شخصی خواہشات کے لیئے دینی عناوین کو استعمال کرنے کا فتنہ
بسمہ تعالیٰ
(وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا)[1] (التوبة:49)
"ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے، دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو یقینا گھیر رکھا ہے۔"
شخصی خواہشات کے لیئے دینی عناوین کو استعمال کرنے کا فتنہ
آیت کا مختصر معنی یہ ہے کہ: بے شک منافقین میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں کہ مجھے جہاد ترک کرنے اور تبوک میں اہل روم سے جنگ کے لئے جانے والے لشکر اسلام سے پیچھے رہنے کی اجازت دیں. اور اس کی توجیہ یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ جہاد کی وجہ سے گناہ کا ارتکاب کرسكتے ہیں اور شرعی امر کی مخالفت کرتے ہیں اور دین کے بارے میں فتنہ واقع ہوتا ہے. اور خداوند متعال جواب دیتا ہے کہ بے شک وہ شخص اپنے فریبی سلوک کی وجہ سے دینی فتنے کا شکار ہو چکا ہے اور بڑی معصیت کا مرتکب ہوا ہے.
اور آیت شریفہ ایک منافقانہ صورت حال کو کشف کرتی ہے جس سے مسلم معاشرے کے بعض افراد گزرتے ہیں جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا ہم وغم اپنی انا کو راضی کرنا ہوتا ہے.
جب وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے ہیں اور اپنے دینی اور قومی فرائض کو ادا نہیں کرتے یا اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس وقت وہ دینی عناوین کے زریعے عذر پیش کرتے ہیں اور دین کے بارے میں ڈر اور خوف کا اظہار کرتے ہیں تاکہ دوسروں کو قانع کر سکیں اور انہیں دھوکہ دیں (وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ) (البقرة:9).
"جبکہ (حقیقت میں) وہ صرف اپنی ذات کو ہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔"
اس بات پر دلیل کے طور وہ واقعہ نقل کرتے ہیں جس کے بارے میں آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے جس طرح ارباب حدیث اور سیرت اور مورخین نے ذکر کیا ہے. بات یہ ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلاد الشام میں رومیوں کے اجتماع کی خبر ملی جو کہ مدینہ پر حملہ اور اسلام کی نابودی کے بارے میں تھا، تو آپ (ص) نے ان کی طرف خروج کا فیصلہ کیا تاکہ خود ان کی سرزمین میں ہی ان کا سامنا کیا جائے، پس مسلمانوں کو بلایا اور جہاد کی ترغیب دی اور مدینے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اور عرب قبائل جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، نے مشکلات کے باوجود لبیک کہا اور منافقین وغیرہ کا گروہ بیٹھا رہا (اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جد بن قیس _ جو بنی سلمہ از بطون خزرج اور منافقین میں سے تھا_ سے ملاقات کی
اور اس سے کہا: اے ابا وہب کیا آپ اس جنگ میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہونگے، ممکن ہے آپ بنات الأصفر کو _جو کہ رومی ہیں_ کو استعمال کرو گے؟
(فقال: يا رسول الله إن قومي ليعلمون أنه ليس فيهم أحد أشد عجباً بالنساء مني، وأخاف إن خرجت معك أن لا أصبر إذا رأيت بنات الأصفر فلا تفتنِّي وائذن لي أن أقيم[2].....)
"اس نے کہا: اے رسول خدا بے شک میری قوم یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ مجھ سے زیادہ عورتوں کو پسند کرنے والا کوئی اور نہیں، اور مجھ اس بات کا خوف ہے کہ اگر میں آپ سے آجاوں تو بنات الاصفر کو دیکھ کر بے قابو ہو جاؤں، پس میرا امتحان نہ لیں اور مجھے یہاں رہنے کی اجازت دے دیں، اور اپنی قوم کے ایک گروہ سے کہا: گرمی میں خروج نہ کرو، اس کے بیٹے نے کہا: رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہو اور جو دل میں آئے بول دیتے ہو؟ پھر اپنی قوم سے کہتے ہو کہ گرمی میں خروج نہ کرو؟ اللہ کی قسم یقینا خداوند اس بارے میں کوئی آیت نازل کرے گا جو قیامت تک لوگوں کی زبانوں پر ہوگی، پس اس کے بارے میں خداوند نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل کی: (ومنهم من يقول ائذن لي ولا تفتني الا في الفتنة سقطوا وإن جهنم لمحيطة بالكافرين) "ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے، دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو یقینا گھیر رکھا ہے۔"
اس کے بعد جد بن قیس نے کہا کیا محمد کا یہ خیال ہے کہ اہل روم سے جنگ دوسری جنگوں کی طرح ہوگی؟ ان میں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں لوٹے گا.[3]
پس اس شخص نے یہ دعوی کیا کہ اگر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے جہاد کا حکم دے تو رومی عورتوں کی وجہ سے اس کا دین وإيمان خطرے میں پڑے گا یا عموما کامیابی اور اس کے نتائج کے فتنے یا جنگ کی سختیوں کی وجہ سے، اور وہ ان کے سامنے کمزور پڑے گا یا وہ اپنے اہل وعيال اور اموال کی وجہ سے پریشان تھا، لہذا وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ترک جہاد کا اذن مانگتا ہے تاکہ مخالفت سے بچ جائے، لیکن وہ اپنی پستی اور منافقت کی وجہ اسی آزمائش میں پڑ گیا جس سے وہ اجتناب کرنا چاہتا تھا.
