قرآن کی فضیلت ، اس کے اثرات اور اس کی تلاوت کے آداب میں چالیس حدیثیں
قرآن کی فضیلت ، اس کے اثرات اور اس کی تلاوت کے آداب میں چالیس حدیثیں
1۔قرآن مجید پڑھنے کی ضرورت
ابی عبداللہ (عليه السلام) سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا: (ينبغي للمؤمن أن لا يموت حتى يتعلم القرآن أو أن يكون في تعليمه)([1])." مومن کو چاہیے کہ وہ نہ مرے مگر یہ کہ قرآن سیکھ چکا ہو یا سیکھ رہا ہو۔"
رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: (لا يعذب الله قلباً وعى القرآن)(2)
" اللہ تعالی اس دل پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں قرآن بسا ہو"
اور آپ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: (خياركم من تعلم القرآن وعلمه)(3). " تم سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن کی تعلیم حاصل کرے اور دوسروں کو بھی تعلیم دے۔"
اور آپ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: (حملة القرآن في الدنيا عرفاء أهل الجنة يوم القيامة)(4) "
" دنیا میں حاملان قرآن قیامت کے دن جنت کے عرفاء ہیں"
اور آپ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: (القرآن غنىً لا غنى دونه ولا فقر بعده)(5). " قرآن ایسا امیر ہے جس کے بعد کوئی امیری نہیں اور جس کے بعد کوئی غریبی نہیں۔"
اور آپ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: (إذا قال المعلم للصبي: بسم الله الرحمن الرحيم فقال الصبي بسم الله الرحمن الرحيم كتب الله براءة للصبي وبراءة لأبويه وبراءة للمعلم)(6)." جب معلم بچے سے کہتا ہے: بسم الله الرحمن الرحيم اور بچہ بھی بسم الله الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ تعالی بچے کےلیے، اس کے والدین کےلیے اور معلم کےلیے جہنم سے دوری لکھتا ہے۔"
ابی عبداللہ (عليه السلام) سے منقول ہے: (الحافظ للقرآن العامل به مع السفرة الكرام البررة)([2]).
" قرآن پر عمل پیرا حافظین قرآن ان فرشتوں کے ہم نشین ہیں جو خدا کے سفیر اور عزت دار اور نیک کردار ہیں۔"
۲۔ قرآن سیکھنا بہت بڑی نعمت ہے
نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
(من قرأ القرآن فظن أن أحداً أعطي أفضل مما أعطي فقد حقّر ما عظّم الله، وعظّم ما حقّر الله)([3]).
" جس نے قرآن پڑھا اور یہ گمان کیا کہ اس سے بڑھ کر بھی کوئی اجر ہے تو مطلب یہ ہوا کہ خدا نے جسے بڑا قرار دیا ہے اس نے اسے چھوٹا کر دیا اور جسے خدا نے حقیر اور چھوٹا قرار دیا اسے اس نے بڑا قرار دیا۔"
۳۔ قرآن ایسا شافع ہے جس کی شفاعت قبول کی گئی ہے اور ایسا گواہ ہے جس کی گواہی قبول کی گئی ہے
نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا:
(إذا التبست عليكم الفتن كقطع الليل المظلم فعليكم بالقرآن فإنه شافع مشفّع وماحِلٌ مصدق، ومن جعله أمامه قاده إلى الجنة، ومن جعله خلفه ساقه إلى النار، وهو الدليل يدل على خير سبيل، وهو كتاب فيه تفصيل وبيان تحصيل - إلى أن قال- لا تحصى عجائبه ولا تبلى غرائبه،مصابيح الهدى ومنار الحكمة)([4]).
" جب فتنے ہر طرف سے آپ کو گھیر لیں اور معاشرے کا ماحول اندھری رات کی مانند سیاہ ہوجائے تو اس وقت آپ قرآن سے تمسک کروچونکہ قرآن ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت قبول کی گئی ہے اور ایسا گواہ ہے جس کی گواہی قبول کی گئی ہے، پس جو قرآن کو اپنا رہنما بنائے گاتو یہ اسے جنت تک پہنچائے گا اور جو بھی اسے ترک کردے گا اور اپنے پیچھے چھوڑ دے گا یہ اسے جہنم تک پہنچائے گا، قرآن ایسا رہنما ہے جو بہترین راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے،یہ ایسی کتاب ہے جس میں تفصیل اور تحصیل ہے- یہاں تک کہ کہا-اس کے عجائبات کا شمار ممکن نہیں اور اس کے اسرار کھبی فرسوہ نہیں ہوتے، وہ ہدایت کا چراغ ہے اور حکمت کا منار ہے۔"
۴۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کی صفت
ابی عبداللہ (عليه السلام) سے منقول ہے، انہوں نے فرمایا: (ينبغي لمن قرأ القرآن إذا مرّ بآية من القرآن فيها مسألة أو تخويف أن يسأل عند ذلك خير ما يرجو ويسأله العافية من النار ومن العذاب)(4).
" جو شخص قرآن تلاوت کرتا ہے اور ایسی آیت میں پہنچتا ہے جس میں کوئی اہم مسئلہ بیان ہوا ہے یا اس میں انتباہ کیا گیا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے طلب خیر کرے اوراس سے آگ و عذاب کی عافیت مانگے۔"
نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: (إني لأعجب كيف لا أشيب إذا قرأت القرآن)(5)
"میں تعجب کرتا ہوں کہ جب میں قرآن پڑھتا ہوں تومیں کیوں بوڑھا نہیں ہوتا۔"
امیر المومنین(عليه السلام) نے اپنے ایک خطبے میں متقین کے وصف میں فرمایا: (أما الليل فصافون أقدامهم تالين لأجزاء الكتاب يرتلونه ترتيلاً، يحزّنون به أنفسهم ويستثيرون به تهيج أحزانهم، بكاء على ذنوبهم، ووجع كلوم جراحهم، وإذا مروا بآية فيها تخويف أصغوا إليها مسامع قلوبهم وأبصارهم فاقشعرت منها جلودهم ووجلت قلوبهم فظنوا أن صهيل جهنم وزفيرها وشهيقها في أصول آذانهم، وإذا مروا بآية فيها تشويق ركنوا إليها طمعاً وتطلعت أنفسهم إليها شوقاً، وطنوا أنها نصب أعينهم)([5]).
رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں،جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈتے ہیں۔اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس میں (دوزخ سے )ڈرایا گیا ہو،تو اس کی جانب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ و پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے،جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں جنت کی ترغیب دلائی گئی ہو،تو ا س کے طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف ) منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے۔
۵۔ حاملان قرآن کا احترام واجب ہے اور ان کی بے حرمتی حرام ہے
نبی اکرم (صلى الله عليه وآله) سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: (إن آهل القرآن في أعلى درجة من الآدميين ما خلا النبيين والمرسلين فلا تستضعفوا أهل القرآن حقوقهم، فإن لهم من الله العزيز الجبار لمكاناً)([6]).
"بے شک قرآن والے انسانوں کے بلندترین درجات پر فائز ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کے؛ پس قرآن والوں کے حقوق کو کم اور ناچیز مت سمجھو کیونکہ خدائے عزیز و جبار کی کی بارگاہ میں بہت اونچے مقام پر فائز ہیں۔"
۶۔ جس کےلیے قرآن مجید سیکھنا اور حفظ کرنا مشکل ہے اس کےلیے ثواب
امام صادق (عليه السلام) سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں: (من شُدّد عليه القرآن كان له أجران ومن يسر عليه كان مع الأولين)([7]). " جو شخص قرآن کو سختی کے ساتھ سیکھے اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو شخص آسانی سے سیکھ لے وہ اولین کا ہم نشین ہے۔"
اور انہی (عليه السلام) سے نقل ہے: (إن الذي يعالج القرآن ويحفظه بمشقة منه وقلة حفظ له أجران)([8]). " جو شخص قرآن کے سلسلے میں رنج و مشقت برداشت کرے اور حافظے کی کمزوری کے باوجود اسے حفظ کرے اس کے لئے دو اجر ہیں۔"
۷۔سورہ پڑھنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے
امام صادق (عليه السلام) فرماتے ہیں: (إذا أمّ الرجل القوم جاء شيطان إلى الشيطان الذي هو قرين الإمام فيقول: هل ذكر الله يعني هل قرأ بسم الله الرحمن الرحيم فإن قال نعم هرب وإن قال لا ركب عنق الإمام ودلى رجليه في صدره فلم يزل الشيطان أمام القوم حتى يفرغوا من صلاتهم)([9]).
" جب کوئی شخص لوگوں کی امامت کرتا ہے تو ایک شیطان اس شیطان کے پاس آتا ہے جو امام کا ساتھی ہوتا ہے اور اس سے پوچھتا ہے: کیا اس نے اللہ کا ذکر کیا ہے یعنی کیا اس نے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھی ہے اگر وہ بولے جی تو وہ بھاگ جاتا ہے اور اگر وہ بولے نہیں تو وہ امام کی گردن پر سوار ہوجاتا ہے اور اپنی ٹانگیں اس کے سینے پر ڈال دیتا ہے اور جب تک قوم نماز سے فارغ نہیں ہوتی شیطان اس کے سامنے سے نہیں ہٹتا۔"
۸۔ قبروں کی زیارت کرتے وقت قرآن مجید پڑھنا مستحب ہے
(من لا يحضره الفقيه) میں امام رضا (عليه السلام) سے روایت ہے: (ما عبد مؤمن زار قبر مؤمن فقرأ عنده إنا أنزلناه في ليلة القدر سبع مرا ت إلا غفر الله له ولصاحب القبر)([10]).
" جو مومن بندہ اپنے مومن بھائی کی قبر کی زیارت کرتا ہے اور سات مرتبہ سورہ إنا أنزلناه في ليلة القدر کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے اور صاحب قبر کے گناہ معاف کردیتا ہے"
ایک اور روایت میں یہ آیا ہے: (أمن من الفزع الأكبر) اور اسی معنی میں بہت ساری روایات ہیں۔
اور بعض روایات میں سورہ فاتحہ،معو ذتین،توحید اور آیت الکرسی میں سے ہر ایک کو تین مرتبہ پڑھنا مستحب قرار دیا ہے،اور اس کے ثواب میں آیا ہے: (إن الله يبعث إليه ملكاً يعبد الله عند قبره ويكتب له وللميت ثواب ما يعمل ذلك الملك فإذا بعثه الله من قبره لم يمر على هول إلا صرفه الله عنه بذلك الملك الموكل حتى يدخله الله به الجنة)([11]).
