مرجع یعقوبی :سیاسی ماحول کو صاف کرنا مسلمانوں میں اتحاد کے حصول کے لئے ایک اہم عنصر ہے

| |عدد القراءات : 470
مرجع یعقوبی :سیاسی ماحول کو صاف کرنا مسلمانوں میں اتحاد کے حصول کے لئے ایک اہم عنصر ہے
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

 مرجع یعقوبی :سیاسی ماحول کو صاف کرنا مسلمانوں میں اتحاد کے حصول کے لئے ایک اہم عنصر ہے

بسمه تعالى

سیاسی ماحول کو صاف کرنا مسلمانوں میں اتحاد کے حصول کے لئے ایک اہم عنصر ہے

دینی مرجع شیخ محمد یعقوبی (اللہ تعالی انہیں لمبی زندگی دے) نے مسلمانوں کے اتحاد کے حصول اور ان کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرنے کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی  بڑا تقاضا ہے جس کا مطالبہ قرآن کریم سنت نبی (صلى الله عليه وآله)  نے کیا ہے۔انہوں  نےمسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کرنے اور ان  کے درمیان وحدت کو یقینی بنانے کےلیے دو  طرح کے اقدامات  ذکر کیے ہیں۔اور وہ دونوں مندرجہ ذیل ہیں:

1. سیاسی ماحو ل(1) اور خطے کے اسلامی ممالک کے مابین تعلقات کو صاف کریں ، خاص طور پر جو اپنی حدود سے باہر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

۲۔ شیعہ برادران کے اجتہاد کو رول ماڈل بناتے ہوئے اہل سنت کے اہل اور جید علماء کےلیے اجتہاد اور استنباط کا دروازہ کھول دیا جائے۔

جناب عالی نے حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شیخ حمید شہریاری(بین الاقوامی کونسل برای تقریب بین مذاہب اسلامی کے جنرل سیکریٹری) سے ملاقات کے دوران اپنی گفتگو کے آغاز میں پہلا نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: فرقہ وارانہ کشیدگی اور فرقہ وارانہ اختلافات اکثر سیاسی تنازعات کی آگ کو ہوا دیتے ہیں ۔ یہ سیاسی عناصر اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کےلیے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے فرقہ واریت کا سہارا لیتے ہیں  ، اور لوگوں کو فرقہ وارانہ نعروں سے دھوکہ دیتے ہیں۔بے شک رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی وفات کے بعد پہلا اختلاف  جس نے مسلمانوں کو تقسیم کیا وہ سیاسی اختلاف تھاجس کا اصل  مقصد حکومت پر قبضہ کرنا تھا ۔ وگرنہ قریش کو أمير المؤمنين (عليه السلام) کی دینی قیادت میں، چاہے وہ علم  کی جہت سے ہو، تقوی کی جہت سے ہو، جہاد کی جہت سے ہو،دین  پر سب سے پہلے ایمان لانے کی جہت سے ہو،حب الوطنی کی جہت سے ہویا پھر رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے قربت کی جہت سے ہو، ذرہ  برابر شک نہیں تھا۔اور وہ اپنے اقوال اور اپنے اعمال سے اس چیز کی تصدیق کرتے تھے مگر یہ کہ وہ طاقت ، حکمرانی اور دنیاوی قیادت چاہتے تھے۔اور یہ بات کھل کر تب سامنے آئی جب انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ  وہ نبوت اور خلافت دونوں کو بنی ہاشم میں جمع دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ان کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ علمی وراثت اور دین بنی ہاشم کے پاس رہے، وہ صرف اقتدار ان سے چھیننا چاہتے ہیں۔

