذی الحج الحرام/1424ھ.
4. مرجع دین مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ (قدس سرہ)
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اما بعد، ہم شیخ یعقوبی کی ثقافت، سچائی اور استقامت کی قدر دانی کرتے ہیں اور ان کی اسلامی وثقافتی اور جہادی سرگرمیوں میں کامیابی کی دعا کرتے ہیں، اور مومنین سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کی نصیحتوں اور رہنمائی سے استفادہ کرینگے.
سید محمد حسین فضل
7 شعبان 1425ھ.
ان کی تالیفات
جناب شیخ اپنی تحقیق اور تالیف وکتابت موجودہ ضرورت سے آغاز کرتے ہیں تاکہ کچھ پیش کریں یا کوئی علمی یا فکری یا اخلاقی یا اجتماعی خلا پر کریں جس کو پر کرنا لازم ہے. اور ان کے نزدیک تالیف کا ہدف لائبریری میں کتابوں کا عدد بڑھانا نہیں، بلکہ ہر کتاب معارف دینی میں کسی نہ کسی جدید چیز کا اضافہ کرنے میں حصہ لیتی ہے، اور زمانے کے تقاضوں کے حساب سے ایک بہترین آئیڈیالوجی کے مطابق دین اور امت کی مصلحت کو پورا کرتی ہے. اس لئے اس حساب سے ان کی تالیفات بھی متنوع ہیں، اور تفسیر، فقہ، اصول، رجال، لغت، ادب اور تاریخ میں ان کی بحوث اور تالیفات کے ساتھ ساتھ انہوں نےبہت سارےمسائل پر توجہ دی جیسے (اسلام کی آفاقیت اور بشریت کی قیادت کی صلاحیت، درست عقائد، اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت اور فضیلت، حسینی وفاطمی اور مہدوی قضیہ، ولایت فقیہ، اسلامی اخوت، منبر حسینی، نماز جمعہ، مسجد کا کردار، مرجعیت کی ذمہ داریاں، خاندان، تربیت اور ازدواجی زندگی، اسلامی شخصیت، ثقافتی یلغار، وقت سے فائدہ اٹھانا، میڈیا، انسانی ترقی (human development)، پرامن ماحول، سرد جنگ، مغرب کے ساتھ ثقافتی جنگ، انسان کی ریاست اور انسانی کرامت، عورت، جوان، حصول علم، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، اقتصاد، معاشرہ، سیاست، قبائلی نظام کی اصلاح اور منحرف مسائل.[13]
یہ تنوع عظیم دین اسلام کے پیغام کی گہرائی كو کشف کرتا ہے اور اس کا جواب اور مختلف جدید مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور مختلف افکار اور اتجاہات کی عقول کو مخاطب کرتا ہے. اسی طرح اسلامی عمل کے میدانوں میں حکیمانہ مرجعیت کا اہتمام اور اس کی قدرت کی عکاسی کرتا ہے[14]. اور جب امت کی رہنمائی زندگی کے تمام جوانب کو پورا کرنے اور تبدیلیوں پر نظر رکھنے کا تقاضا کرتی ہے تو جناب شیخ یعقوبی (دام ظلہ) نے ان مشاکل کا حل پیش کرنے کا عہد کیا جو سالم معاشرہ بنانے اور باوقار زندگی گزارنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں، لہذا ان کی طرف سے بیانات، لیکچرز اور تربیت، اخلاق، معاشرہ، تاريخ، اقتصاد، اور سیاست وغیرہ میں کتابیں سامنے آگئیں. جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں صرف استدلالی ابحاثِ خارج تھیں.[15]
جناب مرجع کی وہ کتابیں جو شايع هو چکی ہیں:
1.(من نور القرآن) ایک موضوعی وتحریکی واخلاقی تفسیر ہے جسے قرآن کریم کے نور سے اخذ کیا ہے، اس میں عقائدی، اخلاقی، فکری، یا اجتماعی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں، اور ہر چیپٹر میں ایک معین قضیہ پر ترکیز کرتے ہیں اور آیت کی تفسیر کے بعد تفصیل بیان کرتے ہیں، لہذا یہ ایک موضوعی تفسیر ہے کیونکہ یہ آیات شریفہ اورمسائل کو ایک دوسرے کے ساتھ منضم کر کے حل کرنے کی جہت سے دیکھتی ہے، اور تحریکی اس جہت سے ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی میں قرآنی کردار کو عملی کرنے کی کوشش کرتی ہے، اور اخلاقی اس جہت سے ہے کیونکہ یہ کمال کی جانب انسان کی ہدایت کے حوالے سے قرآنی موقف بیان کرتی ہے. اس کتاب کی پانچ جلدیں شايع چکی ہیں.
2. (فقہ الخلاف) یہ استدلالی ومقارنی فقہ میں بحث خارج کا مجموعہ ہے. اس میں پیچیدہ مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں جن میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور فقیہ کی فقاہت کی آزمائش ہوتی ہے جیسے زمین میں بیوی کی وراثت اور اہل سنت کے ساتھ عرفہ میں وقوف کرنا، اسی طرح اس میں جدید مسائل پر بات کی ہے جیسے مصنوعی ویکسینیشن (artifcial vaccination)، کرنسی کے گراؤ پر مترتب فقہی مسائل، مالی اوارق (پیسوں) کی زکات، اور قطبین میں روزہ اور نماز. اور ایسے مسائل پیش کئے جو پہلے نہیں تھے جیسے اولاد کی اولاد کی وراثت جبکہ والدین کے علاوہ اصل اولاد موجود ہو، اور مال سے زکات متعلق ہونے کی صورت، مسافر کا روزہ.
اسی طرح ایسے مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو فقہی انسائیکلوپیڈیاز میں مورد اہتمام نہیں ٹھہرے جیسے کتاب الامر بالمعروف والنهي عن المنكر وغیرہ.
اس کتاب کی 12 جلدیں شايع چکی ہیں اور دو جلدیں طباعت کے مرحلے میں ہیں. اور مسائل مستقل کتابوں کی شکل میں چھپ چکے ہیں.
3. (خطاب المرحلہ) یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جو اسلامی قیادت سنبھالنے اور سنہ 1999 کو سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی شہادت کے بعد، مختلف دینی، انسانی، وطنی، ریاستی اور قومی مسائل کے بارے میں جناب مرجع (دام ظلہ) کے بیانات، کلمات، ارشادات اور افکار کو بیان کرتا ہے.
اس کی 12 جلدیں شايع چکی ہیں اور اسے زمان کے حساب سے مرتب کیا ہے اور پہلی اور دوسری جلد ظالم صدام کی حکومت گرنے سے پہلے کے زمانے کے ساتھ مختص ہیں.
4. (سبل السلام) یہ عبادات کے بارے میں ایک رسالہ عملیه ہے، یہ ایک جلد پر مشتمل ہے، اور یہ کتاب اگرچہ عصر حاضر کے فقہاء کے مسلک اور منھج کے مطابق ہے لیکن اس میں جدید ثقافت سے متنساب مثالیں اور بعض مسائل کی وضاحت پائی جاتی ہے. اسی طرح یہ کتاب بہت ساری نصحیتوں اور روحانی واجتماعی فوائد پر مشتمل ہے تاکہ حکم شرعی کی تمام جہات پوری ہوں.
5. (الدرر الاصولیہ) یہ اصولی ابحاث اور مبانی کا مجموعہ ہے جنہیں جناب مرجع نے بحث خارج کے دوران بیان کئے اور انہیں جناب شیخ حیدر سعدی نے جمع کیا اور ان کی ابواب بندی کی. اور ایک بڑی ضخیم جلد کی شکل میں شايع هوگئی.
6. (الأسوة الحسنة للقادة والمصلحين)
سیرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بارے میں ایک تجزیاتی مطالعہ ہے، لیکن تاریخ بیان کرنے کے معروف منھج سے ہٹ کر ہے، اس کی ایک ہی جلد ہے.
