حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمة الزهراء (عليها السلام) اور سیدہ مريم بنت عمران کے درمیان ایک مقایسہ

| |عدد القراءات : 1114
حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمة الزهراء (عليها السلام) اور سیدہ مريم بنت عمران کے درمیان ایک مقایسہ
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمة الزهراء (عليها السلام) اور سیدہ مريم بنت عمران کے درمیان ایک مقایسہ

ہمارا- اہل البيت (عليهم السلام)کے پیروکاروں کا-صدیقہ طاہرہ مریم بنت عمران کے ساتھ ایک خاص قسم کا لگاو ہے چونکہ وہ سیدہ طاہرہ فاطمہ زہرا(عليها السلام) کے ساتھ  بہت ساری صفات میں شباہت رکھتی ہیں  البتہ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ ان صفات میں حضرت زہرا (عليها السلام) حضرت مریم بنت عمران پر مقدم ہیں۔

انہوں  نے جناب  زہرا سلام الللہ علیہا کے  انوار مبارکہ سے نور کسب کیا ہے۔ محراب عبادت میں  ان کے وجود مبارک سے نور چمکتا   تھا۔امام باقر) علیہ السلام (سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے، وہ فرماتے ہیں: (وكانت أجمل النساء، فكانت تصلي ويضيء المحراب لنورها)[ 1] ." وہ خواتین میں سب سے زیادہ خوبصورت تھیں،جب وہ محراب عبادت میں نماز پڑھتی تھیں تو محراب ان کے نور سے منور ہوتا تھا۔"

حضرت مریم محدثہ تھیں- اور محدثہ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ناموں میں سے ایک  نام ہے- اس کے ساتھ ملائکہ گفتگو کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَإِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ) (آل عمران:42)" اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ نے تجھے پسند کیا ہے اور تجھے پاک کیا ہے اور سارے جہانوں کی عورتوں میں سے تمھارا انتخاب کیا ہے۔(فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا) (مريم:17)" پھر ہم نے اس کے پاس اپنے فرشتے کو بھیجا "

اور امام جعفر صادق) علیہ السلام (سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: (انما سميت فاطمة (عليها السلام) محدثة لأن الملائكة كانت تهبط من السماء فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران، فتقول يا فاطمة إن الله اصطفاك وطهرك واصطفاك على نساء العالمين يا فاطمة اقنتى لربك واسجدي واركعي مع الراكعين، فتحدثهم ويحدثونها، فقالت لهم ذات ليلة: أليست المفضلة على نساء العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيدة نساء عالمها، وإن الله عز وجل جعلك سيدة نساء عالمك وعالمها، وسيدة نساء الأولين والآخرين)[2] .

" فاطمہ) سلام اللہ علیہا (کو اس لیے محدثہ نام دیا گیا ہے چونکہ  ملائکہ آسمان سے  اترتے تھے اور پھر ان کے ساتھ گفتگو کرتے تھے  جیسا کہ مریم بنت عمران کے ساتھ گفتگو کرتے تھے،وہ  جناب زہرا) سلام اللہ علیہا (سے کہتے تھے: ائے فاطمہ )سلام اللہ علیہا (، بے شک اللہ تعالی نے تمھیں چنا ہے اور تمھیں ہر قسم کی گندگی اور پلیدی سے پاک کیا ہے اور تمھیں سارے جہانوں کی عورتوں پر برتری دی ہے۔ ائے فاطمہ  تم اپنے رب کا شکر بجا لاو ,اس کے لیے سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع  کرو ۔جناب زہرا )سلام اللہ علیہا( ا ن سے باتیں کرتی تھیں اور وہ ان سے باتیں کرتے تھے۔ایک رات حضرت فاطمه) علیهاالسلام (نے فرشتوں سے پوچھا:آیا  جہان کی بہترین اور برترین عورت  مریم بنت عمران نہیں ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا :جناب مریم  اپنے زمانے کی عورتوں کی سرادر تھی،لیکن خدا وند متعال نے آپ کو آپ کے زمانے کی عورتوں،اس کے زمانے کی عورتوں اور  اولین و آخرین زمانے کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اور ان کی سردار بنایا ہے۔"