اگر ہم ان تنازعات  کا تجزیہ و تحلیل کریں  جو آج مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتے ہیں اور ان کی طاقت اور ان کے وسائل کو ضائع کرتے ہیں  تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ تنازعات سیاسی ہیں اور عقیدے کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کےلیے ضروری ہے کہ مسلمان ملکوں پر حاکم  حکمران  اپنے بعض مفادات   اور تنازعات کو ترک کریں ،  اپنے درمیان فاصلے کم کریں ، میڈیا وار میں کمی لائیں، اس سے فرقہ وارانہ تناؤ کو دور کرنے میں بہت مدد ملے گی اور اسلامی ممالک  امن ، سکون اور زندگی سے مالا مال ہوجائیں گے جیسے آپ نے 1990 کی دہائی میں دیکھا تھا۔ اور اس کے ثمرات میں یہ بھی تھا کہ سن 2000 ء میں لبنانی سرزمین کی آزادی تک تمام مسلمان ، سنی اور شیعہ حزب اللہ کی مزاحمت کے پیچھے کھڑے رہے۔ اس طرح یہ ممالک ترقی ، تعمیر نو کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے کے قابل ہوں گے اور مختلف شعبوں میں پاور جنریٹ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

جہاں تک بات ہے اس گفتگو کے دوسرے اہم نکتے کی تو اس میں جناب عالی نے  اہل سنت کے حوزات علمیہ میں پڑھائے جانے والے نصاب کو اپ گریڈ کرنے  پر دوبارہ زور دیا تاکہ اس سے اہل سنت  میں  باصلاحت، لائق اورتجربہ  کار مجتہد پیدا ہوں۔ اس کا فایدہ یہ ہوگا کہ  اہل سنت میں فتوی دینا، متقی ا ور پرہیزگار مجتہدین میں منحصر ہوگا جن کا  اصل ہدف خدا وند متعال کی رضا ، انسان کی فلاح و بہبود اور  کرامت ہے،جو  شریعت کے احکام کا استنباط بغیر کسی  معین مذہب کی قید کے صحیح اور واضح دینی نصوص سے کرتے ہیں ۔ اس طرح سے ،گمراہی،انحراف، جہالت اور تعصب کے فتوے دینے والوں کےلیے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بند ہوجائے گا۔(3).

بے شک ہمیں اس بات کا علم ہے کہ مسلمان ممالک میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے پاس  اجتہاد کی صلاحیت موجود ہے اور اس سلسلے میں پہلاقدم شیعہ مراجع اٹھا سکتے  ہیں ۔وہ اہل سنت کے مستحق علماء کو اجتہاد کی اجازت دیں ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آنے والی ان کی نسلوں کےلیے اجتہاد کا دروازہ کھل جائے گا۔

اور معزز مہمان  نے (الجامعة الإسلامية) کے نام سے یورپی یونین اور کامن مارکیٹ کے طرز پر جو پروجیکٹ پیش کیا تھا ،اس پر  جناب مرجع عالیقدر شیخ یعقوبی نے ان  کی خدمت میں تبریک عرض کی اور فرمایا: ہم ان یونٹری منصوبوں میں  سب سے آگے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی اصل بنیادیں خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت پر مبنی ہیں نہ صرف مشترکہ مفادات پر۔

 

____________________________________

 

[1] - یہ ایک خفیہ ملاقات سے پہلے ان کی تقریر تھی جو 9/4/2021 کو بغداد میں ایران اور سعودی عرب کے سینئر سیکیورٹی حکام کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ہوئی تھی ، اور اس کے بعد دونوں ممالک کے عہدیداروں کے مثبت بیانات سامنے آئے تھے۔

[2] - یہ میٹنگ بدھ کے روز 24 شعبان / 1442 بمطابق 7/4/2021 کو ہوئی۔

[3] شيخ الأزهر احمد الطيب نے اس سال 1442 کو رمضان کے بارے میں اپنی گفتگو کی قسط نمبر 18 اور 19 میں، دینی تقدس اور اسکا شریعت کے ساتھ مساوی ہونے سے انکار کیا ہے.  کیونکہ اس کا نتیجہ جدید اسلامی فقہ کا جمود ہے، کیونکہ بعض لوگ فتاوی میں یا قدیم فقہی احکام میں جو تجدید کی نمائندگی کرتے تھے اور اپنے زمانے کے مسائل پر پابند تھے، ان میں لکیر کے فقیر ہیں، اور خطا سے پاک قرار دیے جانے والے فتاوی سے خبردار کیا ہے اور ان قلیل الحياء فتاوی کی ترویج سے منع کیا ہے.