7. (دور الأئمة في الحياة الإسلامية)
یہ ایک ایسے ہی عنوان کی تفصیلی شرح ہے جسے سید شہید صدر اول (قدس سرہ) نے نجفی میگزین (الایمان) میں نشر کیا تھا. اس کی ایک جلد ہے اور اسے (ائمہ معصومین علیہم افضل الصلاة والسلام کی سيرت سے ماخوذ بعض دروس) کی ایک جلد سے ملحق کیا ہے جس میں سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی بحث اور کتاب پر تعليقات ہیں.
8. (القيام الفاطمي) یہ کتاب سالانہ فاطمی زیارات کے بارے میں جناب شیخ کے خطبات کا مجموعہ ہے اور ان کے ساتھ صدیقہ طاہرہ (علیہا السلام) کی سیرت کے بارے میں کلمات اور احادیث ہیں.
9. (المعارف القرآنية والمنبر الحسيني)
مجالس حسینہ کے نھج پر چالیس قرآنی لیکچرز ہیں تاکہ منبر حسینی کے خطباء کے لیے قرآنی مواد پیش کیا جا سکے. یہ ایک بڑی جلد پر مشتمل ہے.
10. (ساکن القلب) یہ عبد اور خالق تبارک وتعالی کے درمیان وجدانی تعلق کے بارے میں ایک قرآنی مطالعہ ہے جسے حدیث شریف (القلب حرم اللہ فلا تسکن في حرم اللہ غير اللہ_دل اللہ کا حرم ہے اس میں خدا کے سوا کسی اور کو مت بٹھانا). یہ ایک ہی جلد پر مشتمل ہے.
11. (الرياضيات للفقیہ) اپنے فیلڈ کی ایک منفرد کتاب ہے جس میں بعض فقہی مسائل کے بیان میں ریاضی كے اصول سے استفادہ کرتے ہیں اور ایک سادہ اسلوب میں پيش کرتے ہیں لیکن یہ دقیق ہے. بے شک بہت سارے فقہی مسائل کو بہترین طریقے سے رياضيات کے ساتھ ربط دیا ہے. اس کی ایک جلد ہے.
12. (المشتق عند الأصوليين)
یہ ان کے استاد سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی بحث کی تقریرات ہیں جو علم اصول کے موضوع المشتق کے باے میں ہیں. یہ دو اجزاء پر مشتمل ایک بڑی جلد پر مشتمل ہے اور اس کا پہلا جزء سید شہید صدر (قدس سرہ) کے انسائیکلوپیڈیا منھج الاصول کے ضمن ميں چھپ گئی ہے.
13. (المعالم المستقبلية الحوزة العلمية)
اس میں جناب مرجع نے تحريك اسلامی کی قیادت کے ابتدائی ایام میں حوزہ علمیہ کی ترقی اور فرائض کی ادائیگی کے منصوبے کو بیان کیا ہے.
14. (قناديل العارفين)
یہ اہل سیر وسلوک کے طریقے پر تہذیب نفس اور طہارت قلبي کے بارے میں سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کے ساتھ مراسلات کا ایک مجموعہ ہے. اس کی تاریخ گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی سے ملتی ہے جس میں انہیں جبری اقامت میں رکھا گیا تھا. اس کتاب کی ایک جلد ہے.
15. (الشھید الصدر کما اعرفه)
یہ جناب مرجع کےنوٹس ہيں جن میں سید شہید صدر ثاني کی شہادت تک ان کے ساتھ اپنے تعلق کو قلم بند کیا ہے. اور اسی کی دہائی میں بعض فکری ابحاث کے تبادلے پر مشتمل ہے. اس کی ایک ہی جلد ہے.
16. (نظرة في فلسفة الأحداث)
یہ سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی ایک تحقیق ہے اور اس پر جناب شیخ نے تعليقہ لگایا ہے اور کچھ مطالب کا اضافہ کیا ہے، اور یہ بھی اسی کی دہائی کے نتائج میں سے ہے.
17. (ثلاثة يشكون)
یہ قرآن، مسجد اور عالم کے شکوے کی حدیث کی شرح ہے، اس کی ایک ہی جلد ہے. اس کی تنیوں اقسام مستقل کتابوں کی شکل میں بھی چھپ گئی ہیں اور شکوی القرآن زیادہ مشہور ہوگئی ہے.
18. (الشيخ موسى اليعقوبي حياته، شعره)
یہ ان کے والد مرحوم شیخ موسی یعقوبی کی سیرت پر مشتمل ہے اور اس میں ان کے مخطوط قصیدوں کو جمع کیا ہے.
19. (نظرية اللغة الموحدة في الميزان)
یہ نظریہ کے نقد پر ایک کتابچہ ہے جس مین تقریبا چالیس نقاط ہیں، اور یہ کتابچہ انسائیکلوپیڈیا (خطاب المرحلہ) میں نشر ہوا ہے.
20. (هل كان الخنساء أربعة بنين استشهدوا في معركة القادسية)
اس قضیہ کے جھوٹ اور اسے گھڑنے کے اسباب کے بارے میں ایک تاریخی تحقیق ہے، یہ انسائیکلوپیڈیا (خطاب المرحلہ) کے ضمن میں ایک کتابچہ ہے.
21. (فقہ ذوي المھن)
یہ کتابچوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں جناب شیخ نے فقہ اجتماعی کی طرف اپنی دعوت کی تطبيق کرتے ہوئے معاشرے کے مختلف شعبوں اور ان میں کام کرنے والوں کے لیے شرعی احکام بیان کیے ہیں، جیسے ڈاکٹروں، کمپیوٹرز، اساتذہ سکیورٹی فورسز، یونیورسٹی کے طلاب، کرنسی ایکسچینرز، کسان، نائی، شکاری، ڈرائیورز وغیرہ کی فقہ. ان کو تین جلدوں میں جمع کیا گیا ہے.
22. (جعفر الطيار) طہارت، عفت اور عفت کا جوان.
23. (منتخب سبل السلام)
عبادات اور معاملات کے بارے میں ایک مختصر رسالہ عملیہ ہے.
24. (مناسك الحج والعمرة)
یہ حج اور عمرہ کے احکام کے بارے میں ایک رسالہ عملیہ ہے جس میں حج اور عمرہ کی سنتیں، آداب اور مستحبات بیان کیے ہیں، اس کے علاوہ خدا وند کے متعال کے فضل وکرم سے اس میں کچھ مفید نصیحتیں اور راہنمائی ہے اور حج وعمرہ کے مناسک کو اچھی طرح اداء کرنے کا طریقہ بتایا ہے.
اسی طرح یہ کتاب حج وعمرہ سے متعلق شرعی احکام کے بارے میں استفتاءات کے ساتھ مخصوص بعض ضميموں پر مشتمل ہے. اس کے علاوہ کچھ جدید مسائل مذکور ہیں.
25. (فقہ الإنجاب الصناعي)
اس کی ایک جلد ہے. اور فقہی استدلالی اور مقارن بحث ہے جو مرد اور عورتوں کے بانجھ پن کے علاج کے بارے میں شرعی احکام بیان کرتی ہے، یہ لیکچرز کا ایک سلسلہ ہے جنہیں مرجع دین شیخ محمد یعقوبی نے حوزہ علمیہ نجف کے بحث خارج کے فاضل طلاب کے لیے دیے. اور کئی مہینوں تک جاری رہے اور ذی القعد 1441ھ بمطابق جولائى 2020م کو اختتام پذیر ہوئے. اس میں جناب شیخ نے ذکر کیا ہے کہ بانجھ پن کا علاج تین طرح سے ہو سکتا ہے:
_ مصنوعی ویكسینیشن
_تناسلی اعضاء کی پیوند کاری
_ایسے ٹشوز (cells) کی پیوند کاری جو تلف شدہ اعضاء کی جگہ نئے اعضاء بناتے ہیں.
26. (جھاد واجتھاد)
یہ جناب مرجع یعقوبی کے نوٹس اور سیرت سے کچھ اقتباسات ہیں جن کی ابتداء ان کی ابتدائی جوانی میں تحریک اسلامی سے ملحق ہونے سے شروع ہوتی ہے، اور ان کے استاد سید شہید صدر ثانی کی شہادت کے بعد عراق میں تحریک اسلامی کی قیادت سنبھالتے وقت کے حالات کا سامنے ہوتے ہوئے، ان کے اجتھاد کے اعلان اور دینی مرجعیت سنبھالتے وقت پیش آنے والے حالات پر ختم ہوتی ہے. اور اس کے ساتھ ان اقدامات کی طرف بھی اشارہ ہے جنہیں حکیمانہ مرجعیت نے عراقی عوام کے مطالبات پورے کرنے اور اسلامی منصوبے کی قیادت کرنے کی خاطر انجام دیے تھے.
