اسلام میں جہاد کے اسباب
اسلام میں جہاد کے اسباب
مرجع دینی جناب شیخ محمد یعقوبی
قابل احترام! آپ پر خدا کی سلامتی، برکت اور رحمت ہو
سب سے پہلے میں اپنا تعارف کرانا چاہتا ہوں: میں ایک عراقی مسیحی عالم دین ہوں، میرا تعلق موصل شہر سے ہے، اور ابھی فرانس کے شہر پیرس میں ہوں، یہاں میں علوم ادیان کا طالب ہوں اور عنقريب میرا دقیق تخصص ادیان کے درمیان علم مناظرہ کا ہوگا۔ اور ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے لیئے اگلا سال میرا آخری سال ہوگا۔ اور ایم فل کا تھیسز اسلام اور مسیحیت میں جہاد کے موضوع سے مربوط ہوگا۔۔۔اور یہ- جیسا ایک آپ جانتے ہیں- ایک مزیدار موضوع ہے، اور اکثر لوگوں نے اسکو اپنے اصلی سیاق سے بعيد ركھ كر غلط سمجھا ہے۔
میری پڑہائی کے مسوول نے تاکید کی ہے کہ اس موضوع کو صرف سنی فقہ میں محدود نہ کیا جائے، بلکہ شیعہ فقہ کو شامل بهى شامل کیا جائے۔ اس میں اکثر حوالے سنی اور شیعہ اہم کتابوں سے ہیں، جیسے بحار الانوار، میزان الحکمہ، من لا یحضرہ الفقیہ، کافی، اور تھذیب۔۔۔
کیا آپ جناب کے پاس اور بھی کتابیں ہیں جن سے میں مستفید ہو سکوں؟ کیا آپ كے پاس میرے لیئے کوئی نصیحت ہے جسکی وجہ سے میری بحث مضوبط ہو جائے؟ اس پر آپ کا مشکور ہوں۔ اور آپ سے خواہش کرتا ہوں کہ یہ بھی بتایئے کہ آیا سنی اور شیعہ فقہ کے درمیان مفہوم جہاد ميں فرق کوئی ہے؟ آور آپ کی نظر میں وہ فرق کیا ہے؟
بسمہ تعالی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کے دن حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے آپ کو تبریک عرض کرتا ہوں، وہ (ع) محبت، تواضع، پستگی سے دوری، ذلت، انانیت اور شہوات ولذات دنیاوی کے سامنے نہ جھکنے میں ایک مثال تھے۔
اور آپ کو ایک بھائی ہونے اور موصل اور مظلوم عراق کے تمام شہروں جن ميں ظالم اور وحشی طاقتوں نے دہشت پھیلائی ہے، اور ہم عراقیوں کی مشکلات میں ایک شریک ہونے کی حیثیت سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ خداوند ہماری، آپ کی اور اپنے تمام ہموطنوں کی مدد فرمائے اور سب سے غم وپریشانی دور کرے۔
اس بحث میں کتابیں آپکو زیادہ فائدہ نہیں دے سکتیں، چونکہ وہ دنیا کے جدید حالات اور تمدنی تبدیلیوں کی روشنی میں،ایک جدید قرائت (study) کی محتاج ہیں۔ اور خصوصا بعد اس کے کہ دہشتگرد جماعتوں نے اس مقدس عنوان (جہاد) کو خراب کیا اور اسلام ان کے وحشیانہ اعمال سے بری ہے۔
اگر آپ احکام شرعیہ کے انسائیکلوپیڈیا کا مراجعہ کرینگے جسے فقہاء اپنی سنت کے مطابق لکھتے ہیں تاکہ انکے مقلدین اس سے استفادہ کریں اور وہ رسالہ عملیہ کے نام سے معروف ہے، میں نے اسے (سبل السلام) کا نام دیا ہے، تو اسے کتاب الجھاد سے خالی پائینگے، اور مجھے ایک طویل فرصت درکار ہے تاکہ اذن خدا وند سے جدید پختہ اور حکمیانہ نظریات کی روشنی میں اس پر نظر ثانی کروں۔
اور جو کچھ میں نے قرآن کریم اور معصومین (علیہم السلام) کی احادیث شریفہ سے استفادہ کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان سے جنگ کرنا اور اسے قتل کرنا جائز نہیں مگر یہ کہ وه مفسد فی الارض ہو جو لوگوں کی زندگیوں اور عام اجتماعی نظام کو خطرے میں ڈالتا ہو یا وہ ان افراد میں سے ہو جو لوگوں کو اپنے عقائد اور رسومات کو آزادی کے ساتھ منانے سے کرتے ہیں، اور ان پر ظلم کرتے ہیں اور زبردستی اپنا دین چھڑوا دیتے ہیں۔
خداوند نے فرمایا: (وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه) (الانفال/39) " اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہوجائے"
اور فرمایا: (إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَاداً أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ) (المائدہ/33) "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا بس یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں". اور اسی طرح جنگ اور مسلمانوں کے لشکر طاقت یا اثر ورسوخ بڑھانے یا مال غیمنت ہتھیانے، یا کسی کو زبردستی مسلمان بنانے کے لیئے نہیں تھے، بلکہ وہ ظالمین اور مستکبرین کا فتنہ ختم کرنے لیئے تھے جو اپنی عوام پر ظلم کرتے تھے اور انہیں حق کی آواز سننے سے منع کرتے تھے، پس اگر یہ رکاوٹیں ہٹا دی جائیں (جس طرح آج کے زمانے میں ہے) تو جنگ کرنا جائز نہیں، چونکہ " دین میں کوئی زبردستی نہیں" (البقرہ/256)۔ اور اسلام کی حکمرانی کے وقت مختلف ادیان کے لوگ موجود تھے اور کسی کو ابھی اپنا دین تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا۔
اگر دینی عبارات کچھ محدود عناوین جیسے مشرکین وغیرہ، سے جنگ کے بارے میں بيان ہو جائیں تو وہاں انہیں بذات خود عنوان مشرکین کو مد نظر نہیں رکھا گیا بلکہ ان کے اعمال کی جہت سے ديكها گيا ہے کہ جب وہ مسلمانوں پر ظلم کریں اور انہیں اپنا دین ترک کرنے پر مجبور کریں۔
بہر حال بات لمبی ہے اور میں نے اپنى کئی کتابوں میں اس کو ذکر کیا ہے۔ اور آپ کے لیئے کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔
محمد یعقوبی
25/12/2014