"اللہ تعالی ایک فرشتہ اس کی طرف بھیجتا ہے اور وہ فرشتہ اس کی قبر کے پاس اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا ثواب قبر پر قرآن پڑھنے والے کےلیے اور میت کےلیے لکھ دیتا ہے جب اللہ تعالی اس کو اس کی قبر سے نکالے گا تو فرشتہ اس کے ہمراہ ہوگا اور اللہ تعالی اس کے توسط سے اسے خوف سے نجات دے گا یہاں ک کہ وہ اس فرشتے کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا۔"
۹۔جوانی میں قرآن مجید سیکھنے کی فضیلت اور اس کے اثرات
امام صادق (عليه السلام) سے روایت ہے: (من قرأ القرآن وهو شاب مؤمن اختلط القرآن بلحمه ودمه، وجعله الله من السفرة الكرام البررة، وكان القرآن عنه حجيزاً يوم القيامة، يقول: يا رب إن كل عامل قد أصاب أجر عمله غير عاملي، فبلغ به أكرم عطائك، قال: فيكسوه الله العزيز الجبار حلتين من حلل الجنة ويوضع على رأسه تاج الكرامة، ثم يقال له: هل أرضيناك فيه؟ فيقول القرآن: يا رب قد كنت أرغب له فيما هو أفضل من هذا، قال: فيعطى الأمن بيمينه والخلد بيساره ثم يدخل الجنة فيقال له اقرأ آية فاصعد درجة، ثم يقال له: هل بلغنا به وأرضيناك؟ فيقول: نعم) ([12])." جس نے بھی قرآن پڑھا اس حال میں کہ وہ جوان ہے، مومن ہے تو قرآن اس کے گوشت اور خون میں مخلوط ہوجائے گا اور اللہ تعالی اس کو پیغام پہنچانے والے اور نیک رفتار فرشتوں میں قرار دے گا اور قیامت کے دن قرآن مانع ہوگا یعنی قاری قرآن اور آتش جہنم کے درمیان حائل ہوگا،اور کہے گا: ائے میرے پروردگار ہر شخص کو اپنے عمل کا اجر مل چکا ہے مگر اس شخص کے جس نے مجھ پر عمل کیا ہے پس اس کو بہترین اجر عطا فرما،، پس اللہ تعالی اس کو جنت کے دو لباس پہنائے گا اور تاج کرامت اس کے سر پر رکھے گا پھر اس سے کہے گا:کیا جو کچھ تمھارے اوپر عمل کرنے والے کو ہم نے عطا کیا اس سے راضی ہو،قرآن کہے گا: پروردگارا مجھ پر عمل کرنے والے کےلیے میں اس سے زیادہ چاہتا ہوں، پس خدا وند اس کے دائیں ہاتھ میں امن کا پروانہ دے گا اور اس کے بائیں ہاتھ میں جنت میں ہمیشہ رہنے کا پروانہ دے گا، پھر وہ شخص بہشت میں داخل ہوگا اور اس سے کہا جائے گا قرآن پڑھو اور اس سے اوپر والا مرتبہ حاصل کرو،پھر اللہ تعالی قرآن سے کہے گا جو کچھ ہم نے تم پر عمل کرنے والے کو دیا اس سے راضی ہو،قرآن کہے گا ، ہاں۔"
۱۰۔ بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کی ضرورت
رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) سے ایک حدیث میں نقل ہوا ہے: (ويكسى أبواه - أي حامل القرآن - حلتين إن كانا مؤمنين ثم يقال لهما هذا لما علّمتماه القرآن)([13])" اگر اس کے ماں باپ مومن ہیں تو ان کو دو بہشتی لباس پہنایا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ اس کےلیئے ہے جو تم نے اپنے بچے کو قرآن سکھایا تھا"
ایک حدیث میں أمير المؤمنين (عليه السلام) سے نقل ہے: (إن الله ليهمّ بعذاب أهل الأرض جمعياً حتى لا يحاشي منهم أحد إذا عملوا بالمعاصي واجترحوا السيئات، فإذا نظر إلى الشيّب ناقلي أقدامهم إلى الصلوات والولدان يتعلمون القرآن رحمهم فأخّرَ ذلك عنهم)([14]).
"اللہ تعالی اہل زمین پر جب عذاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے بغیر کسی استثناء کے ان گناہوں کی وجہ سے جو انہوں نے نجام دیئے ہیں اور پھر ان بوڑھوں کو دیکھتا ہے جو عبادت کےلیے مسجد کی طرف جارہے ہیں اور ان کے بچے قرآن سیکھ رہے ہیں تو اس وقت اللہ ان پر رحم کرتا ہے اور ان سے عذاب ٹال دیتا ہے۔"
۱۱۔ قرآن پڑھنے والوں کی قسمیں اور حقیقی قاری قرآن کی صفت
أبي جعفر (عليه السلام) سے روایت ہے، قرمایا: (قرّاء القرآن ثلاثة: رجل قرأ القرآن فاتخذه بضاعة واستدر به الملوك واستطال به على الناس، ورجل قرأ القرآن فحفظ حروفه وضيع حدوده([15]) وأقامه إقامة القدح، فلا كثّر الله هؤلاء من حملة القرآن، ورجل قرأ القرآن فوضع دواء القرآن على داء قلبه فأسهر به ليله واظمأ به نهاره وقام به في مساجده وتجافى به عنه فراشه، فبأولئك يدفع الله البلاء وبأولئك يديل الله من الأعداء وبأولئك ينزّل الله الغيث من السماء، فوالله لهؤلاء في قراء القرآن اعز من الكبريت الأحمر)([16]).
" قرآن کے پڑھنے والے تین طرح کے ہیں:ایک وہ شخص جو قرآن اس لیے پڑھتا ہے تاکہ اس کے ذریعے بادشاہوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کے درمیان اپنے اوپر افتخار کرے، یہ شخص اہل جہنم میں سے ہے، دوسرا وہ شخص ہے جو قرآن پڑھتا ہے اس کے الفاظ کو حفظ کرتا ہے لیکن اس کے احکامات پر عمل نہیں کرتا یہ بھی اہل جہنم میں سےہے اور تیسرا وہ شخص ہے جس نے قرآن پڑھا ہے،اور قرآنی دواء کو اپنے درد دل پر رکھا ہے،اس کی رہنمائی میں راتوں کو جاگتا ہے اور دنوں میں پیاسا رہتا ہے اور مساجد میں نماز کےلیے کھڑا ہوتا ہے، اپنے نرم بستر کو ترک کرتا ہے۔اللہ تعالی انہی کی خاطر بلا دور کرتا ہے اور انہی کے توسط سے دشمنوں سے انتقام لیتا ہے اور انہی کے طفیل آسمان سے بارش برساتا ہے۔ خدا کی قسم قرآن کے ایسے قارئین خالص سونے سے کم ہیں۔"
رسول الله (صلى الله عليه وآله) کا ارشاد گرامی ہے: (يا حامل القرآن تواضع به يرفعك الله، ولا تعزز به فيُذلك الله، يا حامل القرآن تزيّن به لله يزينك الله به، ولا تزين به للناس فيشينك الله به)(2).