کتاب کی ورق گرادانی کرنے سے قاری عراق میں پیش آنے والے اہم واقعات کی تاریخ سے آگاه ہوگا جن کی ابتداء گزشتہ صدی کی اسی کی دہائی سے ہوتی ہے جس میں عراقی معاشرے نے شعور و بيداري کا مشاہدہ کیا، اور ظالم حکومت کے خلاف تحریکیں ظاہر ہوئیں، اور ظالم حکومت کے سقوط اور عراق پر امریکی قبضے کے بعد پیش آنے والے نئے چیلنجز تک پہنچتی ہے.
27. (الفقہ الباھر في صوم المسافر)
یہ فقہ الخلاف کی بحوث میں سے ہے جن کو جمع کیا گیا تاکہ مسافر کے روزے اور اس کی قضاء کے احکام کے بارے میں استدلالی مباحث پر ایک مستقل کتاب تشیکل دی جا سکے.
یہ کتاب علمی گہرائی، فہم، جامعیت، اقوال اور احتمالات کی تحقیق، علمی جرات، علوم کا امتزاج، جسیے اصول، رجال، عقائد، تارخ، اکیڈمک علوم کو ایک جگہ جمع کرنے کی وجہ سے منفرد ہے. اور اس میں متعدد مسائل کو ایک کامل و ہم آہنگ نظام ميں بیان کیا گیا ہے. اس کے علاوہ اور بھی خصوصیات ہیں.
اس کتاب کی اہمیت کو بعض نتائج میں تخلیقی صلاحیت مزید بڑھاتی ہے جنہیں جناب شیخ نے اپنی بحث میں اخذ کیے. اور ان مسائل کے بارے میں جس نے بھی مشکلات کے لیے کوئی حل پیش کرنے کی کوشش کی وہ اس تک نہیں پہنچا.
28. (أسمى الفرائض وأشرفها)
یہ کتاب جناب مرجع شیخ یعقوبی کے لیکچرز کے ایک مجموعے پر مشتمل ہے جو درس خارج کے دوران حوزہ علمیہ نجف کے فضلاء اور اساتذہ کو دیے.
یہ فقہ الخلاف سے اقتباس کئے گئے ہیں اور ایک مستقل کتاب کی شکل میں چھاپ دیے گئے، کیونکہ یہ سب کی عمومی ثقافت سے مناسبت رکھتے ہیں اور شرعی ذمہ داری کی نسبت شعور وبیداری کی بنیاد رکھتے ہیں تاکہ اس عظیم فریضے کو زندہ کیا جا سکے.
29. (فقه المشاركة في السلطة)
یہ ایک فقہی استدلالی بحث ہے جو قرآنی، اجتماعی اور سیاسی مباحث پر مشتمل ہے اور یہ فقہ الخلاف کے مباحث کا حصہ ہے، لیکن اس کو ایک مستقل شکل دی گئی کیونکہ اس میں حوزہ علمیہ کے فضلاء، محققین اور ماہرین تعلیم کے لئے عمومی فائدہ ہے. لہذا یہ خصوصی طور پر بعض سیاسی مسائل کے بارے میں اسلامی نظریے کی تاسیس کرتی ہے اور یہ نظریہ مضبوط ومحکم مدرسہ اہل البيت علیہم السلام سے صادر ہوتا ہے.
جس طرح یہ بحث ایک مسئلے کی بنیاد رکھتى ہے جس نے فقہاء امامیہ (زادھم اللہ شرفا) کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پیدا کیا. اور وہ حاکم قوتوں کے ساتھ قطع تعلقی اور دوستی کے مثبت اور منفی آثار ہے، اور ممکن ہے قطع تعلقی مسلح لڑائی اور حاکم نظام کو ہٹانے کا سبب بن سکتی ہے، اور دوستی ممکن ہے بعض ثابت شدہ اصول میں تفریط کا سبب بنے.
دستاويزات
ضميمه نمبر1:
1- شہید صدر ثانی کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خط جو کتاب (قندیل العارفین) میں شائع ہوا
2- مرجع ديني شيخ محمد صادقي طهراني (دام ظله) كى اپنے ہاتھ سے لكھى گواهى.
3- مرجع ديني شيخ محمد علي كرامي (دام ظله) كى اپنے ہاتھ سے لكھى گواهى.
4-مرجع ديني سيد محمد حسين فضل الله (قدس سره) كى گواهى
ضميمه نمبر2
جناب مرجع کے پروجیکٹس
جناب شیخ یعقوبی کا خیال ہے کہ مرجعیت کی بہت ساری سرگرمیوں کی ذمہ داری اداروں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے نہ کہ افراد کے ہاتھ میں، بالخصوص سال 2003م بمطابق صفر 1424ھ کو صدامی حکومت کے زوال کے بعد عمل کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے، اور اسلامی بابرکت پروجیکٹس جن پر مکمل پابندی تھی، ان پر عمل کرنے کا موقع مل گیا ہے.
لہذا انہوں نے حکومت کے زوال کے بعد عملی طور پر ان اداروں کو بنانا شروع کیا، اور 20 اپريل 2003/ بمطابق 27 صفر 1414ھ کو (جماعت الفضلاء) کی تاسیسی کانفرنس منعقد کی. یہ جماعت حوزہ علمیہ کے فاضل افراد پر مشتمل تھی جو اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول تھے اور دینی شعور اور امت کے درمیان اسلامی منصوبے کے قیام کا اہتمام کرتے تھے تاکہ امت اس پر قانع ہو اور قبول کرے، اور فاضل افراد اس پروجیکٹ میں اپنے اختصاص کے مطابق كام کرتے تھے.
اور اس مبارک اقدام کی بیچ الصدر دینی یونیورسٹی کے طالب علم تھے جنہوں نے ان کے ہاتھوں علمی، اخلاقی اور فکری تربیت پائی تھی.
اسی طرح بغداد کا دورہ کیا اور وہاں تین دن رہے، اور 22 صفر بمطابق 25/4/2003م کو صحن کاظمی شریف میں نماز جمعہ کی امامت کی، جہاں پر انہوں نے ہزاروں کے اجتماع سے خطاب کیا اور كها کہ جدید تبدیلیوں کے سائے میں سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور ثقافتی مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے.
اور ان مطالبات کے حصول کی خاطر، پیر کے دن لوگوں کو بغداد کے الفردوس میدان میں ایک بڑی ریلی نکالنے کی دعوت دی، لہذا بہت بڑا مظاہرہ ہوا جو کئی کیلو میٹرز میں پھیلا ہوا تھا.
اپنے اس دورے کے دروان انہوں نے کچھ تعلیم یافتہ افراد اور ماہر اساتذہ سے ملاقات کی، اور اپنے پیروکاروں کو ایک سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا جو سنہ 2003 کو صدام کے گرنے کے بعد سیاست میں حصہ لے گی تاکہ انسانی، اسلامی اور وطنی اہداف متحقق ہوں، اور لیڈرشپ کا کردار ادا کرے اور اصول کو عملی بنائے.
بے شک جناب شیخ کے کچھ سیاسی مقالات، نظریات، ان کے مواقف اور مشکلات کے حل کی تشخیص کو ایک بڑی جلد میں (نصوص سیاسیی) کے عنوان سے جمع کیا گیا، اسی طرح سیاسی عمل کی اخلاقیات پر ان کی کتاب (نحو سياسية نظيفة) کے عنوان سے نشر ہوگئی.
اسی طرح انہوں نے مختلف شعبوں کو اپنے امور کو منظم کرنے اور مختلف میدانوں میں دینی، ثقافتی، ویلفیئر، قبائلی واجتماعی اور ترقیاتی عمل میں اپنے کردار کو فعال بنانے کی نصیحت کی. بے شک عورتوں اور جوانوں نے جناب شیخ کے مشورے پر زیادہ توجہ دی، اور انسائیکلوپیڈیا (خطاب المرحلہ) میں شعبوں کی تاسیس کی اخلاقیات اور پالیسی، ذرائع عمل اور اہداف موجود ہیں، اور جناب شیخ کی طرف سے ان اداروں کی سپورٹ جاری ہے.