صفات تطہیر میں اللہ تعالی نے حضرت مریم  کے متعلق فرمایا: (وطهّرك) اور أهل البيت (عليهم السلام) کی شان میں آیت تطہیر نازل کی : (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) (الأحزاب:33)." اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے"

برگزیدگی اور سیادت و سرداری میں  اللہ تعالی نے جناب مریم  اور جناب زہرا )سلام اللہ علیہا (دونوں کو جہانوں کی عورتوں  پر فضیلت دی، پس ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ فرق  مفضل بن عمر  کی روایت میں بیان ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے: (قلت لأبي عبد الله ــ الصادق ــ (عليه السلام) أخبرني عن قول رسول الله (صلى الله عليه وآله) في فاطمة أنها سيدة نساء العالمين أهي سيدة نساء عالمها؟ قال: ذاك لمريم كانت سيدة نساء عالمها وفاطمة سيدة نساء العالمين من الأولين والآخرين)[ 3] 

" میں نے ابو عبداللہ – امام صادق – )علیہ السلام( سے پوچھا: مجھے رسول الله (صلى الله عليه وآله) کے اس قول کے بارے میں بتادیں جس میں وہ جناب زہرا )سلام اللہ علیہا( کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ سيدة نساء العالمين ہیں تو کیا وہ اپنے زمانے  کی عورتوں کی سردار ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ مریم ہیں جو اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں جبکہ جناب فاطمہ) سلام اللہ علیہا( اولین و آخرین تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔"

اگر آپ  اللہ تعالی کے قول (على نساء العالمين) کے اطلاق  سے تمسک کرتے ہیں تو  اس صورت میں وہ اپنے زمانے کے ساتھ مختص نہیں ہونگی جیسا کہ تفسیر المیزان میں بیان ہوا ہے، لیکن ہم کہتے ہیں اس کا انتخاب اور چناو  چند مشخص آیات کے ساتھ خاص ہے جیسے وہ آیات جو اس کے حمل اور ولادت کے متعلق ہیں۔ جبکہ جناب زہرا )سلا م اللہ علیہا  (کا انتخاب اور چناو مطلق ہے اور یہی وجہ فرق ہے اصطفا متعدی بہ (على) جیسا کہ مریم میں ہے اور اصطفاء مطلق میں۔" اصطفا متعدی بہ علی تقدم کا معنی دیتا ہے اور یہ  اصطفا مطلق کا غیر ہے جوکہ تسلیم کا معنی دیتا ہے،اس بناء پر ان کا چناو اور برتری تمام جہانوں  کی خواتین پر ہے"، اور جناب مریم کی برتری اور تقدم مطلق نہیں بلکہ بعض جہات سےہے"   خواتین میں ان کا اختصاص اور امتیاز ان کے ہاں  حضرت مسیح (عليه السلام)  کی عجیب و غریب  ولادت  کی وجہ سے ہے ۔ عالمین کی خواتین پر ان کی  برتری کی وجہ یہی ہے۔[ 4] .

معصومین اطہار(صلوات الله عليهم أجمعين) کی ولادت کو خدا وند متعال نے شیطان رجیم سے دور رکھا ہے، امیرالمومنین (عليه السلام) کی جناب زہرا )سلام اللہ علیہا( سے شادی کے بارے میں گفتگو اوران دونوں کےلیے  نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) کی دعا میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے۔ آنحضرت )صل اللہ علیہ و آلہ وسلم( نے فرمایا:

(قم بسم الله وقل: على بركة الله، وما شاء الله، لا قوة إلا بالله، توكّلت على الله ــ ثم جاءني حين أقعدني عندها ثم قال: اللهم إنهما أحبّ خلقك إليَّ فأحبهما، وبارك في ذريتهما واجعل عليهما منك حافظاً، وإني أعيذهما وذريتهما بك من الشيطان الرجيم)[ 5]  .