" ائے حامل قرآن، قرآن سے تواضع کے ساتھ پیش آوتاکہ خدا اسکے ذریعے سے تمھارا رتبہ بلند کرے، اس کے ساتھ غرور سے پیش مت آو،اللہ آپ کو ذلیل کرے گا، ائے حامل قرآن اللہ کےلیے اس کے توسط سے خود کو مزین کرواللہ تعالی اس کے ساتھ تجھے زینت دے گا اس کے توسط سے خود کو لوگوں کےلیے آراستہ نہ کرو اللہ آپ کو اس کے توسط سے ذلیل و رسوا کرے گا۔"
۱۲۔ قرآن کو سمجھنا نبوت کے قریب ہے
رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کی حدیث ہے: (من ختم القرآن فإنما أدرجت النبوة بين جنبيه ولكنه لا يوحى إليه)(3). " جس نے بھی قرآن کو ختم کیا گویا اس نے اسے اپنے دل میں جگہ دی ہے لیکن اس پر وحی نازل نہیں ہوتی۔"
۱۳۔ قرآن کو مکمل پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ شروع سے آخر تک ترتیب کے ساتھ اسے پڑھا جائے نہ ادھر ادھر سے
الزھری سے روایت ہے، کہا: (قلت لعلي بن الحسين (عليهم السلام): أي الأعمال أفضل؟ قال: (الحالّ المرتحل) قلت وما الحالّ المرتحل، قال (عليه السلام) : فتح القرآن وختمه، كلما جاء بأوله ارتحل في آخره) [17] " میں نے ( علي بن الحسين (عليهم السلام) سے پوچھا: کونسے اعمال افضل ہیں؟ انہوں نے فرمایا: (الحالّ المرتحل)، میں نے کہا : حال المرتحل کیا ہے، انہوں نے جواب دیا:قرآن کھولنا اور اسے ختم کرنا، جب بھی شروع سے پڑھا آخر تک پڑھا۔" اور نہایہ میں ذکر ہے، پوچھا گیا :کونسے اعمال افضل ہیں؟ کہا: حال المرتحل، کہا گیا : وہ کیا ہے؟ کہا: الْخاتِمُ الْمُفْتِحُ؛ هُوَ الَّذى يخْتِمُ الْقُرْءَانَ بِتِلاوَتِهِ، ثُمَّ يفْتَتِحُ التِّلاوَةَ مِنْ اوّلهِ. " ختم کرنے والا ابتدا کرنے والا؛ یعنی وہ شخص جو قرآن شروع سے آخر تک پڑھتا ہے اورپھر قرآن ختم ہوتے ہی دوبارہ اول سے شروع کرتا ہے۔ "شبّهه بالمسافر يبلغ بالمنزل فيحل فيه ثم يفتتح السير أي يبدأه"،انہوں اسے ایک مسافر سے تشبیہ دی ہے جو اپنی منزل تک ہینچتا ہے، اس میں داخل ہوتا ہے پھر سفر شروع کرتا ہے یعنی سفر کا آغاز کرتا ہے،" وكذلك قراءة أهل مكة إذا ختموا القرآن بالتلاوة ابتدأوا وقرأوا الفاتحة وخمس آيات من أول سورة البقرة إلى قوله: [هُمُ الْمُفْلِحُونَ] ويقفون ويسمون فاعل ذلك الحال المرتحل أي أنه ختم القرآن وابتدأ بأوله ولم يفصل بينهما بزمان."
اہل مکہ کے قرا اسی طرح تھے جب بھی قرآن ختم کرتے تھے، فورا دوبارہ ابتدا سے پڑھنا شروع کرتے تھے، سورہ فاتحہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیتیں تا [هُمُ الْمُفْلِحُونَ] پڑھتے تھے،پھر تلاوت چھوڑ دیتے تھے۔ پس جو ایسا کرے اسے الحال المرتحل کہا جاتا ہے یعنی قرآن ختم کیا ہے اور بغیر فاصلہ زمانی کے اسے دوبارہ سے شروع کیا ہے"
اور امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث بھی یہی مطلب بیان کرتی ہے، فرمایا: (قيل يا ابن رسول الله أي الرجال خير قال (عليه السلام): الحال المرتحل، قيل يا ابن رسول الله (صلى الله عليه وآله): وما الحال المرتحل؟ قال (عليه السلام): الفاتح الخاتم الذي يقرأ القرآن ويختمه فله عند الله دعوة مستجابة)([18]).
" پوچھ گیا کونسے مرد بہتر ہیں؟ کہا: الحال المرتحل،کہا گیا: يا ابن رسول الله (صلى الله عليه وآله) یہ حال امرتحل کیا ہے؟ فرمایا:وہ شخص جو قرآن شروع کرتا ہے ختم کرتا ہے اور ختم کرتے ہی دوبارہ شروع کرتا ہے پس اللہ کے نزدیک اس کی دعا قبول ہے۔"
۱۴۔ قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے کی وصیت
رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) نے علي (عليه السلام( کو اپنی وصیت میں فرمایا:
(وعليك بتلاوة القرآن على كل حال)([19])." ہر حال میں قرآن کی تلاوت تم پر لازم ہے۔"۔
امام صادق (عليه السلام) سے ایک حدیث میں بیان ہوا ہے،فرمایا: (عليكم بتلاوة القرآن فإن درجات الجنة على عدد آيات القرآن، فإذا كان يوم القيامة يقال لقارئ القرآن: أقرأ وأرق فكلما قرأ آية يرقي درجة)([20]).
