(دینی) مرجع یعقوبی فرانسی مستشرق سے ملاقات کے دوران: صدیوں سے اسلام ہی عربی ممالک میں سويلائزيشن كا مؤسس اور انسانى تہذيب کا لیڈر رہا ہے۔

| |عدد القراءات : 569
(دینی) مرجع یعقوبی فرانسی مستشرق سے ملاقات کے دوران: صدیوں سے اسلام ہی عربی ممالک میں سويلائزيشن كا مؤسس اور انسانى تہذيب کا لیڈر رہا ہے۔
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

(دینی) مرجع یعقوبی فرانسی مستشرق سے ملاقات کے دوران: صدیوں سے اسلام ہی عربی ممالک میں سويلائزيشن كا مؤسس اور انسانى تہذيب کا لیڈر رہا ہے۔
بدھ، شعبان المعظم 1439، بمطابق 18/4/2018

مرجع دینی جناب شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) نے فرانسی محقق جیل کیبیل كا، جوکہ پیریس میں اسلامی جماعتوں کے امور اور شدت پسندی کی روک تھام کے انسٹیٹیوٹ میں ايك متخصص ہیں، اور اس کے ساتھ آنے والے وفد کا اپنے دفتر میں استقبال کیا۔
اور مہمان نے خواہش کی کہ مرجعیت سے اس کی پہلی ملاقات نجف اشرف کے اہم مراکز میں سے ایک مرکز ميں ہو تاکہ منطقے کے مستقبل کے بارے میں اس دیدار اور انکی آراء سے استفادہ کیا جائے، اور تکفیر اور شدت پسندی کی امواج کا مقابلہ کیا جائے جنہوں نے آخری چند سالوں میں منطقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، اور دین اسلام کو اپنی تحریک اور عمل کا ستر بنایا ہے۔ اسی طرح مہمان نے مدبرانہ مرجعیت اور عراقی حکومت کو درپیش چلینجز کے مقابلے میں ان کے کرادر کو جاننے کى خواہش کی۔
اور بعض فکری اور عقائدی اصول جن پر مذہب اہل البیت (علہیم السلام) قائم ہے، اور جن کے بارے ميں مسٹر جیل نے سوالات پوچھے، جناب مرجع شیخ یعقوبی (دام ظلہ) نے انکے بارے میں توضیح دیتے ہوئے فرمایا: شیعہ مکتب فکر احترام انسان کی اساس پر قائم ہے، بلکہ غیر انسان كا بھی، جسطرح حدیث قدسی میں آیا ہے( خلقت میرى عیال ہے اور میرے نزدیک ان میں سے زیادہ محبوب وہ ہے جو میری عیال پر شفقت کرتا ہے)۔ اور یہاں لفظ (خلق) ہر قسم کی مخلوقات کو شامل ہے اور انسان کے ساتھ خاص نہیں۔۔اسی طرح ایک اور حدیث قدسی میں آیا ہے (مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے)۔۔۔پس اسلام مکتب اہل البیت (علیہم السلام) کے مطابق دوسروں کا احترام کرنے اور اعتدال، عفو ودرگزر اور سلام پھیلانے کی بنیاد پر قائم ہے۔۔۔بلکہ سلام سے آگے بڑھ کر ايك دوسرے سےمحبت والفت کے ساتھ سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ملتا ہے: (کیا دین محبت کے سوا کوئی اور چیز ہے)۔
اسی طرح انہوں (دام ظلہ) نے فرمایا کہ اسلام حوار (dialogue) پر ایک اساسی اصل ہونے کی جہت سے اعتماد کرتا ہے، حتی دشمن کے ساتھ بھی۔ بے شک یہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ اہل البیت (علیہم السلام) کی سیرت میں روشن ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) جو کہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق شرعی خلیفہ ہیں، وہ خون نہ گرانے اور لوگوں کی جانوں کی حفاظت پر حریص ہیں، اور معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے خط وکتابت، نصحیت اور رہنمائی میں ایک سال گزارتے ہیں (باوجود اس کے کہ معاویہ نے خلافت شرعی سے سرکشی اور دشمنی کی)، اسی طرح آپ علیہ السلام نے اپنے چچازاد بهائى صحابی عبد الله بن عباس کو خوارج کےساتھ گفت وشنید کرنے اور انہیں وعط ونصحیت کرنے کے لیئے بھیجا جس میں وه 9000 خوارج میں سے 6000 کو حق کی طرف پلٹانے میں کامیاب ہوئے۔
جناب شیخ نے اپنی گفتگو میں آج کل کی ایک زندہ مثال کی طرف اشارہ کیا، اور وہ ہے فکری ودینی شدت پسندی اور دوسروں کی تکفیر کے علاج کی دعوت۔ اور یہ (علاج) ان گروہوں کی فکری جڑوں کو درست کرنے اور اپنے اعمال کی شرعیت میں جس گرہ پر اعتماد کرتے ہیں اس کو کھولنے کے زریعے ممکن ہے۔ اور اس کے لیے گفتگو کا دروازہ کھول دیا جائے تاکہ کسی حل تک پہونچ سکیں۔ چونکہ اکثر شدت پسندوں کی عقلیں تشیویش کا شکار ہیں، اور انکے افکار مغلوب ہیں، اور ان کے افکار کی اصلاح کی کوشش سے پہلے ان کے ساتھ عسکری جنگ کرنا خسارت شمار ہوگی۔