ایک اور آیت جس کا ظاہری معنی رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو اسے جہاد ترک کرنے کا اذن دینے پر عتاب کیا گیا ہے، لیکن اس میں سب سے پہلے آپ (ص) كو عفو ودرگزر کرنے کی دعا ہے خداوند نے فرمایا (عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ) (التوبة:43)
"(اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل اس کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟"
اور اگر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے بيجا جدال میں رکھتے اور انہیں اجازت نہ دیتے؛ یہاں تک کہ ان کی اصلیت واضح ہوتی اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم جہاد کے باوجود مخالفت اور فريضہ ادا کرنے میں سستی کرنے کا ہدف روشن ہو جاتا اور تاکہ وہ اس اذن کے زريعے اپنی بڑی معصیت کو قانونی لباس نہ پہناتے، خدا نے فرمایا (وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً) (التوبة:46)، "اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے سامان کی کچھ تیاری کرتے."
اور علی بن ابراہیم نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں اپنی تفسیر میں امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے (لتعرف أهل العذر والذين جلسوا لغير عذر). "تاکہ آپ ان لوگوں کو جان لیں جو عذر کی وجہ سے بیٹھ گئے ہیں اور جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ گئے ہیں."
اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس خطاب کے زریعے مخاطب کرتے ہوئے امت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس طرح کے عذر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک قبول نہیں لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے اسے چھپایا اور اس کے خروج میں کوئی فائدہ ملاحظہ نہیں کیا بلکہ اس جیسے افراد کا وجود مجاہدین کے لشکر کے لیئے نقصاندہ ہے (لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ) (التوبة:47) "اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے"
لہذا خداوند متعال نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت دی تاکہ اپنے حسن اخلاق کے مطابق فیصلہ کرے پھر اس کے بعد ان کی حقیقت کو عیاں کیا اور نص الہی کے زریعے وہ کچھ متحقق ہوا جو تصرف نبوی کے زریعے متحقق نہیں ہوا تھا.
اور اس فتنے کے خطرے کی وجہ سے خداوند متعال نے جنگ کے بعد والے احوال کی طرف متوجہ کرایا ہے، اور اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکمت نہ ہوتی تو یہ منافق معاشرے میں اپنا فتنہ پھیلانے میں کامیاب ہو جاتا کیونکہ اس نے اسے دینی لباس پہنایا ہوا تھا جس سے لوگوں کے کچھ گروہ دھوکہ کھا جاتے (وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ؛ اور آپ کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی بات مان لیتے ہیں".
ہاں کچھ لوگ جہاد سے معذور ہیں جن کے بارے میں آیت مبارکہ بتاتی ہے اور یہ پست لوگ ان (معذورين) میں سے نہیں ہیں.
اور ان سست اور بے بیکار لوگوں کے مقابلے میں سچے مومن تھے جو بغیر کسی تردد اور مجادلے کے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں سبقت کرتے تھے (لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ) (التوبة:44).
"جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے ہرگز آپ سے اجازت نہیں مانگیں گے اور اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔"
ذمہ داری سے بھاگنے، اوامر خدا کی مخالفت کی توجیہ، اور شخصی مفادات حاصل کرنے کے لیے دینی چہرے اپنانے کی یہ حالت ہر لیول میں پائی جاتی ہے، اور ان میں سے سب سے خطرناک حالت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد تھی کہ انقلابیوں نے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بارے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت کی توجیہ یوں پیش کی کہ وہ علی علیہ السلام کو امیر بنانے کی صورت میں پیدا ہونے والے فتنہ وفساد سے ڈرے اور وہ خود حکومت اور خلافت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاطر کوشش نہیں کی، لہذا کبھی کہا (قریش _بنی ہاشم _ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ نبومت اور امامت دونوں آپ میں جمع ہو جائيں کہ تم لوگوں پر ظلم کرو)،[4] کبھی کہا (قریش نے اپنے لیے چنا پس کامیاب ہوگئے)[5]، جیسا کہ یہ آیت مبارکہ ان انقلابیوں کے چہروں اور نیتوں سے نقاب اتار رہی ہے اور یہ واقعہ رونما ہونے سے تقریبا دو سال پہلے جس کا ارادہ کیا تھا اسے ظاہر کرتی ہے. بے شک خداوند متعال نے ان کی طرف سے حق چھپانے کی کئی کوششوں کو بے نقاب کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے یوم غدیر میں ظاہر کیا اور اتمام تک پہنچایا، خداوند متعال نے فرمایا تعالى (لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ) (التوبة:48)
"یہ لوگ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آپ کے لیے بہت سی باتوں میں الٹ پھیر بھی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا فیصلہ غالب ہوا اور وہ برا مانتے رہ گئے. "
پس حق آیا اور روز غدیر ميں امر خدا ظاہر ہوا جبکہ وہ برا مانتے اور دشمنی کرنے والے تھے. (وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ) (التوبة:45). " اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں پس اس طرح وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔"
اے میرے عزیزو!
بے شك سید فاطمہ زہرا علیہا السلام نے انہیں اس آیت کی یاد دہانی کرائی اور فرمایا: (فلما اختار الله لنبيّه دار أنبيائه ومأوى أصفيائه ظهر فيكم حسكة النفاق) "پھر جب اللہ نے اپنے پیغمبر کیلئے انبیاء کاگھر اور اوصیاء کی آرام گاہ منتخب کرلی، تو تم میں نفاق کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں" يہاں كہ فرمايا: (زعمتم خوف الفتنة (أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكافِرِينَ) فهيهات منكم وكيف بكم وأنى تؤفكون وكتاب الله بين أظهركم؟ أموره ظاهرة وأحكامه زاهرة وأعلامه باهرة وزواجره لائحة وأوامره واضحة وقد خلفتموه وراء ظهوركم، أرَغبة عنه تريدون أم بغيره تحكمون (بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلاً) (وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرِينَ)[6] .
"تم نے بہانہ کیا کہ فتنہ سے ڈرتے ہو، آگاہ رہو کہ اب فتنہ میں پڑے ہو، حقیقت ہے کہ جہنم نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔
تم سے یہ کام بعید تھا کس طرح یہ کام انجام دیا، کہاں جارہے ہو حالانکہ کتاب خدا تمہارے پاس ہے، جس کے امور روشن، اور احکام واضح، اور ہدایت کی علامتیں ظاہر اور محرمات ہویدا اور اس کے امور اظہر من الشمس ہیں، لیکن اس کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا، بغیر توجہ کیے اس کو پڑھتے ہو، یا بغیر قرآن کے حکم کرتے ہو؟ اور یہ ظالموں کے لئے بہت برا بدلہ ہے، اور اگرکوئی اسلام کے علاوہ دین کو چاہتا ہو تو وہ اسے قابل قبول نہیں ہے، اور ایسے لوگ قیامت میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ "
اس کے بعد سیدہ (علیہا السلام) نے ان کے پیدا کردہ فتنے کے خطرے سے آگاہ کیا اور فرمایا: (ويحهم أنى زحزحوها عن رواسي الرسالة وقواعد النبوة والدلالة ومهبط الروح الأمين والطبين[7] بأمور الدنيا والدين (أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ))[8]
"ان پر افسوس، ان لوگوں نے خلافت کو اس کے مضبوط مرکز سے جدا کیوں کیا، ان لوگوں نے نبوت اور راہنمائی کی اساس سے خلافت کو کیوں دور کیا؟ ان لوگوں نے خلافت کو اس گھر سے کیوں نکالا جہاں روح الامین اترا کرتے تھے۔ ان لوگوں پر افسوس!جنہوں نے دنیا و آخرت کے امور جاننے والوں کو خلافت سے علیحدہ کیا آگاہ رہنا یہ سراسرگھاٹے کا سودا ہے".