" قرآن کی تلاوت تم پر لازمی ہے چونکہ جنت کے درجات قرآن کی آیتوں کی تعداد کے مطابق ہیں، جب قیامت کا دن ہوگا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا پڑھو اور ترقی کرو جب بھی وہ ایک آیت پڑھے گا ایک درجہ ترقی کرے گا۔"
ابی جعفر (عليه السلام) سے روایت ہے،کہا: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): (من قرأ عشر آيات في ليلة لم يكتب من الغافلين، ومن قرأ خمسين آية كتب من الذاكرين، ومن قرأ مائة آية كتب من القانتين، ومن قرأ مائتي آية كُتب من الخاشعين، ومن قرأ ثلاثمائة آية كتب من الفائزين، ومن قرأ خمسمائة آية كتب من المجتهدين، ومن قرأ ألف آية كتب له قنطار والقنطار خمسة عشر ألف (خمسون ألف) مثقال من ذهب، المثقال أربعة وعشرون قيراطاً أصغرها مثل جبل أحد وأكبرها ما بين السماء والأرض)([21]).
جو ایک رات میں دس آیات کی تلاوت کرے اسے غافلین میں شمار نہیں کیا جائے گا اور جو پچاس آیات کی تلاوت کرے اسے ذکر خدا میں مشغول رہنے والوں میں شمار کیا جائے گا اور جو ایک سو آیات کی تلاوت کرے اسے عبادت گزاروں میں شمار کیاجائے گا، جو تین سو آیات کی تلاوت کرے اسے کامیاب لوگوں میں شمار کیا جائے گا اور جو پانچ سو آیات کی تلاوت کرے اسے(راہ خدا میں)جہاد کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا اور جو ایک ہزار آیات کی تلاوت کرے گا وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دیا ہو۔ اور قنطار کی مقدار ۱۵ ہزار مثقال سونا کے برابر ہے اور ایک مثقال ۲۴ قیراط کے برابر ہے اور ان میں سے سب سے چھوٹا احد کے پہاڑ کی طرح ہے اور سب سے بڑا جو زمین اور آسمان کے برابر ہے۔"
۱۶۔ قرآن مجید سے جو کچھ سیکھا ہے اس کی حفاظت ضروری ہے اور اسے اس طرح سے ترک نہیں کرنا ہے کہ مکمل فراموش ہوجائے
يعقوب الأحمر سے نقل ہے، وہ کہتا ہے: (قلت لأبي عبد الله (عليه السلام) إن عليّ ديناً كثيراً وقد دخلني ما كاد القرآن يتفلت مني، فقال أبو عبد الله (عليه السلام): القرآن القرآن إن الآية من القرآن والسورة لتجيء يوم القيامة حتى تصعد ألف درجة - يعني في الجنة - فتقول: لو حفظتني لبلغت بك هاهنا)([22]).
" میں نے ابی عبداللہ (عليه السلام) سے کہا:میرے اوپر بہت زیادہ قرض چڑھا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے قرآن مجھ سے چھوٹ چکا ہے،تو ابو عبداللہ(عليه السلام) نے فرمایا: قرآن قرآن چونکہ جب قیامت کے دن قرآن کی ایک آیت اور سورہ آجائیں گی تو ایک ہزار درجے بلند ہونگے- یعنی جنت میں – اور کہے گا اگر تو مجھے حفظ کرتا تو میں تجھے یہاں پہنچا دیتا۔"
میں کہتا ہوں: جیساکہ پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ حفظ معنوی کا مطلب قرآن کی حدود اور معانی کی رعایت کرنا اور اس کے اوامر اور نواہی کا پابند ہونا ہے۔
۱۷۔وضو کے ساتھ تلاوت کرنا مستحب ہے
محمد بن الفضیل نے ابو الحسن(عليه السلام) سے روایت کی ہے، فرمایا: (سألته أقرأ المصحف ثم يأخذني البول فأقوم فأبول وأستنجي وأغسل يدي وأعود إلى المصحف فأقرأ فيه؟ قال: لا حتى تتوضأ للصلاة)([23]).
" میں نے ان سے پوچھا میں قرآن مجید پڑھتا ہوں پھر مجھے پیشاب آتا ہے، میں کھڑا ہوجاتا ہوں،جاکر پیشاب کرتا ہوں پھر استنجی کرتا ہوں اور اپنے ہاتھ دھوتا ہوں اورقرآن کی طرف واپس لوٹتا ہوں پھر اسے پڑھتا ہوں؟ انہوں نے کہا: نہیں یہاں تک کہ تم نماز کےلیے وضو کرو۔"
اور ان (عليه السلام) سے نقل ہے: (لقارئ القرآن بكل حرف يقرأ في الصلاة قائماً مائة حسنة وقاعداً خمسون حسنة ومتطهراً في غير صلاة خمسة وعشرون حسنة وغير متطهر عشر حسنات، أما إني لا أقول: المر، بل بالألف عشر وباللام عشر وبالميم عشر وبالراء عشر)([24]).