اور جناب شیخ نے اہل سنت بھائیوں کو دعوت دی کی وہ اجتھاد کا دروازہ کھول دیں جو ائمہ مذاھب کے زمانے سے بند ہے، تاکہ اس کے زریعے باصلاحیت افراد کو اجتھاد کی ڈگری دی جائے اور اندھا دھند فتووں کا دائرہ تنگ کیا جائے، اور اس کو صرف ان باصلاحیت افراد مین منحصر کیا جائے جو علمی اور اخلاقی جہت سے کامل ہوں۔ اور ہمارے نزدیک یہ دونوں اجتھاد اور عدالت کی شروط ہیں۔
اور دینی مرجعیت کے کردار كے بارے میں انہوں تاکید کی کہ دینی مراجع وطن کی وحدت، عوام کے عمومی مفاد کی حفاظت، مصلحتوں کی طرف رہنمائی، اجتماعی زندگی کے اصول کی تقویت، عوام میں حب الوطنی کی روح پروان چڑھانے، جسے ہم اس ملک کے باشندوں (جو مختلف مذاہب اور قوموں سے ہیں) میں قومی مناسبات اور سیاسی چیلنجز وغیرہ کے وقت صاف دیکھتے ہیں۔ حریص ہیں۔
جناب شیخ نے مزید تاکیدكرتے ہوئے كہا كہ دینی مرجعیت وطن اور اس کی عوام كى نسبت اپنی مسوولیت سے آگاہ ہے لیکن وہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی چونکہ وہ سیاست کا حصہ نہیں، بلکہ اسکی مداخلت عوام الناس کے مفاد اور انکی جانوں کی حفاظت اور حساس موارد، جسیے داعش کا عراق میں داخل ہونا وغیرہ۔ میں منحصر ہے۔ اور موجودہ حالات میں اس کا یہی کردار ہے۔
جناب شیخ نے بعض لوگوں کی طرف سے اسلام اور تمدن (سویلائزیشن) کے درمیان فرق کرنے کی کوششوں پر تحفظ كا اظہار کیا۔ ان لوگوں نے سول معاشرہ اور سول ریاست کو اس ریاست کے مقابلے میں لانے کی کوشش کی جس کے قوانین اسلامی احکام سے لیئے جاتے ہیں۔ انہوں (دام ظلہ) نے واضح کیا کہ دین اسلام ہی در اصل عرب ممالک میں سویلائزیشن کا مؤسس ہے۔ اور صدیوں سے انسانی تہذيب کا لیڈر رہا ہے۔ پس جو شخص اسلام سے پہلے عربوں کے حالات سے آشنا ہے وہ صرف بعض خیالی باتيں كرنے والے گروہ پاتا ہے۔ جو بعد میں اسلام کی بدولت ایک مہذب ریاست بن گئے جو ہر طرف پهيل گئى۔ وہ تہذيب کی طرف پلٹے اور ان کے پاس ثقافت وجود میں آگئی اور ان کے نظریات مضبوط ہوگئے، اور انسانی قافلے کے قائدین میں سے ہوگئے۔
انہوں (دام ظلہ) نے اس طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ بہت سارے انسانی اصول جن کا ہم احترام کرتے ہیں اور عرب ممالک ان پر فخر کرتے ہیں، ان کی جڑیں ہم اسلام میں پاتے ہیں۔۔اور مسلمان ان اصولوں اور عظیم اسلامی اقدار سے دور ہونے کے سبب اپنی انسانیت اور تہذیب سے دور ہوگئے ہیں۔ اور دین اسلام کی کامل اور وسیع نظر پر تاکید کی کہ وہ تعمیر وترقی، انسان اور ممالک کی سعادت، اور تہذیب وتمدن کا دین ہے۔
اور ملاقات کے آخر میں مہمان نے دینی مرجع یعقوبی کا ان کی وسعت قلبی کی خاطر ان کا شکریہ ادا کیا۔
اور اس ملاقات میں عراقی وزارت خارجہ جس نے اس دعوت کا اہتمام کیا تھا، کے کئی بڑے بڑے وزراء بھی حاضر ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


* ڈاکٹر جیل کیبل فرانس میں سیاسی تحقیقات کے سنٹر میں مشرق وسطی کے بارے میں تحقیقی برانچ کے استاد اور انچارچ ہیں۔ جہاں پر وہ عرب اور اسلامی دنیا کے بارے میں، پی ایچ ڈی، ایم فل اور بی اے لیول پر ہونے والے پروگرامز کی مسوولیت سنھبالتے ہیں۔ اور اسی طرح انہوں نے 2003 میں Eurogolfe کمپنی کی بنیاد بھی رکھی۔ اور اس وقت وہ اس ادارے کے ہیڈ ہیں۔ اور 1995 سے 1996 تک نیویارک یونیورسٹی اور کولمبو یونیورسٹی میں استاد بھی رہے۔ انہوں نے عربی اور انگلش زبان، اور فلسفہ میں علمی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اور سیاسی تحقیقات کے سنٹر سے بی اے سائنس، اور سوشیالوجی اور پولیٹکل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
(1) - الخصال: 21/74