رمضان کے آخری دس دنوں کا تزکرہ
رمضان کے آخری دس دنوں کا تزکرہ[1]
رمضان المبارک کے آخری دس دن اس مہینے کی روح اور خلاصہ کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان دنوں میں بندہ اپنے نیک اعمال کی فصل کاٹتا ہے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ان اعمال کے نتائج کو محسوس کرتا ہے۔ماہ مبارک رمضان کے اس آخری عشرے میں خدا وند کریم کی اپنے بندوں پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول اس مہینے کے دوسرے ایام اور راتوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
ان دنوں کی عظمت اور ان کے شرف کےلیے اتنا کافی ہے کہ شب قدر انہیں دنوں میں واقع ہے جو کہ ہزار مہینوں سے افضل ہے، اور ان میں وہ آخری رات بھی واقع ہے جس میں اللہ تعالی جہنم سے اپنے کچھ بندوں کو اتنی مقدار میں آزاد کردیتا ہے جتنی مقدار میں اس پورے مہینے کے دوران وہ آزاد کردیتا ہے۔[2]
پس رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) اور ائمہ الطاهرين (عليهم السلام) اس عشرے کےلیے خصوصی اہتمام کرتے تھے، ابو عبد اللہ امام صادق )علیہ السلام (سے الحلبی نے ایک صحیح روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں: (كان رسول الله (صلى اله عليه وآله وسلم) إذا كان العشـر الأواخر اعتكف في المســجد، وضــربت له قبة من شــعر، وشمّر المئزر وطــوى فراشه)۔[3]
“ماہ مبارک رمضان کا جب تیسرا عشرہ شروع ہوتا تھا تو رسول خدا (صلى اله عليه وآله وسلم) مسجد میں اعتکاف فرماتے تھے اور ان کےلیے بالوں سے بنا ایک خیمہ لگایا جاتا تھا ، رسول خدا (صلى اله عليه وآله وسلم) اپنی کمر کس لیتے تھے اور اپنا بسترہ سمیٹ لیتے تھے۔"
امام صادق علیہ السلام اپنے آباو اجداد سے روایت کرتے ہیں ،فرماتے ہیں: (قال رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم): اعتكاف عشر في شهر رمضان تعدل حجتين وعمرتين)[4]
رسول اللہ(صلى الله عليه وآله وسلم) نے فرمایا: " ماہ مبارک رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے۔"
اور واضح سی بات ہے کہ اعتکاف سے مراد اس کی روح اور اس کا جوہر ہیں،اور وہ گناہ کے ساتھ ساتھ اور اس چیز سے اپنا رشتہ منقطع کرنا ہے جو اللہ تعالی کی طرف اس کی توجہ کو ہٹا دیتی ہے۔ یہ انسان اپنے گھر میں بھی انجام دے سکتا ہے یا جہاں پر وہ کام کرتا ہے وہاں بھی اعتکاف کرسکتا ہے لیکن جامع مسجد میں اعتکاف ، جو کم از کم تین دن کا ہے ، شریعت کے مطابق سب سے زیادہ بہتر ہے اور ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے افضل ہے۔
اپنے مو لا و آقا نبی کریم )صل اللہ علیہ و آلہ وسلم (کی پیروی کرتے ہوئے سلف صالح بھی اسی راہ پر گامزن تھے۔ وہ لوگ اپنے معاشرتی تعلقات کم کرتے تھے،زندگی گزارنے کا طریقہ بدل دیتے تھے اور غیر ضوری چیزوں کوترک کرتے تھے تاکہ اپنے رب کی عبادت، اس سے راز و نیاز اور اس سے مناجات کرسکیں اور ان کاموں میں مصروف ہوجائیں جو انہیں اللہ تبارک و تعالی کے قریب کردیں۔
