مرجع عالیقدر جناب شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) خدا کی طرف خبر دینا اور پکارنا، انبیاء علیہم السلام کا پیغام ہے۔ یہ علم، آگہی اور بصیرت کو پھیلا کر مدرسہ کے کردار کو بروئے کار لا کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر لوگوں کے درمیان۔
مرجع عالیقدر جناب شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) خدا کی طرف خبر دینا اور پکارنا، انبیاء علیہم السلام کا پیغام ہے۔ یہ علم، آگہی اور بصیرت کو پھیلا کر مدرسہ کے کردار کو بروئے کار لا کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر لوگوں کے درمیان۔
بسمہ تعالی
بروز بدھ
3/صفر/1444ھ
بمطابق 31/8/2022م
مرجع عالیقدر جناب شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) نے اُن دو لازم وملزوم جہات کو اہتمام اور مسؤولیت کی نگاہ سے دیکھنے كى تاکید کی ہے جن کی طرف آیت مبارکہ( آيت النفر )دعوت دیتی ہے ،جس میں خداوند متعال نے فرمایا:
(فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ) "اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں" (سورہ توبہ: 122).کسی بھی صورت ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرنا چاہیے، اور وه دونوں جہات طلبِ علم اور اللہ کی طرف دعوت اور اس کے احکام کی تبلیغ ہیں.
جناب شیخ (دام ظلہ) نے زیارت اربعين کے ایام سے پہلے نجف اشرف میں اپنے دفتر میں جمع ہونے والے فاضل افراد اور طلاب علم کے ساتھ تبلیغی مہم آغاز کرنے سے پہلے گفتگو کی.
گفتگو کے دوران انہوں نے حوزہ علمیہ اور بہت سارے طلاب علم کے نزدیک مروجہ ثقافت پر افسوس کا اظہار کیا جس کی بنا پر وہ صرف پہلی ذمہ داری پر توجہ مرکوز کرتے ہیں (جس کی طرف آیت دعوت دیتی ہے) جو کہ صرف حصول علم اور درس پڑھنے تک محدود ہے. جبکہ دوسری ذمہ داری کو نظر انداز کرتے ہیں جو کہ خدا وند متعال کی طرف دعوت، احکام دین اور عقائد حقہ کی تبلیغ اور لوگوں کو شعور اور بصیرت عطا کرنا ہے.
جناب شیخ یعقوبی (دام ظلہ) کا خیال ہے کہ یہ طرز تفکر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ آیت مبارکہ کے فہم اور اس کو زمینی حقائق کے مطابق اس کے مصادیق پر منطبق کرنے میں کچھ قصور اور خلل ہے.
اسی طرح اس طرز تفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع مقدس نے ائمہ اہل بیت(علیہم السلام) کی روایات کے زریعے جو ہدف مد نظر رکھا ہے اس سے دور ہیں. جیسا کہ امام صادق (علیہ السلام) سے منقول حدیث میں آیا ہے:
(مجھے یہ مجالس پسند ہیں، لہذا ہمارے امر کو زندہ رکھو، اللہ اس پر رحم کرے جس نے ہمارے امر کو زندہ رکھا) ([1])
ہروی نے عيون اخبار الرضا (علیہ السلام) میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
"میں نے ابو الحسن علی بن موسی (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اس بندے پر رحم کرے جس نے ہمارے امر کو زندہ رکھا، میں نے عرض کیا: آپ کے امر كو کیسے زندہ رکھا جاتا ہے؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: ہمارے علوم سیکھتا ہے اور پھر لوگوں کو سکھاتا ہے، بے شک اگر لوگ ہمارے محاسن کلام کو جان لینگے تو ہماری پیروی کرینگے". [2]
یعنی علوم آل محمد (صلوات اللہ علیہم) كو سیکھنے اور لوگوں کو سکھانے کے زریعے ان کے امر کو زندہ رکھا جاتا ہے.
اور یہ آیت مبارکہ کے آخری حصے (اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں) کا واضح ترین مصادیق میں سے ہے جو اس بات کی طرف متوجہ کراتا ہے کہ صرف درس پڑھنا اور تعلیم حاصل کرنا کافی نہیں (کیونکہ یہ صرف آدھے راستے کی نمائندگی کرتا ہے اور اس سے کبھی بھی ہدف پورا نہیں ہوتا) جب تک بطور طالب علم ہم اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نہ سمجھیں، ان پر عمل نہ کریں اور ان کی طرف قدم نہ بڑھائیں.
جناب شیخ (دام ظلہ) نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ بے شک تبلیغ انبیاء (علیہم السلام) کا پیغام اور وظیفہ ہے (الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا) "(وہ انبیاء) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔" (سورہ احزاب: 39).
