اسلام میں خون گرانا (قتل کرنا) سخت حرام ہے

| |عدد القراءات : 479
اسلام میں خون گرانا (قتل کرنا) سخت حرام ہے
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

بسمہ تعالی

اسلام میں خون گرانا (قتل کرنا) سخت حرام ہے

الحمد لله رب العالمين وصلى الله على خير خلقه محمد وآله الطيبين الطاهرين.

شریعت کی نگاہ میں انسان کی بہت بڑی قدر ومنزلت ہے۔ وہ زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے (وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً)  اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں" (البقرہ:30).

اور اسی وجہ سے خداوند متعال کی جانب سے تکریم کا مستحق قرار پایا: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ) "اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا" (الاسراء: 70)  اور نفس انسانی کے لیئے ایک ایسی حرمت قرار دی جو حرمت کعبہ سے بھی عظیم تر ہے۔ پس امام ابی جعفر الباقر (علیہ السلام) سے حدیث شریف ہے کہ انہوں نے کعبہ کی طرف رخ کیا اور فرمایا: (الحمد لله الذي كرّمك وشرّفك وعظّمك، وجعلك مثابة للناس وأمناً، والله، لحَرمةُ المؤمن أعظم حرمة منك (1)

"حمد وثنا ہے اس پروردگار کی ذات کے لیئے جس نے آپ کو کرامت اور شرافت بخشی اور عظمت عطا کی، اور تجھے لوگوں کے لیئے ثواب اور امن کا ذریعہ بنایا، اور خدا کی قسم! مومن کی حرمت آپ کی حرمت سے زیادہ ہے"، اور امام باقر یا صادق (علیہما السلام) سے منقول ابی حمزہ کی روایت صحیحہ میں آیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حادثہ قتل جو کہ ایک مجہول شخص کے خلاف مرقوم تھا اور قاتل معلوم نہیں تھا جیسا کہ آج کل ہوتا ہے، فرمایا:  (قتيل بين المسلمين لا يُدرى من قتله! والذي بعثني بالحق لو أن أهل السماء والأرض شرِكوا في دم امرئ مسلم ورضوا به لأكَبَّهم الله على مناخرهم في النار، أو قال: على وجوههم (2(.

"مسلمانوں کے درمیان كوئى مقتول ہے جس کا قاتل معلوم نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ اگر تمام  اہل زمین اور اہل آسمان کسی مسلمان آدمی کے خون میں شریک ہوجائیں اور اس کے قتل پر راضی ہوجائیں تو خداوند انہیں پاوں کے بل آگ میں ڈال دے گا، یا فرمایا: منہ کے بل آگ میں ڈال دے گا)".

پس انسان کا اپنے دوسرے بھائی انسان کو قتل کرنا خداوند متعال کی عبودیت اور بندگی سے خارج ہونے کا سبب  بنتاہے اور اللہ کی سلطنت کے خلاف لڑنے کے مترادف ہے؛ کیونکہ خداوند متعال انسان کا خالق اور مالک ہے اور صرف وہی اس (انسان)  پر حق تصرف رکھتا ہے۔

اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجت الوداع کے موقع پر ہزاروں مسلمانوں کے سامنے مناسک بجالائے اور منی  ميں وقوف کیا تاکہ انہیں یہ پیغام پہنچا دے اور ان کے نفسوں سے جاہلیت کی خفت اتار پھینکے - ایسی جاہلیت جو احکام اسلام پر عمل پیرا نہیں تھی- اور حرمت خون اور قتل کو کم سمجھتی تھی، پس آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: (أي يوم أعظم حرمة؟ فقالوا: هذا اليوم، فقال: فأي شهر أعظم حرمة؟ فقالوا: هذا الشهر، قال: فأي بلد أعظم حرمة؟ قالوا: هذا البلد، قال: فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقونه فيسألكم عن أعمالكم، ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد ألا من كانت عنده أمانة فليؤدها إلى من ائتمنه عليها فإنه لا يحل دم امرئ مسلم ولا ماله إلا بطيبة نفسه، ولا تظلموا أنفسكم ولا ترجعوا بعدي كفاراً).