 "اللہ تعالی کے نام سے کھڑے ہوجاو اور کہو : اللہ تعالی کی برکت سے، اور جو کچھ اللہ تعالی چاہتا ہے، خدا کے سوا کوئی طاقت نہیں ہے- پھر وہ میرے پاس آئے، مجھے ان کے پاس بٹھا دیا  اور پھر فرمایا:پروردگارا تمھاری مخلوق میں یہ دونوں   مجھے محبوب ہیں پس تو بھی ان کو محبوب رکھ،ان کی ذریت میں برکت عطا فرما اور اپنے پاس  سے ان کےلیے محافظ مقرر کر اور میں ان دونوں کےلیے،ان کی ذریت کےلیے شیطان رجیم سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔"

اور جہاں تک بات ہے رزق کی  تو  اللہ تعالی کی طرف سے ان کے پاس جو رزق آتا تھا اس بارے میں  جلیل القدر صحابی حذيفة بن اليمان کی روایت ہے۔ یہ روایت اس طعام کے متعلق ہے جسے پیامبر اسلام )صل اللہ علیہ و آلہ وسلم(  اور ان کے اصحاب نے جناب سیدہ  )سلام اللہ علیہا( کے گھر میں  پایا تھا اور اس سے پہلے وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔وہ کہتا ہے (وقام النبي (صلى الله عليه وآله) نبی )صل اللہ علیہ و آلہ وسلم( کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ فاطمة (عليها السلام) کے پاس آئیں  اور فرمایا: (وأنى لك هذا يا فاطمة؟) ائے فاطمہ یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا اور ہم اس کا جواب سنتے رہے، فرمایا: (هو من عند الله إن الله يرزق من يشاء بغير حساب)" یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور اللہ تعالی جسے چاہے بے حساب دیتا ہے"۔پس نبی) صل اللہ علیہ وآلہ وسلم( نے  وہاں  سے نکلتے ہوئے فرمایا: (الحمد لله الذي لم يمتني حتى رأيت لابنتي ما رأى زكريا لمريم كان إذا دخل عليها المحراب وجد عندها رزقا فيقول: (يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ)[ 6]

اس پروردگا ر کا شکر ہے جس نے مجھے موت نہیں دی یہاں تک کہ میں نے  اپنی بیٹی کےلیے وہ دیکھا جو جناب زکریا نے مریم کےلیے دیکھا تھا ۔جب وہ محراب میں اس کے پاس آئے اور  اس کے پاس  رزق پایا تو کہا: ائے مریم یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ہے تو اس نے کہا اللہ تعالی کی طرف سے، بے شک اللہ جسے چاہے بےحساب عطا کرتا ہے۔"

میں  پسند کرتا ہوں کہ یہاں پر صدیقہ کبری جناب فاطمہ زہرا )سلام اللہ علیہا( اور صدیقہ مریم  کے بعض اوصاف میں مقارنہ کے متعلق کچھ اشعار ذکر کروں:

 

 

إن قِـيـلَ حَــوّا قُـلـتَ فـاطـمُ فَـخرُها              أو قـيـلَ مـريـمُ قـلـتُ فـاطـمُ أفـضلُ

اگر  حوا کہا جاتا ہے تو ، میں کہتا ہوں کہ فاطمہ اس کا  فخر ہے ، اور اگر مریم کی بات کی جائے تو ، میں کہتا ہوں کہ فاطمہ اس سے افضل ہیں۔

أفــهـلْ لـمـريـم والـــدٌ كـمـحـمدٍ                أم هَــلْ لـمـريمَ مـثـلُ فـاطـمَ أشـبلُ

کیا حوا کا محمد جیسا باپ ہے یا مریم کے فاطمہ جیسے بچے ہیں؟

كـــلٌ لــهـا عـنـدَ الــولادةِ حـالـةٌ              فـيـها عـقـولُ بـنـي الـبصائرِ تـذهَلُ