لہذا اس آیت کی روشنی میں طلاب علم کو چاہیے کہ وہ ان (انبیاء) کی پیروی کریں اور شجاعت سے مزین ہو جائیں، اور اپنے آپ کو خود ساختہ رسومات وتقاليد سے آزاد کریں جو کہ آج کل معروف ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، بلکہ وه سیرت معصومین (علیهم السلام) کے خلاف ہیں. اسی طرح بہت سارے باعمل علماء کے نہج کے بھی خلاف ہیں جنہوں نے اپنی بات پہنچا دی، اور اللہ کی راہ میں خلوص نیت سے کام کیا اور ہمیشہ رضائے الہی کو اپنا نصب العین قرار دیا، لہذا ان کا ذکر ہمیشہ باقی رہنے والوں میں شامل ہوگیا. اور جو کچھ حوزہ علمیہ کی حوصلہ شکنی یا ان کا وظیفہ تبلیغ سے پیچھے رہنے کے بارے میں کہا گیا یا کہا جاتا ہے وہ فقط شیطانی توہمات ہیں (إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) " یہ ( خبر دینے والا) شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان لوگوں سے نہیں مجھ سے ڈرو۔" (سورہ آل عمران: 175).
جناب شیخ (دام ظلہ) نے اس موجودہ صورت حال اور مروجہ ثقافت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جس کو بعض لوگ مزید پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور طلاب علم اپنے اجتماعی سلوک کے زریعے اور بغیر غور وفکر کیے اس میں حصہ ڈالتے ہیں.
جناب شیخ (دام ظلہ) نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیب نہیں تھے؟ کیا امیر المومنین (علیہ السلام) خطیب نہیں تھے؟ کیا امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) خطیب نہیں تھے؟ پس کیوں امت کے ساتھ علماء کی طرف سےبالمباشر کلام کو نقص يا غلط سمجھا جاتا ہے؟ اور امت کیوں اپنے قائدین کو بالمباشر نہیں سنتی اور بات کو صاف چشمے سے كيوں نہیں لیتی؟ اور ہمارے پاس امام امیر المومنین (علیہ السلام) كى کثیر وراثت موجود ہے. اور جو نصیحتیں مکہ میں اپنے نمائندے ثقم بن العباس کو کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے:
(لوگوں کی طرف سے آپ تک بات پہنچانے کے لیے كوئى سفیر نہ ہو اور نہ ہی کوئی انہیں آپ سے ملنے ميں رکاوٹ بن جائے) ([3])، یعنی لوگ آپ کی بات بغیر کسی واسطے کے سنیں. اور یہی معصومین علیهم السلام کی سیرت ہے جس پر چلنے اور اسے اپنانے کی ضرورت ہے.
مرجع دینی (دام ظلہ) نے اپنی دعوت کا تکرار کرتے ہوئے فرمایا کہ زیارت اربعين كے بابرکت موقع کو خداوند متعال کی طرف بلانے، لوگوں کو شعور دینے، ان كى رہنمائی کرنے اور تفرقہ بازی کے تمام اسباب کو پس پشت ڈالنے کے لئے استعمال کیا جائے. اور ہر سال لوگ اس زیارت پر آتے ہیں اور یہ ایک عظیم فرصت ہے جس میں لاکھوں لوگ حوزہ علمیہ کے طلاب سے ملتے ہیں اور ڈائرکٹ ان کی بات سے سنتے ہیں اور شعور اور رہنمائی کے مواکب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں. اس دوران روحانی ماحول سے مستفید ہوتے ہیں جسے خداوند متعال نے ابو الاحرار (امام حسین علیہ السلام) کی برکت سےعطا کرتا ہے، کیونکہ لوگ سارا سال اپنی روز مرہ مصروفیات کی وجہ سے دینی مراکز سے دور رہتے ہیں.
اسی طرح اللہ کے فضل وکرم سے یہ زیارت ایک عالمی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کی اقوام جمع ہوتی ہیں، لہذا یہ ایک متعارف بازار کی طرح ہے جس کو اللہ کی طرف دعوت دینے اور شعور اور معرفت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. اس مقام پر جناب شیخ (دام ظلہ) نے حضرت سیدہ طاہرہ زہراء (علیہا السلام) کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی حدیث کو بطور دلیل ذکر کیا، جس میں آپ (علیہا السلام) فرماتی ہیں:
"میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک ہمارے شیعہ علماء روز قیامت محشور ہونگے اور انہوں نے اپنی کثرت علم اور بندوں کی ہدایت کے مطابق لباس کرامت زیب تن کیا ہوگا یہاں تک كہ ان میں سے ہر ایک کے بدن پر نور سے بنا دس لاکھ کا زیور ہوگا؛ اس کے بعد پروردگار عالم کا منادی ندا دے گا: اے آل محمد کے ایتام كى کفالت کرنے والے، جنہوں نے اپنے آباء واجداد جو کہ ان کے ائمہ ہیں، سے منقطع ہونے والوں کو سربلند کیا"([4]).