اور جو ادارے اس وقت اللہ کے فضل وکرم سے قائم ہیں، جماعت الفضلاء کے علاوہ، ان میں سے مندرجہ ذیل کو ذکر کرتے ہیں:
1. الصدر دینی یونیوسٹی
یہ یونیورسٹی سنہ 1417ھ/1997م کو سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) کی سربراہی میں وجود میں آگئی اور اس کا ہدف یونیورسٹی ڈگری ہولڈرز کو حوزہ علمیہ کی طرف لے آنا تھا اور انہیں ان ارمان کے لیے گود لینا تھا جو دونوں تعلیموں (دینی اور دنیاوی) کو جمع کریں اور اہل حوزہ کی شخصیت کے عناصر میں تجدید لانا تھا. اور اس فکر کی بنیاد سید شہید صدر اول (قدس سرہ) نے رکھی تھی اور سید شہید صدر ثانی (قدس سرہ) نے اس کو عملی جامہ پہنایا اور شیخ یعقوبی کو اس کی مدیریت کے لئے منتخب کیا کیونکہ ان کے پاس اعلی اکیڈمک اور حوزوی فاضل ڈگری تھی.
ان کی شہادت کے بعد انہوں نے حکمت اور بہادری سے اس پروجیکٹ کو جاری رکھا، اور صدامی حکومت کے سقوط کے بعد مختلف صوبوں میں اس یونیورسٹی کی برانچز کھولیں اور اس وقت 24 برانچز سے زیادہ ہیں[16]. اور سینٹرل اور جنوبی صوبوں ميں طلاب کی تعداد تقريبا (2000) ہے، ان میں چھے بغداد میں اور دو نجف اشرف میں ہیں. اور جناب شیخ نے کتاب (جامعة الصدر الدينية: الهوية والإنجازات) میں اس یونیورسٹی کی داخلی پالیسیز اور مناهج (methods)، سرگیامیاں اور برانچز میں کام کرنے كى حمکت عملی کی لکھی.
اور اس میں پڑھائی کی مدت آٹھ سال ہے جن میں سے پہلے تین سال (التوجيه الديني والإصلاح الاجتماعي) فیکلٹی، اور تین سال (كلية إعداد المدرسين) فیکلٹی، اور ساتواں اور آٹھواں سال (كلية الاجتهاد المقيد) کے لیے ہیں. اس کے ساتھ درس خارج ميں شرکت کرنے کی اہلیت فراہم کرتے ہیں. اور ابھی تک اس كے کئی بیچز فارغ التحصیل ہو چکے ہیں.
2. (جامعة الزهرا عليها السلام للعلوم الدينية) الزہراء یونیورسٹی برائے دینی علوم.
یہ تعلیمی نظام اور مراحل کے لحاظ سے الصدر دینی یونیورسٹی کے طرز پر ہے لیکن یہ خواتین کے ساتھ مخصوص ہے. یہ سنہ 1424ھ/2003م کو حکومت کے سقوط کے بعد وجود میں آگئی، اور آج نجف اور دوسرے صوبوں میں اس کی 20 سے زیادہ برانچز ہیں جو (2600) طالبات پر مشتمل ہے، اور اس میں تعلیمی نظام، اجتماعی کام میں عورت کی ذمہ داریوں کی مناسبت سے ہے.
3. (مجمع المبلغات الرساليات/دینی مبلغ خواتین کا کمپلیکس)
یہ کمپلکس ایک ادارہ ہے جو مرجع دینی شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) کے دفتر سے نجف اشرف میں مرکزی کمیٹی کے زریعے مربوط ہے. اس ادارے کی مختلف صوبوں میں متعدد برانچز ہیں.
یہ کمپلیکس عراق کے مختلف علاقوں میں تبلیغ کرنے والی خواتین کو مادی اور معنوی جہت سے سپورٹ کرتا ہے، اور مختلف میدانوں میں دین کی تبلیغ کرنے کے لیے انہیں مواقع فراہم کرتا ہے.
اور حکومت کے سقوط کے فورا بعد بننے والے ادارے رابطة بنات المصطفي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (المصطفی گرلز ایسوسییشن) کو اس کمپلیکس کے لیے سنگ بنیاد شمار کیا جاتا ہے.
4. مؤسسة (البيت السعيد/ Happy House Foundation)
نیک انسان بنانے لیے ایک اہم قدم بڑھانے کی خاطر، یہ فاؤنڈیشن (البيت السعید) وجود میں لائی گئی تاکہ ایک بڑی مشکل کا علاج کیا جا سکے جس نے آخری دہائیوں میں طوفان برپا کیا ہے، اور وہ مشکل طلاق کی شرح کا حد سے بڑھنا، جوانوں کا شادی سے دور ہونا اور شادی شدہ افراد کا مشکلات کو حل کرنے کی قدرت نہ رکھنا ہے، جس کی وجہ دونوں طرف کے حقوق سے جہالت ہے اور ازدواجی گھرانے کو چلانے کی حکمت کا فقدان ہے، اسی طرح شادی کے فلسفے اور کامیاب ازدواجی زندگی کے اصول سے ناواقف ہونا ہے.
اسی لیے یہ فاؤنڈیشن (خوشحال گھرانہ/البيت السعید) وجود میں آگئی تاکہ اس خلا کو پر کیا جائے اور شادی شدہ افراد اور شادی کرنے والے جوڑوں میں پائے جانے والے ثقافتی نقص کا علاج کیا جائے. یہ کام تعلیمی کورسز، سیمینارز، ٹی وی شوز اور سوشل نیٹ ورکس میں لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے کے زریعے انجام پاتا ہے. اور اس فیلڈ کے بارے میں متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جنہیں نئے شادی شدہ جوڑوں کے درمیان تقسیم کی جاتی ہیں تاکہ انہیں ان کی نئی ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے.
5. مجلس الحكماء والأعيان/ حکماء اور بزرگان کی کونسل)
یہ کونسل معاشرے کے چیدہ افراد، مختلف فیلڈز کے تجربہ کار اور درست مشورے دینے اور مشکلات حل کرنے والے حکیم ودانا افراد پر مشتمل ہے. یہ کونسل دینی وسیاسی قیادتوں کے لئے ایک ایڈوائزر ہے اور قبائلی حالات پر خاص توجہ رکھتی ہے. جس طرح قبائلی نظام، بزرگان اور معاشرے کے اہم افراد حکیمانہ مرجعیت کی اولویات میں سے ہے کیونکہ عراقی معاشرے میں قبائلی وجود فعال ہے بلکہ بالعموم پورے مسلم معاشرے میں..
اس بناء پر ایک ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے جو قبائلی ضروریات پر توجہ دے اور ان سے ملنے کے لئے وفد بھیجے، اور ان کے فقہی اور ثقافتی کورسز کا انعقاد کرے، اور ان سے اجتماعی مشکلات اور اختلافات حل کرنے اور فساد دور کرنے میں مدد لی جائے تاکہ ہم اپنے قبائل اور پورے معاشرے کے ساتھ مل کر ترقی اور تکامل کی راہ پر گامزن ہو سکیں.
6. مرکز عین للدراسات والبحوث المعاصرة/مرکز عين برائے جدید مطالعات وتحقیقات)
اس کا ہدف ثقافت اور افکار ہیں. اور عصر جدید کے انسان کی مشکلات کی نسبت حلول اور تجویزات پیش کرتا ہے. اور یہ ایک راسخ عقیدے کے ساتھ چلتا ہے کہ اسلامی تہذیب زندگی کی قیادت کر سکتی ہے اور عصر حاضر کی حاجات کے مطابق رول ماڈل پیش کر سکتا ہے لیکن اپنے اصول اور ثوابت سے دور ہوئے بغیر.