بے شک خدا وند کریم رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں اپنے بندوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں اضافہ کردیتا ہے ،نتیجے کے طور پر مومن ان نعمتوں ، برکتوں اور رحمتوں کو درک کرتا ہے اور دوسروں کے مقابلے میں ، خدا وند کی اطاعت میں زیادہ سرگرم ہوجاتا ہے اور جن کاموں کو انجام دینے سے وہ قاصر تھا انہیں انجام دینے کی اس میں صلاحیت اور ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔
مستحب اعمال کی کتابوں میں ان راتوں کےلیے خاص اعمال بیان ہوئے ہیں جوکہ مومنین کےلیے ایک پورا پروگرام تشکیل دیتے ہیں جس سے مومنین مانوس ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کا قرب چاہنے والے اس کے مشتاق ہوتے ہیں۔ انھیں کئی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے جیسے ماہ رمضان کے عمومی اعمال،آخری دس دنوں کے مشترکہ اعمال،ان میں سے ہر رات کے ساتھ مختص اعمال اور شب قدر کی راتوں کے مشترکہ اعمال اور ان کے مخصوص اعمال۔
اس کے علاوہ دوسری معنوی عبادتوں کی طرف توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے جیسے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا،جن گناہوں کا انسان مرتکب ہوچکا ہے،انہیں یاد کرنا ، ان پر ندامت کا اظہار کرنا ، اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان گناہوں کی معافی طلب کرنا اور خدا وند متعال سے اپنے ارتباط کے متعلق فکر کرنا وہ بھی ہر جہت سے مثلا اللہ تعالی سے محبت کے بارے میں غور وفکر کرنا،یا اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں کے بارے میں سوچنا کہ وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں اللہ تعالی کا شکر بجا لانے سے قاصر ہے یا شرمندگی کا احساس کرنا کہ خدا وند کریم نے اس پر جو چیزیں واجب کی ہیں انہیں وہ صحیح طرح سے انجام نہیں دے رہا وغیرہ۔
ان راتوں کے اعمال میں سے کچھ یہ ہیں : وعظ و نصیحت کو سننا اور اس چیز کو سننا جو دل کو نرم کردیتی ہے، ائمہ )علیہم السلام( کی وصیتوں کا مطالعہ کرنا،نیک لوگوں کی سیرت کا مطالعہ کرنا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور انہیں خوش کرنا۔
جب انسان اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ماہ مبارک رمضان کے ان آخری دنوں کو درک کرلیتا ہے تو تب اسے یہ احساس حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر بجا لانے سے قاصر ہے۔ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کا فضل وکرم اس کے شامل حال ہے اور ایک دفعہ پھر ان ایام کو درک کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اللہ تبارک و تعالی نے اسے ان لوگوں میں سے قرار نہیں دیا جو پچھلے سال زندہ تھے اور جنہوں نے ان ایام کو درک کرلیا تھا اور اس سال وہ اس سے محروم ہوگئے۔پس ماہ مبارک رمضان کا یہ عشرہ فضیلت کے لحاظ سے ماہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے سے افضل ہے جس کا ذکر دعاووں میں آیا ہے: (اللهم هذه الأيام التي فضّلتها على الأيام وشرّفتها قد بلّغتَنيها بمنّك ورحمتك فأنزل علينا من بركاتك وأوسع علينا فيها من نعمائك).