جناب شیخ (دام ظلہ) نے حدیث شریف میں مذکور دو اہم امور کی طرف اشارہ کیا اور وہ لباس کرامت پہننے کی شروط میں سے ہیں. ان میں سے پہلا امر (ان کے علوم کی کثرت ہے) لیکن یہ امر حصول ہدف کے لیے اکیلا کافی نہیں بلکہ اس سے صرف طالب علم کو ہی فائدہ پہنچتا ہے جیسا کہ مثلا وہ (علامہ) بن جائے، یا سطوح عالیہ جیسے (کفایہ اور مکاسب) کے دروس پڑھائے اور اس کے گرد طلاب کا ایک گروہ جمع ہو جائے. لیکن صرف یہ کافی نہیں، جب تک دوسری شرط متحقق نہ ہو اور وہ شرط یہ ہے کہ (وہ اللہ کے بندوں کو راہ ہدایت دکھانے میں محنت کریں) اور کثرت علوم کا یہی اہم ترین ہدف اور مقصد ہے. اس حدیث مبارک کے آخری حصے میں آیا ہے: (اے آل محمد کے ایتام كى کفالت کرنے والے، جنہوں نے اپنے آباء واجداد جو کہ ان کے ائمہ ہیں، سے منقطع ہونے والوں کو سربلند کیا. پس یہ لوگ وه یتیم ہیں جو اپنے حقیقی آباء سے منقطع ہو چکے ہیں. اے علی ميں اور آپ اس امت کے باپ ہیں) ([5]) اور انہیں ان کی برکات سے محروم رکھا گیا ہے.
اس کے بعد جناب شیخ (دام ظلہ) نے فاضل طلاب کے اجتماع اور اسی طرح حوزہ علمیہ کے تمام اساتذہ اور طلاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: (اے علماء! آپ انبیاء کے وارث ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے (علماء انبیاء کے وارث ہیں)، اور آپ اس امت کے باپ کی طرح ہیں اور یہ آپ کے ایتام ہیں، یہ آپ کی مسؤولیت کے تحت ہیں، لہذا جلدی کریں اور ان کی ہدایت اور راہنمائی میں محنت کریں، کون جانتا ہے شاید ان ایتام میں سے بعض روز قیامت ہمیں روک دیں اور ہماری گریبان پکڑ لیں، اور کہیں میں آپ کا ہمسایہ ہوں یا کہے میں وه دوکاندار ہوں جس سے آپ سودا خریدتے تھے یا کہے میں وہ ٹیکسی ڈرائیور ہوں جس کی گاڑی آپ کرایہ پر لیتے تھے، یا کہے میں آپ کا ہم کار ہوں یا حج کا ہمسفر ہوں، اور ہم نے بہت سارے دن اکھٹے گزارے لیکن آپ نے مجھے فلاں مسئلہ نہیں سکھایا، آپ نے میرے وضو اور نماز کی تصحیح نہیں کی، اور اس کار خیر کی طرف میری رہنمائی نہیں کی، اور مجھے فلاں برائی سے خبردار نہیں کیا، اور مجھے یہ نصیحت نہیں کی وغیرہ وغیرہ... اسی طرح آپ قیاس کرتے جائیں، پس کتنے ہی لوگ ہونگے جو روز قیامت ہمیں روک دینگے اور ہم ان کی نسبت جوابدہ ہونگے اور ان کے حق کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا؟
اپنے خطاب کے آخر میں جناب شیخ (دام ظلہ) نے مبلغین کو یہ دعوت دی کہ ان کی نگاہ عمیق اور واقعی ہونی چاہیے تاکہ وہ یہ اچھی طرح سے جان سکیں کہ مختلف رنگ ونسل اورقوم کے زائرین کے ساتھ کس طرح کی گفتگو کرنی ہے، اور حالیہ حالات اور مناسبات، جدید چیلنجز اور مسائل، اور جدید فکری، عقائدی، اجتماعی اور اخلاقی مشکلات کے تقاضوں کے مطابق بات کریں. اور ان امور میں سر فہرست لوگوں کو اوقات نماز كے دوران باجماعت نماز ادا کرنے پر زور دینا ہے، اسی طرح بنیادی شرعی احکام کی وضاحت کرنی ہے جسیے وضو اور نماز وغیرہ، اور دیگر امور میں مجتھد جامع الشرائط کی طرف رجوع کرنے پر تاکید کرنی ہے.
اس کے علاوہ ایسی نصحیتیں اور رہنمائی بيان کریں جو عالم اسلام میں اٹھنے والے فتنوں كے مقابلے ميں فائده مند هوں تاکہ وه شکوک اور شبہات کی بھینٹ نہ چڑھیں. اور امام (حسین علیہ السلام) کی تحریک کو شعور اور بصیرت کے ساتھ پڑھیں اور هم زیارت اربعین پڑھتے وقت امام علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہیں کہ (انہوں نے آپ کی راہ ميں اپنی جان قربان کی تاکہ آپ كے بندوں کو جہالت اور حیرت سے نجات دے) ([6]). لہذا یہ بات درست نہیں كه لاکھوں لوگ امام علیہ السلام کی زیارت سے واپس لوٹ جائیں جبکہ وہ روحانی فیض سے محروم ہوں.
اسی طرح جناب شیخ (دام ظلہ) نے امام مہدی (عجل اللہ فرجہ الشريف) کو یاد دلانے، ان کے مقدس قضیہ کو بیان کرنے ، اسے أحياء کرنے کے طریقوں کو ذکر کرنے، ان كےظهور کے لیے اچھی طرح مقدمہ سازی کرنے اور امام کی طرف منسوب جھوٹے دعوؤں کو رد کرنے کی تلقین کی.