یہ مرکز تحقیقاتی پروگراموں، ثقافتی اہداف اور تحقیقات لکھنے اور نشر کرنے کے بارے کورسز انعقاد کرنے كے زریعے ثقافتی مسائل، زوال کے اسباب اور معاشرے میں غیر حقیقی اقدار کے تسلط کی نسبت اجتماعی شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے...
اسی طرح یہ مرکز اس بات پر عقیدہ رکھتا ہے کہ اسلامی حل اپنے مناسب جڑوں سے کے ساتھ آگے آتا ہے، اس لیے یہ خالص اسلامی اصول کی بنا پر اپنے ارد گرد محیط تمام قیود سے ہٹ کر بنیاد گذاری کرنا چاہتا ہے.
7. مدرسة الأبرار الدينية/الابرار دينی مدرسہ)[17]
یہ ایک حوزوی تعلیم کا ادارہ ہے جس کا ہدف بہترین علماء، مصنفین اور مبلغین بنانا ہے، یہ مدرسہ اسلامی فکر اور اس سے مربوط علوم کے مطالعے کے لئے ایک مصبوط منھج کی پیروی کرتا ہے.
تعلیمی طریقہ کار میں یہ قرآنی، حدیثی، اخلاقی اور جدید مطالعاتی دروس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے جو عصر حاضر میں ان علوم کو پڑھنے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے. یہ مدرسہ سنہ 1439ھ/ 2018 م کو وجود میں آیا.
جغرافیائی اعتبار سے یہ نجف اشرف میں واقع ہے، المدینہ سٹریٹ کے سامنے.
8. مؤسسة ملتقى العلم والدين[18]
یہ جوانوں کے لیے ایک ادارہ ہے (یوتھ فاونڈیشن ہے) جو عصری علوم اور دین علوم کو آپس میں ملاتا ہے، اور دینی، علمی اور ثقافتی جہت سے جوانوں کی تربیت کرتا ہے، جس کے لیے یہ خاص تربیتی، ثقافتی، تحقیقاتی اور مطالعاتی پروگرامز کا انعقاد کرتا ہے تاکہ اسلامی مبادئ اور اصول، سیرت معصومین (علیہم السلام)، مرجعیت کی راہنمائی کے مطابق، اداروں اور دینی منصوبوں کی مدیریت کے لیے قابل قائدین تیار کرے.
اور دینی اور اکیڈمک اور معاشرتی اداروں کے درمیان فعال رابطہ ایجاد کرنے پر کام کرتا ہے تاکہ معاشرے کو ترقی کی طرف لے جا سکے.
اس مرکز نے مختلف علمی شعبوں میں سو سے زیادہ کتابیں نشر کی ہیں، اس طرح عراق کے اندر اور اس سے باہر کانفرنسز اور سیمینارز منعقد کئےہیں، اور دینی اور یونیورسٹی کی شخصیتات سے ملاقاتیں کی ہیں، اور کئی کورسز کا انعقاد کیا ہے، اور (الاستنباط) کے نام سے ایک تخصصی میگزین اور اسلامی بیداری کے بارے میں (الایمان) کے عنوان سے میگزین نشر کرتا ہے.
9. (مؤسسة الصلاة عمود الدين/ادارہ: نماز دین کا ستون ہے)
انسان کی دنیا اور آخرت میں فریضہ نماز کی عظیم اہمیت اور آثار موجود ہیں. کیونکہ نماز سب سے عظیم اور اہم اذکار میں سے ہے، اسی لیے دنیا میں سکون اور ثابت قدمی عطا کرتی ہے، خداوند متعال کا فرمان ہے:
(ألا بذكر الله تطمئن القلوب)، آگاہ رہو اللہ کے ذکر سے دل کو سکون ملتا ہے. اور کیونکہ نماز ہر مسلمان کا شعار اور پہچان ہے جس کی حفاظت کرنا ضروری ہے.
لہذا حکیمانہ مرجعیت نے ایک ایسے ادارے کے قیام کی دعوت دی جو معاشرے کے اندر نماز کی اہمیت اور اس کو برگذار کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرے اور ہر جگہ نماز خانے بنانے کی کوشش کرے، اور دنیا اور آخرت میں نماز کے آثار کی تشریح کرے، اور نماز کے واجبات، مستحبات، آداب اور مقدمات کی وضاحت کرے، پس یہ ادارہ (مؤسسة الصلاة) وجود میں آگیا.
یہ ادارہ نماز جمعہ کا حصه ہے، یہ ایک خاص ادارہ ہے جس کا مقصد عراق میں نماز جمعہ کا قیام اورتشہیر ہے اور یہ کام نماز جمعہ برپا کرنے کی درخواستوں، نماز جمعہ قائم کرنے کے بارے میں شرعی موقف کے بیان، خطباء کو تیار کرنا، ان کی مناسب رہنمائی، دین مبین کی تعلیمات، مرجعیت کی رہنمائی، دینی تقریر میں بہتری، اس میں جدت اور وسعت کے زریعے انجام پاتا ہے.
10. (مؤسسة فيض الزهرا عليها السلام/ادارہ فیض الزہراء)[19]
یہ ادارہ یتیموں اور فقیروں کا خیال رکھنے کے لیے ہے، یہ ایک انسانی، خیری (ویلفیئر) واجتماعی ادارہ ہے جو معاشرتی امور اور عراقی عوام میں سے عفت پسند اور پاکیزہ افراد پر توجہ دیتا ہے تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اداروں کی تاسیس میں شریک ہو سکے، جیسے یتیموں اور فقیروں کی مادی اور معنوی ساخت جو امت اسلامیہ کے ثقافتی فعال جوانب کو مضبوط بنانے کا سبب بنتی ہے، اور یہ ادارہ عراق کے شمال سے لیکر جنوب کے آخر تک پھیلا ہوا ہے جس کی پورے صوبوں (100) ميں بهت سے برانچز اور دفاتر ہیں.
اور آج عراق سے باہر دفتر کھولنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ان ممالک کے بیٹوں اور بیٹیوں، اور ان سے مربوط تمام معنوی اور مادی حاجتمندوں کے لیے عطا اور ترقی کا دروازہ بن سکے. اس وقت تقریبا (10000) فیملیز ثقافتی شعور، صحت، قانونی، اجتماعی اور مالی مساعدات کے بارے میں ہونے والے لیکچرز سے فائدہ اٹھا رہی ہیں.
سنہ 1434ھ /2013م کو اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی، اور سول سوسائیٹی ڈیپارٹمنٹ میں اسے رجسڑر کیا گیا اور اسے 9/10/2016 کو رسمی اجازت نامہ ملا جس کا نمبر ہے (111610028).
11. مركز الإمام الصادق (عليه السلام) للدراسات والبحوث الإسلامية التخصصية
(مرکز امام اصادق علیہ السلام برائے اسلامک سڈیز اینڈ سپیشلائزڈ ریسرچ)
نجف اشرف میں یہ تخصصی مراکز میں سے ایک مرکز ہے اور اسلامی دنیا میں اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے پر کام کرتا ہے جو کہ ہمیشہ سے پوری دنیا کے لئے رحمت کا پیغام دیتا ہے.
اس مرکز کا ہدف علم اور معرفت کو پھیلانا ہے، اور دینی افکار اور مفاہیم کو ان کے اصلی منابع قرآن کریم اور سنت شریفہ کے زریعے درست کرنا ہے، اور اس کے لیے حوزہ نجف اشرف کے دینی تجربے سے استفادہ کرتا ہے جو ہمیشہ سے دینی حلقوں کے درمیان واسطہ بنا ہے جو المعمورہ کے کونے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں. اور اپنے تیار کردہ دینی علوم کے طلاب اور اکیڈمک اساتذہ جو اس مبارک حوزہ سے سیراب ہوئے ہیں، پر اعتماد کرتا ہے. اور اس مشترک ہدف کو حاصل کرنے کی خاطر جس کی طرف انبیاء نے دعوت ہے، سب کے لیے دروازہ کھول دیتا ہے.
اس مرکز ميں پانچ ڈیپارٹمنٹ ہیں:
1. قرآنی علوم کا ڈیپارٹمنٹ
2. عقائدی اور فکری علوم کا ڈیپارٹمنٹ
3. امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں تخصصی علوم کا ڈیپارٹمنٹ
4. فقہ اسلامی کا ڈیپارٹمنٹ
5.فلسفہ فقہ کاڈیپارٹمنٹ.