" جو شخص قیام کی حالت میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اسے قرآن کے ہر حرف کے بدلے میں ۱۰۰ نیکیاں مل جاتی ہیں اگر بیٹھ کر پڑھے ۵۰ نیکیاں مل جاتی ہیں،اگر باوضو پڑھے غیر نماز میں ۲۵ نیکیاں اس کو مل جائیں گی لیکن اگر وضو کے بغیر پڑھے تو ۱۰ نیکیاں مل جائیں گی، لیکن میں یہ نہیں کہتا: المر،ایک حرف ہے بلکہ الف کے مقابلے میں ۱۰ نیکیاں، لام کے مقابلے میں ۱۰ نیکیاں،میم کے مقابلے میں ۱۰ نیکیاں اور راء کے مقابلے میں ۱۰ نیکیاں مل جائیں گی۔"
۱۸۔ قرآن کی تلاوت کے وقت استعاذہ پڑھنا مستحب ہے
حلبی نے ابی عبداللہ(عليه السلام) سے روایت کی ہے، کہا: (سألته عن التعوذ من الشيطان عند كل سورة يفتتحها، قال: نعم، فتعوذ بالله من الشيطان الرجيم)([25])." میں نے ان سے ہر سورہ کے شروع میں اعوذ بااللہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا ، کہا: ہاں،پس کہو: میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔"
اور أمير المؤمنين (عليه السلام) سے روایت ہے:اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو قرآن کی تلاوت کے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے اپنے اس قول کے ساتھ: [فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ] ومن تأدب بأدب الله أدّاه إلى الفلاح الدائم)([26]). "جو بھی الہی آداب کے ساتھ اپنے آپ کو سنوارے گا وہ ابدی نجات پائے گا۔"
۱۹۔ قرآن اللہ کا وعدہ ہے مسلمان کو چاہیے کہ وہ روزانہ اس کی تلاوت کرے
امام صادق(عليه السلام) کا فرمان ہے: (القرآن عهد الله إلى خلقه فقد ينبغي للمرء المسلم أن ينظر في عهده وأن يقرأ منه في كل يوم خمسين آية)([27])." قرآن اپنی مخلوق کے ساتھ اللہ کا عہد ہے مسلمان شخص کو چاہیے کہ اپنے عہد کی پاسداری کرے اور ہر روز اس کی ۵۰ آیتوں کی تلاوت کرے۔"
میں کہتا ہوں: ایک آسان حساب کتاب کے ساتھ ، آپ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کم از کم مومن کو سال میں تین بار قرآن مجید مکمل کرنا چاہئے کیوں کہ قرآن مجید میں آیات کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے ، پھر (120) دن میں ، یعنی چار مہینے میں اس پر لازم ہے کہ قرآن ختم کرے ، جبکہ رمضان کے مہینے میں اس کی دوگنی کوشش کی جائے۔
۲۰۔آیات قرآنی خزانے ہیں لہذا ان سب سے فائدہ اٹھائیں
علي بن الحسين (عليه السلام) سے نقل ہے،کہا: (آيات القرآن خزائن فكلما فتحت خزانة ينبغي لك أن تنظر ما فيها)([28]). "(آیات قرآنی خزانے ہیں ، پس جب بھی تم کوئی خزانہ کھولو تو پھر تم پر لازم ہے کہ جو کچھ اس میں موجود ہے اسے دیکھ لو۔"
۲۱ ۔ گھر میں قرآن کریم پڑھنا مستحب ہے
امام جعفر صادق (عليه السلام) سے روایت ہے، فرمایا: قال أمير المؤمنين: (البيت الذي يقرأ فيه القرآن ويذكر الله عز وجل فيه تكثر بركته وتحضره الملائكة وتهجره الشياطين، ويضيء لأهل السماء كما تضيء الكواكب لأهل الأرض، وإن البيت الذي لا يُقرأ فيه القرآن ولا يذكر الله عز وجل فيه تقل بركته وتهجره الملائكة وتحضره الشياطين)([29]).
امیر امومنین علیہ السلام نے فرمایا:وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت اور ذکرِ خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے .شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتا ہے جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔”
۲۲۔کمائی اور معاش کا حصول قرآن مجید پڑھنے سے نہیں روکتا
امام جعفر صادق (عليه السلام) سے روایت ہے،فرمایا: (ما يمنع التاجر منكم المشغول في سوقه إذا رجع إلى منزله أن لا ينام حتى يقرأ سورة من القرآن فيكتب له مكان كل آية يقرأها عشر حسنات وتمحي عنه عشر سيئات)([30]). " جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورة کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔"
۲۳۔قرآن دیکھ کر پڑھنا مستحب ہے اگرچہ جو کچھ پڑھ رہا ہے وہ اسے حفظ ہی کیوں نہ ہو
أبي عبد الله (عليه السلام) سے روایت ہے، فرمایا: (من قرأ القرآن في المصحف متع ببصره وخفف عن والديه وإن كانا كافرين)([31])." جو بھی قرآن دیکھ کر پڑھتا ہے اپنی آنکھوں سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے والدین کے عذاب میں کمی ہوگی اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔"
نبی(صلى الله عليه وآله) کا ارشاد گرامی ہے: (ليس شيء أشد على الشيطان من القراءة في المصحف نظراً)([32])." شیطان کےلیے سخت ترین چیز یہ ہے کہ انسان قرآن مجید کی تلاوت قرآن سے دیکھ کر کرے۔"
ایک اور حدیث میں آیا ہے: (النظر إلى المصحف من غير قراءة عبادة)([33])." قرآن پر نگاہ کرنا بغیر قرات کے عبادت ہے۔"
میں کہتا ہوں: یہ کم ترین وظیفہ ہے جو اچھے سے نہیں پڑھ سکتا وگرنہ اسے سننا چاہیے۔
اسحاق بن عمار ابی عبداللہ (عليه السلام) سے روایت کرتے ہیں: (قلت له: جعلت فداك إني أحفظ القرآن على ظهر قلبي فاقرأه على ظهر قلبي أفضل أو أنظر في المصحف،قال فقال لي: بل اقرأه وانظر في المصحف فهو أفضل، أما علمت أن النظر في المصحف عبادة)([34]).
''میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کرلیاہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے۔"
۲۴۔ گھر میں قرآن مجید رکھنا مستحب ہے
اما م صادق (عليه السلام) سے روایت ہے،فرمایا: (إنه ليعجبني أن يكون في البيت مصحف يطرد الله عز وجل به الشياطين)([35]). " میرے لیئے تعجب کی بات ہے کہ گھر میں قرآن ہو تو اللہ تعالی اس کے توسط سے شیاطین کو وہاں سے نکال دیتا ہے۔"
۲۵۔ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنا مستحب اور جلدی پڑھنا مکروہ ہے
عبداللہ بن سلمان سے روایت ہے۔ اس نے کہا:میں نے ابا عبداللہ(عليه السلام) سے پوچھا اللہ تعالی کے اس قول کے بارے میں : [وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً]، فرمایا: (قال أمير المؤمنين (عليه السلام): بيّنه تبياناً ولا تهذّه هذّ الشعر ولا تنثره نثر الرمل ولكن اقرعوا به قلوبكم القاسية، ولا يكن همّ أحدكم آخر السورة)([36]).