پس سيد عليها السلام نے ان کے کھوکھلے دعووں اور اصل نیتوں کو بے نقاب کیا اور امت کے حال اور مستقبل پر ان کی جنایتوں کو عیاں کیا جہاں اس انقلاب نے امت کو تحریف دین، خونریزی، اموال کی بندر بانٹ، برے لوگوں کا تسلط، نیک لوگوں کی محرومی، اور انسانی اقدار کی تباہی جیسے مصیبتوں اور حادثات سے دوچار کیا.[9]
بتحقيق انقلاب کے قائدین نے اعتراف کیا کہ جو کہ کچھ سقیفہ میں ہوا وہ ایک فتنہ تھا جس نے امت کو بکھیر دیا اور اسے نیکى اور عروج تک پہنچانے والے راستے سے منحرف کیا لیکن یہ دعوی بھی کیا کہ وہ فتنہ سلامتی سے گزر گیا، عمر نے اپنے مشہور کلام جسے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے،[10] میں کہا: (ان بيعة أبي بكر كانت فلته وقى الله شرها فمن دعاكم إلى مثلها فاقتلوه)[11]. "بے شک ابو بکر کی بیعت ایک ناگہانی تھی لیکن خدا نے اس کے شر بچایا اور جو بھی آپ کو اس کی طرف بلائے اسے قتل کرو)" ابن اثیر نے اس حدیث کے معنی میں لکھا ہے (فلتہ سے مراد ناگہانی ہے اور اس طرح کی بیعت سے شر اور فتنہ پھیلتا ہے لیکن خدا نے اس سے بچایا، اور فلتہ کا معنی ہے: ہر وہ چیز جو غیر متعارف طریقے سے انجام پائے اور اسے حالات بگڑنے کے خوف سے انجام دیا جاتا ہے) [12].
بے شک انہوں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ فکر ڈال دی تاکہ اس کے زریعے حقیقت کو چھپا سکیں، اسی وجہ سے ائمہ نے اس کو بیان کیا، شیخ کلینی نے روضہ الکافی میں اپنی سند کے ساتھ ابی مقدام سے روایت کی ہے، اس نے کہا (ميں نے ابا جعفر باقر علیہ السلام سے کہا: اہل سنت گمان کرتے ہیں کہ ابو بکر کی بیعت جہاں لوگ جمع ہوئے تھے، اس میں اللہ عز وجل کی رضا شامل تھی، اور خدا امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو اس کے بعد امتحان میں نہیں ڈالے گا. ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: (أوما يقرأون كتاب الله، أوليس الله يقول: (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ) (آل عمران:144) )[13].
"کیا وہ لوگ اللہ کی کتاب کو نہیں پڑھتے، کیا اللہ نہیں فرماتا ہے "اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔"
اور اس سے بڑا فتنہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ امت کی قیادت نااہل لوگ کے ہاتھ میں ہو اور وه لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوں، چاہے اس قدیم زمانے میں یا ہو یا آج کے زمانے میں ہو، چاہے دھوکہ اور فریب کے زریعے ہو یا میڈیا کے زریعے ہو، یا فوجی انقلاب کے زریعے یا دو نمبر انتخابات کے زریعے ہو یا عوام کے لقمے سے چوری شدہ سیاسی مال کے زریعے، جس کے زریعے فساد، لوٹ مار، عوامی ثروات پر ڈاکہ، اہانت، ناحق خونریزی اور بد نظمی پھیلتی ہے اور نظام اور امن درہم برہم ہوتا ہے اور اجتماعی عدالت مفقود ہوتی ہے اور ملک برباد ہوتا ہے.
بے شک یہ پست اور فرائض سے منہ چرانے والا گروہ وہی گروہ ہے جب امیر المومنین علیہ السلام انہیں باغیوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دے رہے تھے تو گرمی اور سردی کے فضول قسم کے بہانے پیش کرتے تھے لہذا امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے کلام کے زریعے انہیں بے نقاب کیا (فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي أَيَّامِ الْحَرِّ قُلْتُمْ هَذِه حَمَارَّةُ الْقَيْظِ أَمْهِلْنَا يُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ وإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي الشِّتَاءِ قُلْتُمْ هَذِه صَبَارَّةُ الْقُرِّ أَمْهِلْنَا يَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ كُلُّ هَذَا فِرَاراً مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ فَإِذَا كُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ تَفِرُّونَ فَأَنْتُمْ واللَّه مِنَ السَّيْفِ أَفَرُّ)[14]. .
"اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے اور اگر سردیوں میں چلنے کے لئے کہتا ہوں . تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا ہے , اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے . یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کے لئے باتیں ہیں . جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو تو پھر خدا کی قسم ! تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ بھاگو گے".
بے شک ایسے بہانوں کا فتنہ بہت زیادہ خطرناک ہوتا ہے جب یہ دینی دعوت کا لباس اوڑھا ہوتا ہے جیسا کہ ان منافقین کے دعوے میں ہے جن کے بارے میں آیت نے ذکر کیا ہے، بتحقيق وہ رسول اور رسالت کے درمیان تفریق چاہتے ہیں اس لیے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ رسالت پر عمل کی حرص کی وجہ سے ہے جس طرح دینی فتنہ کے خوف کا دعوی تھا یا اصحاب سقیفہ کا دعوی جو لوگوں کے مرتد ہونے اور معاشرتی بگاڑ کا خوف تھا، جیسے تو وہ لوگ ضروری امور میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے بھی زیادہ علم رکھتے تھے، اور آپ (ص) پر امت كى اصلاح سے بے خبری کی تہمت لگاتے تھے، یا وہ بندوں کی مصلحت کی نسبت خدا سے بہتر جانتے ہیں اور دین کے احکام کی نسبت اللہ سے زیادہ سنجیدہ ہیں. خداوند متعال نے ان کے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ( قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ) (الحجرات:16)."کہدیجئے: کیا تم اللہ کو اپنی دینداری کی اطلاع دینا چاہتے ہو؟ جبکہ اللہ تو آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز سے واقف ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔"
خدا وند انہیں یاد دلاتا ہے کہ ان کےاصلی مقاصد اللہ سبحانہ وتعالی سے مخفی نہیں ہیں، وہ حقائق اور کھوکھلے دعووں کے درمیان فرق جانتا (وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ) (البقرة:220). "اور اللہ خوب جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ہے".
اور سیدہ زہراء علیہا السلام نے اپنی بات اس نتیجے کے ساتھ ختم کی جسے آیت مبارکہ نے بیان کیا ہے (بے شک جہنم نے کافرین کو گھیرے ہوئے ہے) لہذا وہ ہر طرف سے آگ کے گھیرے میں ہیں اور اس سے بچ نہیں سکتے، اور اسم فاعل (محيطة) کے زریعے تعبیر واقع میں ایسا ہونے پر دلالت کرتی ہے. یعنی وہ در حقیقت ابھی جہنم کی آگ میں ہیں جسے خود اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے جلائی ہے [15] لیکن وہ اپنی غفلت کی وجہ سے اسے محسوس نہیں کرتے جیسا کہ دوسرے بہت سارے حقائق سے وہ بے خبر ہیں (لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ) (ق:22).
"بے شک تو اس چیز سے غافل تھا چنانچہ ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے لہٰذا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔"
اور ممکن ہے اس كا معنی یہ ہو کہ کافر حقیقت میں اس نتیجے کی طرف جا رہے ہیں اور اسم فاعل کی تعبیر ابھی یا مستقبل میں اس واقعے کا حتمی طور پر واقع ہونے کا فائدہ دیتی ہے. یا ان کا احاطہ اسباب اور مقدمات کے لحاظ سے ہے یعنی ابھی وہ جہنم میں داخل کرنے والے اسباب کے احاطے میں ہیں اور وہ گناہ ہیں (بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (البقرة:81)، " البتہ جو کوئی بدی اختیار کرے اور اس کے گناہ اس پر حاوی ہو جائیں تو ایسے لوگ اہل دوزخ ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔"
بے شک ان کی نیتوں اور اعمال کے گناہوں نے انہیں گھیر رکھا ہے.
بتحقيق یہ حالت جس سے آیت خبردار کرتی ہے وظیفہ جہاد کے ساتھ مختص نہیں بلکہ دوسری شرعی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں. جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے ایمان میں نقص ہے اور دلوں میں شک ہے وہ ایسے بے کار بہانے پیش کرتے ہیں جو کہ سننے والوں سے پوشیدہ نہیں. اور شاید وہ دینی عناوین كےلبادے میں پیش کرتے ہیں اور ممکن ہے بعض دفعہ وہ شخص فقہ جاننے والے افراد میں سے ہو اور دینی مصطلحات کا علاف چڑھاتا ہو تاکہ اپنے بہانوں کی توجیہ کر سکے لیکن ان کے بہانے اور اصلی نیتیں اللہ عز وجل سے پوشیدہ نہیں اور نہ ہی ہوشیار اور چالاک لوگوں سے مخفی ہیں، خداوند متعال ہمیں اور آپ کو اس فتنہ سے بچائے رکھے.