اور یہ مرکز مزید ڈیپارٹمنٹس کھولنے کا قصد رکھتا ہے جو اسلامی اقتصاد، تاريخ، علم حدیث اور عربی ادبیات کے ساتھ خاص ہوگا...اور اس مرکز نے مختلف شعبوں کے بارے دسیوں کتابیں نشر کی ہے.
12. مكتبة شيخ الخطباء/شيخ الخطاء لائیبریری
یہ نجف اشرف میں عمومی لائیبریریز میں سے ایک لائیبریری ہے. یہ لائبریری پندرہ ہزار مختلف کتابوں پر مشتمل ہے اور اس میں تمام علوم اور تخصصات کی کتابیں ہیں. اس کو منابع اور قدیم سنی کتابوں سے مالا مال سمجھا جاتا ہے.
اسی طرح اس میں یونیورسٹی تھیسز کی ايك بڑی تعداد ہے. اس میں شیخ الخطباء محمد علي یعقوبی (رحمہ اللہ) کی تالیفات کے لیے ایک سیکشن ہے جن میں اکثر ادب اور شعر کی کتابیں ہیں.
یہ لائیبریری سائنسی میگزینز سے پر ہے جو بيسوي صدی کے نصف میں نشر ہوئے تھے.
13. مدرسة أعلام الهداية الدينية
یہ مدرسہ ایسے طلاب کو تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دین اور معاشرت کی خدمت کرنے والے قائدین ہوں. اسی طرح حوزے کے اساتذہ اور مجتہدین کو آمادہ کرنے کی سعی کرتا ہے. یہ مدرسہ صرف یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ کو قبول کرتا ہے تاکہ انہیں تیار کرے اور وہ علوم کو اچھی طرح سمجھیں اور معاشرے میں عملی بنائیں.
اسی طرح اپنے حوزوی دروس کے ساتھ دوسرے دروس بھی شامل کرتا ہے جیسے تفسیر، علوم قرآن، تاريخ اور نہج البلاغہ وغیرہ، جو طالب علم کو قرآنی اور صحیح حدیثی طریقے سے حقائق اور ان کے علاج کو سمجھنے میں مدد کریں.
14. (المركز الفاطمي للدراسات والتنمية البشرية/مرکز فاطمي برائے مطالعات وانسانی ترقی)
یہ تین جمادی الثاني کو مرکز حرم امیر المؤمنین علي بن ابی طالب (علیہ السلام) کی سالانہ بابرکت زیارت کی وجہ سے وجود میں آیا جس کی طرف جناب مرجع دینی شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) نے دعوت دی تاکہ صدیقہ طاہرہ فاطمہ الزہراء (علہیا السلام) کی شہادت کی یاد منائی جائے. لہذا جناب شیخ نے فاطمی مطالعات کے لیے ایک مرکز قائم كرنے کی دعوت دی جو سیدہ طاہرہ (علیہا السلام) کی سیرت کے بارے میں مطالعہ، تألیف اور تحقیق کی ذمہ داری اٹھائے اور اسلامی اور انسانی معاشرے کے سامنے بیان کرے، اور ان کی مبارک سیرت کے جوانب کی نسبت زیادہ سے زیادہ شعور دے. اور اس کے زریعے امت مسلمہ کے ثقافتی فعال وجود کے جوانب کو مضبوط بنانے میں علمی شراکت انجام دے. اور اس بنیاد پر ربیع الثانی 1434ھ/فرورى 2013 کو مرکز فاطمی برائے مطالعات وانسانی ترقی (f. C. S. H. D) وجود میں آیا، یہ مرکز ثقافتی، اجتماعی اور نفسیاتی مشکلات کی تشخیص کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، یہ مشکلات عراقی اور اسلامی معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، اس ہدف کی خاطر یہ مرکز تنظیمی پروگرامز پر اعتماد کرتا ہے جو حوزہ اور یونیورسٹی میں علمی اور انسانی صلاحیات کو نکھارے تاکہ ایک حقیقی ترقی تک پہنچ سکیں.
اس مرکز نے فاطمی قضیہ کے بارے میں کئی کتابیں نشر کی ہیں اور کئی کانفرنسز اور مقابلے منعقد کیا ہے، اسی طرح سیدہ زہراء (علیہا السلام) کی سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں کی فہرست تیار کی ہے اور نشر کرنا شروع کیا ہے.
15. المعهد الإسلامي للتطوير والدراسات/ اسلامک انسٹیٹیوٹ برائے ترقی ومطالعات
یہ ایک اسلامی ترقی کا ادارہ ہے جو شخصی اور لیڈر شپ کی صلاحیتوں کا اہتمام کرتا ہے تاکہ انسانی ریاست قائم ہو اور ثقافتی معیار اور انسانی مہاراتوں کو بڑھانے کا ہدف رکھتا ہے. اس کے لیے مضبوط علمی سلیبس جو خالص اسلامی فکر پر اعتماد کرتا ہے اور ورکشاپس،تربیتی کورسز، شعبوں اور اداروں کے لیے لیڈر شپ بنانے کے پروگرامز منعقد کرتا ہے.
سرگرمیاں:
1- مینجمنٹ کنسلٹنسی۔
2- اسٹریٹجک منصوبوں کو تیار كرنا۔
3- قیادت کی ترقی کے پروگراموں کا قیام۔
4- تربیتی پروگرام كو ترتيب دينا۔
16- میڈیا ادارے:
ا- النعیم سیٹلائٹ چینل:
یہ ایک مذہبی سیٹلائٹ چینل ہے جس کا مقصد اسلامی بیداری، اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور مفید اخلاقی، تعلیمی اور سماجی رہنما اصولوں کو پھیلانا ہے۔ عراقی معاشر ے کے مسائل كو حل كرتا ہے اور بصرہ سے اپنے پروگرام نشر کرتا ہے، اس کے مرکزی دفاتر نجف اور بغداد میں ہیں، اور عراق کے باقی صوبوں میں برانچ دفاتر ہیں۔
میڈیا کی اہمیت اور امت کی زندگی میں گفتگو کے کردار پر جناب شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) کے کئی خطابات موجود ہیں ۔
ب- بينات سیٹلائٹ چینل
(اہل بیت علیہم السلام کے نقطہ نظر سے قرآن کریم کے لیے مخصوص) اسلام اور قرآن کو مغرب میں متعارف کرانے کے لیے، اور یہ عربی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں نشریات کرتا ہے۔
ج-ریڈیو البلاد:
بغداد سے اپنے پروگرام نشر کرتا ہے۔
د- ریڈیو الامل:
بصرہ سے اپنے پروگرام نشر کرتا ہے۔
د-سبل السلام ریڈیو:
ناصریہ سے نشریات۔
ه- الرمیثہ ریڈیو:
یہ سماوہ صوبه سے اپنے پروگرام نشر کرتا ہے۔
17- مذہبی بڑي مناسبيتں:
آپ کی طرف سے اختیار کیے گئے اور اس کی سرپرستی کیے جانے والے مذہبی منصوبوں میں سے ایک ہر سال 3 جمادی الثانی کو فاطمی زيارت کے لیے امير المومنين (عليه السلام) کے مزار پر حاضری کا قیام ہے جس ميں زہرا (سلام اللہ علیہا) كي شهادت كي ياد منائي جاتي ہے، اورجس نے فاطمی مقصد کو پھیلانے اور اس کے عظیم اثر کو اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، اور اس مناسبت اورحالات حاضره پر جناب شيخ كي تقرير کےبعد، دسیوں ہزار مومنین ایک علامتی جنازے کے ساتھ حرم علوی کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔
يه مناسبت پہلی بار 1427ھ / 2006ء میں شروع ہوئی۔
دوسري، یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طلباء کے لیے حسینی بیداری کا جلوس ہے، جو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد پہلے سال کربلا میں عاشورہ کی رات منعقد کیا گیا، جس میں یونیورسٹی کے بیس ہزار سے زائد طلباء باقاعدہ مارچ میں شریک ہوئے۔ جو کہ کربلا یونیورسٹی سے شروع ہو کر امام حسين اور حضرت عباس (عليهما السلام) کے حرم تک جاتی ہے، اور ہر یونیورسٹی اپنے نام کا بینر اٹھاتی ہے اور اسی طرح فیکلٹیز بھی.
