كلمات عاشوراء

1۔ سید الشہداء (ع) کی کوثری (بابركت) عمر
ہمارا امام حسین (ع) کی باشرف زندگی کے صرف ایک دن-جو کہ روز عاشوراء ہے- سے تعلق نے یہ باعظمت نتیجہ عطا کیا ہے اور ایسے بابرکت آثار سے نوازا ہے جن سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ پس اگر ان کی باشرف زندگی کے (57) سالوں کا مختلف زاویوں سے مطالعہ کرینگے تو کیا اثرہوگا؟
2۔ حسینی اصلاحی مہم:
بے شک شریعت اسلام جو کہ شرائع الہی کی آخری اور کامل ترین شریعت ہے، نے صرف دینی تعمیر اور اصلاح پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے قوانین اور احکامات تمام شعبہ ہائے زندگی اور لوگوں کے مسائل کو شامل ہیں، بے شک امام حسین (ع) جو کہ وارث انبیاء اور ان کے تمام پیغامات کا ضامن ہے، نے اس وسیع تعمیری مہم کے بارے میں بتایا اور اپنے مبارک کلمات میں ان تمام شعبوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پس دینی تعیمر اور اصلاح کے بارے میں فرمایا: (وإنِّي لم أخرج أشِراً ولا بَطِراً ، ولا مُفسِداً ولا ظَالِماً ، وإنَّما خرجتُ لطلب الإصلاح في أمَّة جَدِّي (صلى الله عليه وآله) أريدُ أنْ آمُرَ بالمعروفِ وأنْهَى عنِ المنكر ، وأسيرُ بِسيرَةِ جَدِّي، وأبي علي بن أبي طَالِب عليهما السلام)
"بے شک میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا (صلى الله عليه وآله وسلم) اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(عليهما السلام) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔"
اور قانونی اصلاح کے بارے میں فرمایا: (وأنا أدعوكم إلى كتاب الله وسنّة نبيّه، فإنّ السنة قد اُميتت والبدعة قد اُحييت، وإن تسمعوا قولي وتطيعوا أمري أهدكم سبيل الرشاد).
"میں آپ کو کتاب خدا اور اس کے نبی کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں، بے شک سنت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، اور بدعت زندہ ہوگئی ہے، اگر تم میرے بات سنو گے اور میری اطاعت کروگے تو میں سیدھے راستے کی طرف آپ کی راہنمائی کروں گا) یعنی ان ظالموں نے دستور اور قانون پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا اسی لیئے امام (ع) انہیں دستور - جو کہ قرآن ہے- اور قوانین - جو کہ سنت نبوی ہے- پر عمل کرنے کی طرف بلاتے ہیں۔
اور سیاسی اصلاح اور امامت، قیادت اور امت کے امور کی سرپرستی کے مستحق افراد کی صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: (فلعمري ما الامام الا العامل بالكتاب، والآخذ بالقسط، والدائن بالحق والحابس نفسه على ذات لله).
" خدا کی قسم! امام وہ ہوتا ہے جو کتاب خدا پر عمل کرتا ہو، عدل قائم کرتا ہو، حق کی پیروی کرتا ہو، اور ذات خدا کی نسبت اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہو)۔ اور امام (ع) نے خرابی اور اقتصادی، اجتماعی، اخلاقی اور دینی فساد نیز حقوق اور عدالت کے فقدان کا سبب غیر قانونی طور پر لوگوں کے امور کی تدبیر کرنے والے قائدین کو قرار دیا ہے۔
امام (ع) نے امت کے تمام افراد کو تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے فرمایا: (مَن رأى سُلطاناً جائِراً مُستحلاً لحرم الله، أو تاركاً لعهد الله، ومُخالِفاً لسنّةِ رسولِ الله(صلى الله عليه واله وسلم)، فَعَمِلَ في عبادِ الله بالإثمِ والعدوانِ، ثم لم يُغيّرْ عليهِ بقولٍ ولا فعلٍ، كان حَقّاً على الله أن يُدخِله مَدخلَه).
"جس نے کسی ایسے ظالم سلطان کو دیکھا جو حرام خدا کو حلال قرار دیتا ہے، یا یا عہد خدا کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے، اور بندگان خدا کے درمیان گناہ اور عدوان کے ساتھ عمل کرتا ہے، پھر اس نے اپنے قول اور فعل کے زریعے اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی، تو خدا حق رکھتا ہے کہ اسے اس ظالم کے ٹھکانہ میں داخل کرے"۔
اور اس کی تشریح میں فرمايا: وقد عَلمتُم أنَّ هؤلاء لَزِموا طاعةَ الشيطانِ وتَولَوا عن طاعةِ الرحمنِ، وأظهرُوا الفسادَ وعطلّوا الحدودَ واستأثَروا بالفيء، وأحَلّوا حرامَ اللَّهِ وحَرَّموا حلالَهُ، وأنا أحقُّ من غيري بهذا الأمر لقرابتي من رسول الله (صلى الله عليه واله) وفي رواية أخرى (وأنا أولى من قام بنصرة دين الله وإعزاز شرعه والجهاد في سبيله، لتكون كلمة الله هي العليا).