ولادت کے دوران ان میں سے ہر ایک کی ایک خاص  حالت تھی  جس کے بارے میں جان کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

هـــذي لـنـخلتِها الـتَـجَتْ فَـتَـساقَطَتْ              رُطَــبَـاً جَـنـياً فـهـي مـنـه تـأكُـلُ

ان میں سے ایک کھجور کے درخت کے پاس پناہ لیتی ہے اور تازہ کھجوریں اترتی ہیں  اور وہ انہیں تناول فرماتی ہیں ۔

ولــدت بـعـيسى وهــي غـيرُ مـروعةٍ              أنَّـــى وحـارسُـها الـسّـري الأبـسـلُ

اس نے عیسیٰ کو جنم دیا جبکہ کسی نے بھی اسے خوفزدہ نہیں کیا تھا ، نہ کہ صرف کسی  نے اسے خوف زدہ نہیں  کیا تھا ، بلکہ اس کی حفاظت نیک اور بہادر لوگوں نے کی تھی۔

وإلــى الـجدارِ وصـفحةِ الـبابِ الـتَجت         بـنـتُ الـنَّـبي فـأسـقَطَتْ مــا تَـحمِلُ

لیکن نبی! کی بیٹی در و  دیوار کے درمیان آگئیں  اور اپنے بچے کو گرا  دیا!

سَـقَـطت وأسـقَـطَتِ الـجـنينَ وحـولَها             مــن كــلِّ ذي حـسـبٍ لـئـيمٍ جَـحفل

وہ زمین پر گریں، اپنے بچے کو گرا دیا جب کہ اس کے اطراف میں کچھ نچلے درجے کے کمینہ لوگ تھے۔

هــــذا يـعـنـفـها وذاكَ يــدُعُّـهـا                  ويــردهـا هـــذا وهـــذا يــركُـلُ

 یہ ایک اسے دھکا دیتا تھا اور دوسرا اسے پھینک دیتا تھا ، ایک اسے پیچھے دھکیل دیتا تھا اور دوسرا اسے لات مار دیتا تھا!

وأمـامَـهـا أســـدُ الأســـودِ يـقـودُهُ              بـالـحبل قـنـفذ هــل كـهـذا مـعضَلُ

اس کے سامنے قنفذ شیروں کے شیر کو رسی کے ساتھ باندھ کر کیھنچتا تھا، کیا یہ اس کی طرح سختی اور دشواری رکھتی تھیں؟

و لسوف تاتي في القيامه فاطم                تشکو الي رب السماء و تعول

اور جلد ہی فاطمہ قیامت کے ،میدان میں اور خدا کے حضور داخل ہوں  گی ،آسمان کے  پالنے والے سے شکایت کریں  گی اور گریہ و زاری کریں گی ۔


ولـتَـرفَـعَـنَّ جـنـيـنَـها وحـنـيـنَها                      بـشـكـايةٍ مـنـهـا الـسـماءُ تَـزلزَلُ[7]

عنقریب وہ اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں گی اور آہ و بکا کریں گی، اس کی آہ و بکا  اور گریہ و زاری سے آسمان کانپ اٹھے گا۔

 

 

_______________________

* - میگزین صحیفہ صادقین شمارہ ۲۰۲  کے دوسرے صفحے میں  ،جوکہ بتاريخ 27 ذق 1441 کو نشر ہوا تھا۔

[1] - البرهان في تفسير القرآن: 2/33 عن تفسير العياشي:1/193

[2] - علل الشرائع:1/216 ، تفسير نور الثقلين 1/337

[3] - البرهان في تفسير القرآن: 2/216 ح 7 عن معاني الأخبار للصدوق: 107 ح 1

[4] - الميزان في تفسير القرآن:3/218

[5] - أمالي الشيخ الطوسي: 40، تفسير نور الثقلين:1/333

[6] - البرهان في تفسير القرآن:2/216 ح 8 عن آمالي الشيخ الطوسي:2/227

[7] - ديوان الشيخ محسن أبو الحب الكبير/ ص 128