ماہ رمضان
ماہ رمضان
۱۔ما ہ رمضان المبارک کی حرمت
مومنین کو چاہیے کہ وہ اس مبارک مہینے کی حرمت اور جو کچھ اس مہینے میں ان پر واجب ہے اس بارے میں جان لیں۔ان کو چاہیے کہ وہ ماہ شعبان کے آخری جمعے کو پیامبر اکرم )صل اللہ علیہ و آلہ وسلم( نے جو خطبہ ارشاد فرمایا ہے اس کا مطالعہ کریں جو کہ مفاتیح الجنان میں بیان ہوچکا ہے۔اسی طرح مومنین کو چاہیے کہ وہ امام سجاد )علیہ السلام (نے اس مہینے کے استقبال اور اس کے وداع کے متعلق صحیفہ سجادیہ میں جو دعائیں بیان فرمائی ہیں انہیں پڑھ لیں تاکہ اپنے پروردگار اور اپنے امام زمان )عجل اللہ فرجہ (مہدی موعود کے نزدیک اجر پاسکیں۔
۲۔ اعمال کے معنوی آثار
بے شک اعمال کی قیمت ان کے معنوی آثار کی مقدار کے مطابق ہے، پس انسان صرف فقہ کی کتابوں میں مکتوب مبطلات روزہ جیسے کھانا اور پینا،سے اجتناب کرکے روزے کی اصل حقیقت کو حاصل نہیں کرسکتا اگرچہ بری الذمہ ہونے کےلیے اتنی مقدار کا فی ہے، بلکہ روزے کی حقیقت کو انسان تب ہی درک کرسکتا ہے کہ جب وہ اپنی روح اور جسم کو ان چیزوں سے دور رکھے جن کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اور اپنے وجود کو اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت کےلیے فارغ کر دے، اور جب دل بھی ان دونوں میں شامل ہوجائے تو اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے صورتحال اور مکمل اور بہتر ہوجائے گی۔
۳۔ قرآن کی بہار
ماہ مبارک رمضان قرآن کریم کی بہار ہے۔ مومنین کو چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت میں سستی نہ کریں۔اگر انسان کی قرات ادبیات کے دقیق قواعد کے مطابق نہ ہو،اور جان بوجھ کر قرآن کی تلاوت غلط نہ کررہا ہو اور اس قدر اسے غلط نہ پڑھ رہا ہو جس سے معنی بدل رہا ہو تو یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول )صل اللہ علیہ و آلہ وسلم (پر جھوٹ نہیں چونکہ اس کا مقصد اپنی اصلاح ہے۔
۴۔ اللہ تعالی کی رحمتوں کا مہینہ
ماہ مبارک رمضان اللہ تعالی کے لطف و کرم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کا مقصد انسان کی مدد کرنا اور اسےاپنے زمانے کے امام کے قریب کرنا ہے۔اللہ تعالی کی رحمتیں مسلسل انسان پر نازل ہوتی رہتی ہیں اور اس کی مہربانی اور کرم کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔جب ماہ مبارک رمضان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالی اپنے لطف و کرم سےرحمتوں اور برکتوں کے اور دروازے انسان کےلیے کھول دیتا ہےجو شاید ان سے بھی زیادہ وسیع ہوں۔ جب رمضان الکریم کا دسترخوان اٹھالیا جاتا ہے، شب قدر گزر جاتی ہے اور رمضان کا آخری عشرہ بھی گزر جاتا ہے اور لوگوں میں سے ہر ایک اتنا کچھ حاصل کرلیتا ہے جو اللہ تعالی کو خوش کردیتا ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں رمضان کریم کے پروردگار کی رحمتوں اور برکتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے اور کھبی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ایک انسان کو اس سے زیادہ مل مل جاتا ہے جو دوسروں کو ماہ مبارک رمضان میں ملا تھا۔
۵۔ رمضان کی فضیلت کا معیار
اگر ہم رمضان کے مہینے میں اپنی کامیابی کی حد کو جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ پہلے ہم ان امتحانات کی طرف رجوع کریں جو ہم نے اس مقدس مہینے میں دیئے ہیں تاکہ ہمیں یہ پتہ چلے کہ نجات کے اس سفر میں ہم نے کیا پایا ہے۔ اور تب ہم اس کامیابی کو جاری رکھنے اور اس اعلی روحانیت کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے جو ہم نے خداوند متعال کے فضل و کرم اور اس مہینے کی برکتوں سے حاصل کی ہے۔
۶۔ رمضانی مومن
ماہ رمضان کے اختتام پر ، مومن کو اس مقدس مہینے اور اس سے وابستہ الہی برکتوں کی جدائی پر غم اور افسردگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس دکھ کا اظہار رمضان کے مہینے میں الوداعی دعاؤں میں بیان ہوا ہے۔اور اس دکھ کااحساس بجا ہے کیوں کہ ماہ رمضان تقویٰ اور اخلاقی توانائی کی فراہمی کے سب سے بڑے میدانوں میں سے ایک ہے ، جہاں مومنین ، اپنی معنوی حالت میں ایک بلندی اور رمضان کے بابرکت مہینے میں اطاعت کی طرف اپنے جھکاو کومحسوس کرتے ہیں۔اور یہ اللہ تبارک و تعالی کی اس مہینے میں مہمان نوازی کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے۔
۷۔ شب قدر کی تیاری
مومن کو چاہیے کہ شب قدر کی رات اللہ تعالی کے حضور اس امید کے ساتھ دعا مانگےکہ شایداس کی دعا قبول ہو۔ اور اگر اسے بوریت محسوس ہورہی ہے تو اسے چاہیے کہ اس میں تنوع لے کر آئے اور جس عمل میں اسے بوریت اور تھکاوٹ محسوس ہورہی ہے اسے ترک کرکے کوئی اور عمل شروع کردے، چونکہ ان راتوں کے لئے جو اعمال بیان ہوئے ہیں وہ بہت زیادہ اور مختلف ہیں۔ اس تنوع کا مقصد سستی اور تھکاوٹ کو روکنا ، تازگی پیدا کرنا اور ہر شخص کو ایک فرصت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی پسند کے اعمال انجام دے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ پہلے سے تقوی الہی اختیار کرکے اور خدا وند متعال کی اطاعت کرکے اس مبارک رات یعنی شب قدر کےلیے خود کو آمادہ کرے۔ اس تیاری کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ وہ انیسویں رات سے ہی اس کے اعمال کو انجام دینا شروع کردے جیسا کہ عموما ایسا ہی ہوتا ہے ،اس کے باوجود کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ یہ شب قدر نہ ہو کیونکہ یہ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں واقع ہے ، لیکن اسے شب قدر قرار دیا گیا ہے اور اس میں بھی شب قدر کے اعمال انجام دیئے جاتے ہیں تاکہ مومن شب قدر کی فضیلت کو درک کرسکے۔پس جو بھی اس میں سستی کرے گا ممکن ہے وہ شب قدر کی فضیلت کو درک کرنے سے محروم ہوجائے مگر یہ کہ خدا وند کریم کا خصوصی لطف و کرم اس کے شامل حال ہو۔