اور طلاب ماتمي جلوس اور مواکب میں جمع ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا کسی اسلامی صفت یا خصوصیت یا تعلیمات کے ساتھ نام رکھا جاتا ہے. اور جناب شیخ یعقوبی سے یونیورسٹی کے طلاب کی محبت معروف ہے، اور دونوں مناسبتوں میں کمیٹیاں کھانا، رہائش اور مہمان نوازی جیسی خدمات مہیا کرتی ہیں. اس مناسبت میں وسعت آگئی اور اس کی بناء پر (ملتقي العلم والدین) يا (ملتقي الجامعات والحوزہ العلميہ) وجود میں آگئے. اور کئی سال تک جاری رہی، اس کے بعد زیارت اربعين پر طلباء کی بیداری کے مواکب اور جلوسوں میں تبدیل ہوگئی، پھر تین جمادی الثاني کو زیارت فاطمیہ کی مناسبت پر ماتمی جلوسوں کی شکل میں عزاداری کے موکب میں شامل ہوگئی.
ضمیمہ نمبر 3:
ماسٹر اور ڈاکٹریٹ كي ڈگری کے حصول کے لیے یونیورسٹی کے کئی مقالے اور تھيسز لکھے ہیں جو جناب مرجع یعقوبی (ان کا سایہ قائم رہے) کی فکر اور ان کی کامیابیوں کے پہلوؤں كو شامل ہیں:
1. القيم الأخلاقية في الفكر التربوي الإسلامي المعاصر (عصری اسلامی تعلیمی فکر میں اخلاقی اقدار) مرجع یعقوبی بطور نمونہ - وسام علی حاتم۔ پی ایچ ڈی کا تھيسز.
2. الدلالة القرآنية عند الشيخ محمد اليعقوبي في تفسيره من نور القرآن (شيخ محمد یعقوبی کی تفسیر نور القرآن میں ان کے نزدیک قرآنی دلالت)، احمد زہیر عبد العالی.
3. التنمية البشرية في فكر الأمامية (اماميه کی فکر میں انسانی ترقی) / شیخ محمد یعقوبی بطور نمونہ - میثم سعد مطر ، پی ایچ ڈی تھيسز.
4. الحجاج في كتاب خطاب المرحلة للشيخ محمد اليعقوبي من 2003- 2014 – (شيخ محمد یعقوبی کی کتاب خطاب المرحلہ میں استدلال، 2003 سے 2014 تک)_ ثمر ناصر علی
5. الأطروحات الفكرية السياسية عند المرجع اليعقوبي (مرجع یعقوبی کے نزديك سیاسی فکری مقالے) - طاهر ہادی مرہج.
6. الإعلام الإسلامي المعاصر بين النظرية والتطبيق في فكر ورؤى المرجع الديني الشيخ محمد اليعقوبي (مرجع شیخ محمد یعقوبی كي فکر و نظر میں عصری اسلامی میڈیا، نظریہ اور عمل کے درمیان) - عماد نعیم عبد.
7. مرکز العين نے (الاصلاح) کے عنوان سے ایک میگزین جاری کیا جس میں جناب یعقوبی کے اصلاحی منصوبے کی کئی پہلوؤں سے وضاحت کی گئی ہے۔
اسي طرح جناب یعقوبی کی سوانح حيات اور منصوبے اور ان کی علمي اور عملی خدمات کا تجزیہ کرنے والی کئی کتابیں بھی شائع کی گئی ہیں، جن میں شامل ہیں:
1. القواعد الفقهية في موسوعة (فقه الخلاف) للمرجع اليعقوبي (مرجع یعقوبی کے (فقه الخلاف) انسائیکلوپیڈیا میں فقہي قواعد -شیخ ڈاکٹر محمد السعدی ، اس كي تین جلدیں ہیں ۔
2. تاریخ الیعقوبی - اسلامی مصنف کمال السید کے مضامین کا ایک سلسلہ، جو الاصلاح میگزین کے کئی شماروں میں شائع ہوا، اور کئی دیگر آزاد تحقیقی اور پمفلٹ شائع ہوئے۔
3. المرجعية الرشيدة في بعدها الرسالي والحركي ( حكيمانه مرجعيت اپنے ديني اور تحریکي پهلومیں)- فیصل التمیمی۔
4. الشيخ محمد اليعقوبي من الولادة الى الريادة (شیخ محمد الیعقوبی پیدائش سے قیادت تک)- محمد محقق الافغانی.
5. المرجعية تقود المجتمع (مرجعيت معاشرے کی رہنمائی کرتي ہے) اس کے تين اجزاء ہیں - عبدالعظیم الاسدی
6. شروق الشمس (طلوع آفتاب) - سلیم الحسنی۔
7. الأصول الثقافية في شخصية الشيخ اليعقوبي (شیخ یعقوبی کی شخصیت کے ثقافتی أصول) - عبدالعظیم الاسدی.
8. الشيخ اليعقوبي.. المرجعية الاجتماعية (شیخ یعقوبی.. سماجی مرجعيت) – النوارس كي اشاعت.
9- سياحة في فكر المرجعية (مرجعيت كي فكر كا أيك جائزه) - علي خليفه جابر.
10- دروس في تربية النفس وتهذيبها (نفس كي تربيت اور تهذيب پر كچھ دروس) - ثمر حکیم السعدی.
11. مقاربة منهجية تفسيرية بين العلامة الطبطبائي والشيخ محمد اليعقوبي (علامہ طباطبائی اور شیخ محمد یعقوبی کے درمیان ایک وضاحتی ومنهجي تقارب - ڈاکٹر امجد الطائی.
12. قبس من نور / تعريف بتفسير من نور القرآن (اقبتاس از نور/ نور القرآن تفسیر كا تعارف) - محمد تقی المومن.
13. مبدأ التعايش السلمي في المنظور الإسلامي وفكر المرجع اليعقوبي والرأي العالمي- (اسلامی نقطہ اور مرجع يغقوبي كي فكر اور بین الاقوامی رائے میں پرامن رهن سهن كا اصول)- فيصل التميمي
14. ظاهرة تدجين الشعوب تحليل وفق رؤى سماحة المرجع اليعقوبي (دام ظله) (قوموں کي ركھوالي کا رجحان، جناب یعقوبی (ان کا سایہ قائم رہے) کے افكار کے مطابق ایک تجزیہ )- فیصل التمیمی
15. دولة الإنسان في فكر المرجع اليعقوبي (مرجع يعقوبي كي نظر میں انساني رياست) - محققین کا ایک گروپ
16. الإصلاح السياسي والاجتماعي عند المرجع اليعقوبي (مرجع يعقوبي كي نظر میں سیاسی اور سماجی اصلاح) - سمیرا الکظمی اور احمد البدیری.
17. معالم الفكر السياسي للمرجع اليعقوبي (مرجع یعقوبی كي نظر میں سیاسی فکر کے سنگ میل)- محمد معن الرداوی اور حسن رشق فیاض
18. ميكانيزمات العلاقة مع الغرب / رؤية المرجع اليعقوبي (دام ظله) للعلاقة مع الغرب (مغرب کے ساتھ تعلقات کا طریقہ کار / مغرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے یعقوبی (اس کا سایہ) کا نقطہ نظر)- محمد تقی المومن۔
19. القيادة الواعية / المرجع اليعقوبي أنموذجاً (باشعور قیادت / مرجع یعقوبی بطور نمونہ)- محمد تقی المومن
20. أثر خطاب المرجع اليعقوبي في القوات المسلحة (مسلح افواج پر مرجع یعقوبی کی تقریر کے اثرات )- محمد الجزائری
21. المرجع اليعقوبي وتصحيح المفاهيم (مرجع یعقوبی اور تصورات کی تصحیح )- فیصل التمیمی۔
22. قراءة في خطاب المرحلة (كتاب خطاب المرحله كا ايك مطالعه)- علی عصاف
23. تحديات الغزو الثقافي وآليات المواجهة (ثقافتی یلغار کے چیلنجز اور ان سے مقابله كرنے کے وسائل) - احمد البدیری
24. المثل الأعلى / من وحي كلمات الشيخ اليعقوبي (دام ظله) (اعلى مثال/ شیخ یعقوبی (ان کا سایہ قائم رہے) کے الفاظ سے ماخوذ)- علی الابراہیمی
25. الشباب أمل الأمة / في فكر المرجع اليعقوبي (دام ظله) (جوان قوم كي اميد ہیں / مرجع يعقوبي كي فكر کے مطابق) - محمد تقی المومن
26. إصلاح الوقت / في توجيهات القرآن والسنة والمرجعية (وقت کی اصلاح / قرآن، سنت اور مرجعيت کی رہنمائی کے مطابق)- جناب ایوب احمد الموسوی.