(بے شک آپ نے جان لیا ہے کہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے اور رحمن کی اطاعت سے منہ موڑا، انہوں نے فساد پھیلایا اور حدود خدا کو معطل کیا، فیء سے لطف اٹھایا، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام قرار دیا، اور میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی قرابت کی خاطر دوسروں سے زیادہ اس امر کا مستحق ہوں۔ ایک اور روایت میں ہے (اور میں دین خدا کی نصرت، اس کی شریعت کی مضبوطی، اور اس کی راہ میں جہاد کا زیادہ حقدار ہوں تاکہ کلمہ خدا ہمیشہ سربلند رہے)
منبع: قبسات من نور القرآن- قبس 58
3-حسینی نداء کا دوام
روز عاشور جب امام حسین (ع) پکار رہے تھے کہ (ھل من ناصر، ہے کوئی مدد کرنے والا) تو اس وقت ان ظالموں سے جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی تھی، کسی ہدایت اور اصلاح کی امید نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا ہدف یہ تھا کہ آنے والی نسلوں کے لیئے یہ پکار باقی رہے تاکہ اپنے اہداف پورا کرنے میں ان کی مدد کریں، اور جب تک فساد اور ظلم باقی ہے جسے ختم کرنے اور ایک صالح متبادل گراونڈ فراہم کرنے کے لیئے امام حسین (ع) نے قیام کیا، یہ پکار زندہ رہے گی۔ پس ہر کوئی اپنی گنجائش اور مناسب عمل کے زریعے ان کی نصرت کرے۔ اور بعض لوگوں سے شعائر حسینی منانے کا طریقہ قابل قبول ہے اور بعض سے نہیں کیونکہ ان سے مطلوب کچھ اور ہے۔ لہذا اچھی طرح توجہ کریں۔
4۔ امام حسین (ع) کی حقیقی نصرت
حسینی انقلاب کے مبادی اور اصول کو مجسم کرنے اور اس کے اہداف کو متحقق کرنے کے زریعے، امام حسین (ع) کی پکار (ھل من ناصر) ابھی تک دنیا کے کونے کونے میں گونج رہی ہے، اور اسے تلوار وغیرہ کے ساتھ مدد کرنے والوں کی ضرورت نہیں کیونکہ مشیئت الہی کے مطابق ان کی اور ان کے اہل بیت (علیہم السلام) کی شہادت حتمی ہے بلکہ انہیں ایسے انصار کی ضرورت ہے جو ان کے ہدف کو پورا کرنے، امت کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینے، گمراہی اور ظلم کے بادشاہوں اور سلاطین کے مقابلے میں قیام کرنے، اور لوگوں کو طاغوت اور انس وجن کے شیاطین کی قید سے آزاد کرانے والے پیغام کو اتمام تک پہنچانے میں ان کی مدد کریں۔
5۔ ہم کیسے (یا لیتنا کنا معکم؛ اے کاش ہم آپ کے ساتھ ہوتے) کے اہل میں شامل ہو سکتے ہیں؟
ہم سب امام حسین (ع) اور ان کے نیک اصحاب کو اپنی زبان اور وجدان سے پکارتے ہیں کہ (یا لیتنا کنا معکم فنوز فوزا عظیما؛ کہ اے کاش ہم آپ کے ساتھ ہوتے تو عظیم کامیابی حاصل کرتے) اور اس بات پر اظہار افسوس کرتے ہیں کہ ہم اس نسل سے نہیں جو معصومین (علیہم السلام) کے دور میں تھی اور ان کی ملاقات سے شرف یاب ہوئی اور ان کی نصرت کرنے میں کامیاب ہوئی اور ان کے سامنے شہادت کا درجہ پایا۔
اور ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ عادل ہے اور اپنے بندوں کو برابر فرصتیں عطا کرتا ہے تاکہ ان کے زریعے وہ اس کی قربت حاصل کریں، تو کیا اللہ نے اس نسل کو اس فرصت سے نوازا اور ہمیں اس سے محروم رکھا؟
یہ اس ثابت شدہ حقیقت کے خلاف ہے، پس ہماری فرصتیں کیا ہیں جو اس سے مناسبت رکھتی ہیں؟ بے شک وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا: ( تمام نیک اعمال اور راہ خدا میں جہاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سامنے وسيع گہرے سمندر میں ایک قطرےکی حیثیت رکھتے ہیں۔)