 "کونسا دن حرمت کے لحاظ سے عظیم ہے؟ انہوں نے کہا: آج کا دن، فرمایا: کونسا مہینہ حرمت کے لحاظ سے عظیم ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ مہینہ، فرمایا: کون سا شہر (علاقہ)حرمت کے لحاظ سے عظیم ہے؟ جواب دیا: یہ شہر، فرمایا: فرمایا: پس آپ کے خون اور مال کی حرمت آپ کے لیئے قیامت تک اس دن، اس ماہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح ہے، لہذا آپ سے آپ کے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا، کیا میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، فرمایا: اے پروردگار! گواہ رہنا، لوگو !  آگاہ رہو جس كے پاس کوئی امانت ہے اسے اس کے صاحب کی طرف پلٹا دے، کیونکہ نہ کسی مسلمان کا خون حلال ہے اور نہ ہی اس کی رضا کے بغیر اس کا مال، اور اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو، اور نہ ہی میرے بعد کفر کی طرف پلٹ جاو) (3)

اسی امر کے سبب بے شک ایک فرد کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے  (مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً) " کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا" (المائدہ:32).

لہذا شریعت اسلامی نے قتل پر سخت سزائیں مقرر کر دی ہے، پس اگر کوئی جان بوجھ كر کسی کو قتل کرے تو اس کے ولی یعنی مقتول کے وارثین کو حق ہے کہ قاتل سے قصاص لے کیونکہ اس طرح کی سزا دوسروں کے قتل کے درپے لوگوں کو ظلم سے روکتی ہے اور لوگ امن وسلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں  (وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم (اس قانون کے سبب) بچتے رہو گے۔" (البقرہ:179)

اور خالص غلطی یا شبہ عمدی والے قتل کے بدلے میں شارع مقدس نے اولیاء خون کو بڑی مقدار میں مال دینا واجب قرار دیا ہے جسے (دیت) کہا جاتا ہے؛ تاکہ شریعت کی نظر میں محترم خون فضول ضایع نہ ہو اگرچہ قتل غلطی سے  انجام پايا  ہو۔

اور اسی طرح لوگ اس عمل سے اجتناب کریں جو قتل یا دوسروں کے لیئے ضرر کا سبب ہو اگرچہ غلطی کی وجہ سے ہو۔ اور دیت میں اولیاء مقتول کے لیئے پاکیزگی ہے اور انتقام، بدلہ اور قتل مقابل کی طرف لے جانے والا دروازہ بند ہے۔ لہذا دیت کو (عقل) کہا گیا ہے کیونکہ وہ خون گرانے سے منع کرتی ہے اور معاشرے کو حادثہ رونما ہونے سے پہلے اس کے اسباب کو روک کر خونریزی سے بچاتی ہے اور اور حادثہ رونما ہونے کے بعد اس کا سلسلہ روکتی ہے۔

ان تمام امور کی روشنی میں آج کل ہم صرف اختلاف رائے یا کسی خاص امر میں اختلاف یا سیاسی یا قبائلی یا طائفی یا قومی یا جغرافیائی لڑائی کی وجہ سے خون کی جو بے حرمتی، قتل کے واقعات اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ سب کچھ عظیم حرمات میں سے ہے اور خدا کو سخت غضبناک کرنے کا سبب ہے۔

لہذا صاحب حکمت اور صاحب عقل لوگوں کو چاہیئے کہ حالات کو تبدیل کرنے اور معاشرے کو ہر مبغوض فعل سے بچانے کی خاطر سخت کوششیں بروئے کار لائیں۔ بے شک خدا ہی توفیق عطا کرنے والا ہے۔

 

محمد یعقوبی/ نجف اشرف

18محرّم الحرام 1442           

7 /9/2020 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1-        مستدرك الوسائل، الميرزا حسين النوري الطبرسي: 9/46، باب 105.

2-  الكافي: 7/272، باب 172، ح8. ط. دار الكتب الإسلامية.

3-  وسائل الشيعة: 29/10، أبواب القصاص في النفس، باب 1، ح3.