پروردگارا یہ وہ ایام ہیں جن کو تم نے دوسرے ایام پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور اپنے لطف و کرم سے مجھے بھی انہیں درک کرنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے، پس خدایا ہم پر اپنی برکتیں نازل فرما اور ان ایام میں اپنی رحمتوں کا دایرہ ہمارے لیئے وسیع کردے۔"
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عام لوگوں کی حالت ان راتوں میں قابل بیان نہیں ؛ زیادہ تر لوگ بے حسی اور سست روی کا شکار ہیں ، جبکہ ان راتوں میں انسان سے اپنی ہمت میں اضافہ کرنے، اپنے اندر نشاط پیدا کرنے اور اپنے نفس کو اللہ تعالی کی عبادت کےلیے آمادہ و تیار کرنے کےلیے کہا گیا ہے، یہاں تک کہ بعض لوگ شب قدر میں قرآن ختم کرنے کے بعد باقی ایام میں اس کی تلاوت نہیں کرتے جبکہ ماہ رمضان سارے کا سارا قرآن کی بہار ہے اور ممکن ہے اس غفلت اور سستی کی چند ایک وجوہات ہوں:
۱۔ انسان ان راتوں کی عظمت اور شرف سے اور جو کچھ اللہ تعالی نے ان میں اس کےلیے آمادہ کیا ہے ، اس سے غافل ہو۔
۲۔عید کی تیاری میں مصروف ہو،جیسے عید کارڈ چھپوانا،عید کےلیے نئے کپڑے خریدنا، کھانے پکانا اور جشن کےلیے پروگرام ترتیب دینا۔
۳۔ روزے رکھنے کی وجہ سے تھکاوٹ ہو اور انسان کی خواہش ہو کہ رمضان جلدی سے ختم ہوجائے اور ہر چیز پر سے پابندی اٹھ جائے۔
۴۔4- تبلیغ ، مشاورت ، رہنمائی ، وعظ و نصیحت اور مذہبی رسومات کی مجالس کا خاتمہ ، کیونکہ یہ مجالس شب (21) یا (23) کو اختتام پذیر ہوتی ہیں اور شاذ و نادر ہی رات (25) سے تجاوز کر جاتی ہیں۔
۵۔ نمایاں طور پر ٹی وی پروگرامز کا فسق و فجور میں تبدیل ہوجانا۔
پس یہ اسباب اور اس طرح کے دوسرے اسباب لوگوں کو مساجد کی طرف جانے سے اور ان باتوں کو سننے سے روکتے ہیں جو اللہ تعالی کی اطاعت کی تاکید کرتی ہیں۔
لہذا، ہمیں چاہیے کہ ہم ان راتوں کا استقبال کریں لیکن اس میں افراط وتفریط کا شکار نہ ہوں اور ان راتوں سے استفادہ کرنے کےلیے مندرجہ ذیل کاموں کو انجام دیں:
۱۔ تسلسل کے ساتھ مساجد میں ہوں نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اسی طرح دعائیں بھی جماعت کے ساتھ مانگیں۔
۲۔ لوگوں کو راغب کریں کہ جس کے پاس بھی وقت ہے وہ اعتکاف میں بیٹھے چونکہ یہ سنتوں میں سب سے بڑی سنت ہے اور شہر کے جامع مسجد میں اس کا انعقاد کریں البتہ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اعتکاف معنوی ہونا چاہیے جس کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں اور اس بات کا بہت خیال رکھے کہ کہیں اعتکاف دکھاوے کےلیے نہ ہو، چونکہ اس طرح کے کاموں میں ریاکاری اور گناہ میں مبتلا ہونے کا بہت خطرہ ہوتا ہے اور انسان خود کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔
۳۔ تسلسل کے ساتھ محافل وعظ و نصیحت کا انعقاد ہو، دروس برگزار ہوں اور دینی شعائر کا احیاء ہو۔
۴۔ جن اعمال کی طرف ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے ان میں سے کچھ کو انجام دینے کےلیے اپنے نفس آمادہ کرے۔
۵۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کثرت سے دعا اور توسل کرے۔ دعا کرے کہ خدا وند اسے جنت نصیب کرے اور جہنم سے رہائی عطا فرمائے۔بقیہ اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ کے ظہور میں تعجیل کےلیے دعا کرے۔ دعا کرے کہ اللہ تعالی اس کی اور دوسرے مومنین کی تمام شرعی حاجات پوری فرمائے۔
۶۔ غفلت، لہوو لعب اور فضول کاموں سے اجتناب کرے جو انسان کو خدا کی یاد سے غافل کر دیتے ہیں جیسےقیدی کا کھیل ، ٹیلی ویژن دیکھنا اور فارغ لوگوں کی محفلوں میں شرکت کرنا۔
خدا جب ہمارا خلوص دیکھے گا اور یہ دیکھا گا کہ ہم ایک اجتماعی تحریک کی شکل میں اس طرف حرکت کررہے ہیں تو وہ ہم سے بلائیں دور کرےگا اور ہمارے سوال سے بڑھ کر ہمیں عطا کرے گا چونکہ وہ کریم اور رحیم ہے اور اس کے خزانوں میں عطا کرنے سے کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے جود و سخا میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