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] - یہ سالانہ فاطمی خطاب ہے جسے جناب مرجع عالیقدر محمد یعقوبی (دام ظلہ) نجف اشرف کے میدان ثورہ العشرين میں، صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شہادت کی مناسبت سے بروز اتوار 3 جمادی الثانی
1442 بمطابق 17/1/2021 جمع ہونے لوگوں سے کیا تھا. اللہ کے فضل سے یہ سولہواں خطاب ہے.
[2] - روايت ابن إسحاق ميں ہے: ((فاعرض عنه رسول الله (صلى الله عليه وآله) وقال: قد أذنت لك) " رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منہ پھیرا اور کہا: آپ کو اجازت
دی."
[3] - تفسير نور الثقلين : 2/632 ح 169 عن تفسير علي بن ابراهيم.
[4] - المراجعات للسيد شرف الدين: 350 اور اسے شرح نهج البلاغة لابن ابي الحديد: 3/107 اور الكامل لابن الاثير: 3/24 در حالات عمر، سے نقل كيا ہے.
[5] - تاريخ الطبري: 3/289
[6] - الاحتجاج للطبرسي : 1/ 131
[7] - الطبين: الفطن الحاذق العالم بالاشياء "چالاک ہوشیار اور اشیاء کا علم رکھنے والا"
[8] - الاحتجاج للطبرسي: 1/138
[9] - اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: انسائیکلوپیڈیا (خطاب المرحلہ: 1/241) خطاب کا عنوان ہے (ماذا خسرت الأمة حينما ولّت أمرها من لا يستحق) اور تفسیر (نور القرآن: 1/208) میں
خداوند متعال کے قول کے ذیل میں:(أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ) (آل عمران:144).
[10] - مثل تاريخ اليعقوبي وشرح نهج البلاغة لابن ابي الحديد والامامة والسياسة لابن قتيبة والصواعق المحرقة لابن حجر والملل والنحل للشهرستاني.
[11] - بحار الأنوار: 30/448
[12] - النهاية في غريب الحديث والأثر: 3/467 مادة (فلت)
[13] - نور الثقلين: 1/164 ح 1015.
[14] - نهج البلاغة: نهج البلاغة: 1/70
[15] - وفي الحديث إن رسول الله (صلى الله عليه وآله) كان قاعداً مع أصحابه فسمعوا هدّة عظيمة فارتاعوا فقال رسول الله (صلى الله عليه وآله) أتعرفون
ما هذه الهدّة، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: حجر ألقي من أعلى جهنم منذ سبعين سنة وصل الآن الى قعرها وسقوطه فيها هذه الهدة فما فرغ من كلامه
الا والصراخ في دار منافق من المنافقين قد مات وكان عمره سبعين سنة فكبّر رسول الله (صلى الله عليه وآله) وعلم الحاضرون أن الحجر هو ذلك
المنافق الذي كان يهوي في جهنم مدة عمره فلما مات استقر في قعرها.
"اور حدیث میں ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے. انہوں ایک بہت بڑی آواز سنی اور گھبرا گئے. رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کیا آپ جانتے ہو کہ
یہ کس طرح کی آواز تھی، انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں. آپ (ص) نے فرمایا: یہ ایک پتھر ہے جسے ستر سال پہلے جہنم کے اوپر سے پھینکا گیا تھا اور ابھی اس کی تہہ تک پہنچ گیا ہے. پس اس کے
گرنے کی وجہ سے یہ آواز آئی تھی. آپ (ص) نے ابھی گفتگو ختم ہی کی تھی کہ کسی منافق کے گھر سے فریاد بلند ہوگئی جو کہ مرگیا تھا اور اس کی عمر ستر سال تھی، تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر کہی اور
حاضرین جان گئے کہ يہ پتھر وہی منافق تھا جو اپنی پوری عمر جہنم کی تلاش میں تھا. جب مر گیا تو اس کی تہہ میں مستقر ہوگیا." (اس واقعہ کو سید عبد اللہ جزائري نے کتاب (التحفة السنية: 17) میں فیض کاشانی کی کتاب
الیقین: 2/1002 سے نقل کیا ہے." میں کہتا ہوں: کہ اصل حدیث مسلم نے اپنی صحیح ص1007 ح 2844 میں بیان کی ہے.