27. قوارير وأزاهير تعريف بمكانة المرأة ومسؤولياتها في خطاب المرجع اليعقوبي (دام ظله) (آئينےاور پھول ، مرجع يعقوبي (دام ظله) کے خطاب میں خواتین کے مقام اور ان کی ذمہ داریاں) - محمد تقی المومن
28. المنهج الفكري والحركي عند أهل البيت (عليهم السلام) / من وجهة نظر المرجع اليعقوبي (دام ظله) (اہل بیت علیہم السلام کا فکری اور تحريكي نقطہ نظر / مرجع یعقوبی (دام ظله) کے نقطہ نظر سے) -عبدالہادی الزیدی - ڈاکٹر طائر العقیلی - محمد النجی
29. ولاية أمر الأمة: قراءة في الأهداف والبنية النظرية والتطبيقية في توجيهات المرجع اليعقوبي (دام ظله) (امت کی سرپرستی: مرجع یعقوبی (دام ظله) کی ہدایات میں مقاصد اور نظریاتی اور عملي ڈھانچے کا مطالعہ) ۔
سعید العطاری - احمد الموسوی
30. من ثقافة عاشوراء / في ضوء فكر المرجع اليعقوبي (دام ظله) (عاشورا کی ثقافت سے / مرجع یعقوبی (دام ظله)کی فکر کی روشنی میں) - عبدالعظیم الاسدی
31- التعددية في القرآن والسنة / قراءة في توجيهات المرجع اليعقوبي (دام ظله) (قرآن و سنت میں تکثیریت / مرجع یعقوبی (ان کا سایہ قائم رہے) کی ہدایات كا مطالعه) - ایوب احمد الموسوی
32. حقوق غير المسلمين في أطار التعددية الدينية (مذہبی تکثیریت (riligios pluralism )کے دائرے میں غیر مسلموں کے حقوق) - شہاب الدین الحسینی
33. تأصيل الرشد الإسلامي / في ضوء إرشادات المرجع اليعقوبي (دام ظله) (اسلامی رشد کی حقيقت / مرجع عقوبی (دام ظله) کی رہنمائی کی روشنی میں) - ڈاکٹر۔ موفق مجید۔ایوب احمد الموسوی۔
34. القانون الجعفري / أحد الأهداف الاستراتيجية للمرجعية الرشيدة (جعفری قانون / حكيمانه مرجعيت کے اسٹریٹجک مقاصد میں سے ایک)- قاسم الدارجی
35. المشاريع الشيطانية للمنطقة / قراءة في خطاب المرجع اليعقوبي (دام ظله) (خطے کے شیطانی منصوبے / مرجع یعقوبی (دام ظله) کے خطاب كا مطالعه) - صلاح حسن جابر
36. تشخيص القيادة والمرجعية بين المؤهلات والادعاءات / بحسب رؤية المرجع اليعقوبي (دام ظله) قابلیت اور الزامات کے درمیان قیادت اور مرجعيت کی تشخیص / مرجع یعقوبی (دام ظله) کے نقطہ نظر کے مطابق)- سمیرا الکظمی
37. هل التطبير شعيرة؟ دراسة في خطاب المرجع اليعقوبي (دام ظله) (کیا تطبیر (قمه زني/زنجير زني) ایک رسم ہے؟ مرجع یعقوبی (دام ظله) کےخطابات کا مطالعہ )- صلاح حسن جابر.
[1] - اليعقوبي، محمد علي، البابليات، ج3، ص206، ناشر: الرافد للمطبوعات -بغداد،1439ھ/ 2017م.
[2] - اليعقوبي، محمد، الشيخ موسى اليعقوبي حياته، شعره، ص11، ناشر: دار الصادقين -نجف اشرف، پهلا ايڈيشن، 2002.
[3] - ديكھيئے: اعيان الشيعة والحصون المنيعة والطليعة ونقباء البشر ومعارف الرجال والبابليات وغيره.
[4] - اور یہ انسائیکلوپیڈیا خطاب المر حله کی پہلی اور دوسری جلد میں شائع ہوئےہيں۔
[5] - شہید سید صدر ثانی (قدس سره) کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں سے ایک هے، اور 1998 کے وسط میں ایک کیسٹ ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا.
[6] - فوٹيني كريستا، اليزابيتھ ڈاكسير، درين نوكس، الوجهة كربلاء ص152، پهلا ايڈيشن، ناشر: مركز الدراسات الاستراتيجية، بيروت / العتبة العباسية المقدسة، 1438ھ/ 2017م.
[7] - ياسر طباع، صابرينا ميرفان، ارك بونيرن، النجف بوابة الحكمة، ص131، ناشر: منظمة الأمم المتحدة للتربية والتعليم والثقافة بالتعاون مع مكتب اليونسكو للعراق /عمان -الأردن،2014.
[8] - د. صابرينا ميرفان، د. روبرت كليف، د. جيرالدين شاتلار، النجف، تاريخ وتطور مدينة المقدسة، ص377 ، منشورات اليونسكو/ ناشر: دار الوراق للنشر، 2016.
[9] - د. صابرينا ميرفان، د. روبرت كليف، د. جيرالدين شاتلار، النجف، تاريخ وتطور مدينة المقدسة، ص203، منشورات اليونسكو/ ناشر: دار الوراق للنشر، 2016.
[10] - دستاویزات کے سیکشن میں ان كى تصاویر کو ملاحظه کریں۔
[11] - اليعقوبي، محمد، المشتق عند الأصوليين القسم الأول: ص 2، منهج الأصول: ج2، ناشر: مؤسسة عاشوراء – قم المقدسة 1427/2007م.
[12] - اليعقوبي، محمد، قناديل العارفين: ص11، ناشر: دار جامعة الصدر الدينية / نجف اشرف، 1426ھ/ 2005م.
[13] - ملاحظه كريں: كتاب (التصنيف الموضوعي لخطاب المرجع اليعقوبي) يه ايك موٹى جلد هے.
[14] - دار الصادقين، شذرات معرفية، ص5، یہ جناب مرجع كى تاليفات اور ان كے بارے ميں لكھى جانے والى کتابوں اور مطالعات كے بارے ميں ایک تعارفی کتاب ہے، ناشر: دار الصادقين - نجف اشرف 2021م.
[15] - دار الصادقين، شذرات معرفية، ص8، ناشر: دار الصادقين - نجف اشرف 2021م.
[16] - اور آج یہ جامعة باقر العلوم (عليه السلام) /باقر العلوم یونیورسٹی کے نام سے قائم ہے.
[17] - اس مدرسےکے علاوہ نجف میں کئی دینی مدارس ہیں، جیسے امام الجواد (علیہ السلام) کا مدرسه، جو دس سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل قائم ہوا تھا اور اس نے تعلیمی مراحل کو آگے بڑھایا ہے، اور جامعہ امام الجواد علیہ السلام۔ جو کہ پانچ سال پہلے قائم ہوا تھا اور جس کے طلباء کی تعداد تقریباً (200) ہے اور مختلف مراحل میں طالب علم نصاب کے مطابق امتحان ديتےهيں اور اس طرح مقدس کوفہ میں امام صادق علیہ السلام کا مدرسه ہے۔
[18] - اور اسى طرز پر خواتين كا اداره (مؤسسة ملتقى العلم والدين النسوية) ہے.
[19] - اور اس كے ساتھ (نقابة السادة العلويين/علوى سادات اتحاد) كو ملحق كيا گيا هے.