" امیرالمومنین(عليه السلام) نے فرمایا:قرآن کو واضح کرکے پڑھو،شعر کی طرح جلدی نہ پڑھو اور نہ ہی صحرا کی ریت کی مانند بکھیر دو لیکن اس کے ذریعے اپنے سخت دلوں پر دستک دو، آپ میں سے کسی کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہیے کہ آخر سورہ تک پہنچے۔"
اور اللہ تعالی کے اس قول کی تفسیر میں : [الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ] امام صادق (عليه السلام) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: (حق تلاوته هو الوقوف عند ذكر الجنة والنار، يسأل في الأولى ويستعيذ من الأخرى)([37])." اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب جنت اور جہنم کا ذکر آئے تو وہاں پر توقف کرے پہلے کے بارے میں سوال کرے اور دوسرے کے بارے میں اللہ سے پناہ مانگے۔"
اور امام جعفر صادق (عليه السلام) کی حدیث ہے: (إن القرآن لا يُقرأ هذرمة ولكن يرتل ترتيلاً وإذا مررت بآية فيها ذكر الجنة فقف عندها وسل الله الجنة وإذا مررت بآية فيها ذكر النار فقف عندها وتعوذ بالله من النار)([38]). " قرآن جلدی سے نہیں پڑھا جاتا بلکہ ترتیل سے پڑھا جائے اور جب تم کسی ایسی آیت تک پہنچتے ہو جس میں جنت کا ذکر ہو تو وہاں رک جاو اور اللہ سے سوال کرو اور اگر کسی ایسی آیت تک پہنچتے ہو جس میں جہنم کا ذکر ہے تو وہاں رک جاو اور جہنم سے اللہ کی پناہ مانگو۔"
۲۶۔ حزن کے ساتھ قرآن کی تلاوت مستحب ہے جیسا کہ آپ کسی انسان سے مخاطب ہوں اور جو صوفی انجام دیتے ہیں چیخنا چلانا اور بے ہوش ہوجانا یہ حرام ہے
امام صادق (عليه السلام) کا ارشاد ہے: (إن القرآن نزل بالحزن فاقرأه بالحزن)([39])." قرآن حزن کے ساتھ نازل ہوا ہے لہذا اسے حزن کے ساتھ پڑھو۔"
حفص سے روایت ہے، کہا: (ما رأيت أحداً أشد خوفاً على نفسه من موسى بن جعفر (عليه السلام) ولا أرجى للناس منه وكانت قراءته حزناً فإذا قرأ كأنما يخاطب إنساناً)([40]).
" میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے نفس کے بارے میں شدت سے ڈرتا ہو سوائے موسى بن جعفر (عليه السلام) کے اور اس سے سے زیادہ کسی کو پرامید نہیں دیکھا اور وہ حزن کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے جب وہ پڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی انسان سے مخاطب ہیں۔"
جابر نے أبي جعفر (عليه السلام) سے روایت کی ہے، فرمایا: (قلت إن قوماً إذا ذكروا شيئاً من القرآن أو حدّثوا به صعق أحدهم حتى يرى أن أحدهم لو قطعت يداه أو رجلاه لم يشعر بذلك، فقال: سبحان الله ذلك من الشيطان، ما بهذا نعتوا إنما هو اللين والرقة والدمعة والوجل)([41]). " میں نے کہا ایک قوم ہے جب وہ قرآن پڑھتے ہیں یا قرآن انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ بے ہوش و مد ہوش ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے اس بے ہوش ہونے والے کے اگر ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں تو اس کو پتہ نہیں چلے گا،تو انہوں نے کہا : سبحان اللہ، یہ شیطانی کام ہے،ایسی کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جس چیز کی تاکید ہے وہ رقت قلب، آنسو اور خوف ہیں۔"
۲۷۔ بلند آواز سے قرآن پڑھنا مستحب ہے
عمار بن معاویہ سے روایت ہے، کہا: (قلت لأبي عبد الله (عليه السلام): الرجل لا يرى أنه صنع شيئاً في الدعاء وفي القراءة حتى يرفع صوته، فقال: لا بأس، إنَّ علي بن الحسين (عليه السلام) كان أحسن الناس صوتاً بالقرآن وكان يرفع صوته حتى يسمعه أهل الدار وإن أبا جعفر (عليه السلام) كان أحسن الناس صوتاً بالقرآن، وكان إذا قام من الليل وقرأ رفع صوته فيمر به مار الطريق من الساقين وغيرهم فيقومون فيستمعون إلى قراءته)([42]).
" میں نے ابی عبداللہ (عليه السلام) سے کہا:انسان دعا میں اور قرائت میں توجہ نہیں کرتا یہاں تک کہ اس کی آواز اونچی ہوجاتی ہے، فرمایا:مشکل نہیں، علي بن الحسين (عليه السلام) کی آوازقرآن پڑھنے میں سب سے پیاری تھی وہ بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے یہاں تک کہ ان کے گھر والے بھی ان کو سنتے تھےاور ابو جعفر (عليه السلام) بھی قرآن بہت خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے،جب وہ رات کو بیدار ہوتے تھے اور بلند آواز میں قرآن پڑھتے تھے اور ساقین اور غیر ساقین کا وہاں سے جب گزر ہوتا تھا تو وہاں کھڑے ہوجاتے تھے اور بہت غور سے قرآن کی تلاوت سنتے تھے۔"
۲۸۔ غنا کے ساتھ قرآن پڑھنا حرام ہے
امام صادق عليه السلام سے روایت ہے، کہا: (قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): اقرأوا القرآن بألحان العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل الفسق وأهل الكبائر فإنه سيجيء من بعدي أقوام يرجّعون القرآن ترجيع الغناء والنوح والرهبانية لا يجوز تراقيهم قلوبهم مقلوبة وقلوب من يعجبه شأنهم)([43]).
"رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا:قرآن کو عربوں کی آواز میں پڑھو،فاسقوں اور گنہگاروں کی آواز میں پڑھنے سے اجتناب کرو۔ میرے بعد کچھ اقوام آئیں گی وہ قرآن کو غنا ،نوحہ اوررہبانیت کی طرح گلے میں گھماتے رہیں گے اور آواز ان کےگلے سے باہر نہیں نکلتی،ان کے دل الٹے ہیں اور جو لوگ ان کو پسند کرتے ہیں ان کے دل بھی الٹے ہیں۔"
۲۹۔ اخلاقی طور پر قرآن مجید کی تلاوت سننا واجب اور شرعی طور پر سننا مستحب ہےسوائے نماز کے
عبد الله بن أبي يعفور نے أبي عبد الله (عليه السلام) سے روایت کی ہے، فرمایا: (قلت له الرجل يقرأ القرآن أيجب على من سمعه الإنصات له والاستماع؟ قال: نعم إذا قرأ عندك القرآن وجب عليك الإنصات والاستماع)([44]).
" میں نے ان سے پوچھا کوئی شخص قرآن کی تلاوت کررہا ہے کیا جو شخص اسے سن رہا ہے اس پر اس کو سننا واجب ہے؟ کہا: جی، جب آپ کے نزدیک قرآن پڑھا جائے تو آپ پر اسے غور سے سننا واجب ہے۔"
ایک حدیث میں زرارہ ، ابی جعفر (عليه السلام) سے نقل کرتے ہیں، کہا: (وإذا قرأ القرآن في الفريضة خلف الإمام فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون)([45]). " جب نماز میں قرآن پڑھا جائے،امام کے پیچھے، تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو شاید تم پر رحم کیا جائے۔"
۳۰۔ ہر مہینے میں ایک دفعہ ختم ِ قرآن کرنا مستحب ہے
محمد بن عبد الله سے روایت ہے، وہ کہتا ہے: قلت لأبي عبد الله (عليه السلام): اقرأ القرآن في ليلة؟ فقال: (لا يعجبني أن تقرأه في أقل من شهر)([46]). " میں نے ابی عبداللہ(عليه السلام) سے کہا:قرآن کو ایک ہی رات میں پڑھ لوں؟فرمایا: مجھے پسند نہیں کہ تم اسے ایک ماہ سے کم عرصے میں پڑھو۔"
۳۱۔قرآن کی تلاوت کا ثواب معصومين (عليهم السلام) کےلیے ہدیہ کرنا تاکہ اس کا ثواب دو برابر ہو۔
علي بن المغيرة، ابو الحسن (عليه السلام) سے روایت کرتے ہیں: (قلت فإذا كان في يوم الفطر جعلتُ لرسول الله (صلى الله عليه وآله) ختمة([47]) ولعلي (عليه السلام) أخرى ولفاطمة (عليها السلام) أخرى ثم الأئمة (عليهم السلام) حتى انتهيت إليك فصيرت لك واحدة منذ صرت في الحال، فأي شيء لي بذلك؟ قال: لك بذلك أن تكون معهم يوم القيامة، قلت: الله أكبر فلي بذلك؟ قال: نعم ثلاث مرات)([48]).
" میں نے کہا فطر کے دن رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) کےلیے میں نے ختمِ قرآن کیا ہے،دوسرا ختمِ قرآن میں نے علی (عليه السلام) کےلیے،ایک اور میں نےفاطمہ(عليها السلام) کےلیے پھر تمام آئمہ(عليهم السلام) یہاں تک کہ میں آپ تک پہنچا اور پھر آپ کے لیے بھی ایک قرآن ختم کیا، تو اس بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟فرمایا:اس کے بدلے میں آپ قیامت کے دن ان کے ساتھ ہونگے، میں نے کہا، اللہ اکبر یہ سب میرے لیئے؟کہا: جی،تین مرتبہ۔"
۳۲۔ قرآن سنتے وقت رونا یا رونے کی شکل بنانا مستحب ہے
امام صادق (عليه السلام) سے روایت ہے، فرمایا: (إن رسول الله أتى شباباً من الأنصار فقال: إني أريد أقرأ عليكم فمن بكى فله الجنة فقرأ آخر سورة الزمر [وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَراً] إلى آخر السورة فبكى القوم جميعاً إلا شاباً فقال: يا رسول الله قد تباكيت فما قطرت عيني فقال: إني معيد عليكم فمن تباكى فله الجنة فأعاد عليهم فبكى القوم وتباكى الفتى فدخلوا الجنة جميعاً)([49]).
ایک دن پیغمبر اکرم(ص) انصار کے کچھ جوانوں کے پاس تشریف لائے اور کہا: میں تمہارے سامنے قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کرنا چاہتا ہوں پس جس نے بھی آیتوں کو سن کر گریہ کیا بہشت اس پر واجب ہوجائے گی چنانچہ اس کے بعد آپ نے سورہ زمر کی آخری آیات کی تلاوت کرنا شروع کردیا’’وَسِیقَ الَّذِینَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاؤُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ یَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ یَتْلُونَ عَلَیْكُمْ آیَاتِ رَبِّكُمْ وَ یُنذِرُونَكُمْ لِقَاء یَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِینَ ‘‘۔(1) "اور کفر اختیار کرنے والوں کو گروہ در گروہ جہّنم کی طرف ہنکایا جائے گا یہاں تک کہ اس کے سامنے پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے خازن سوال کریں گے کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے تمہارے رب کی آیتوں کی تلاوت کرتے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے تو سب کہیں گے کہ بے شک رسول آئے تھے لیکن کافرین کے حق میں کلمئہ عذاب بہرحال ثابت ہوچکا ہے۔"
زبان رسالتمآب(ص) سے جب ان آیتوں کو سنا تو ایک کے علاوہ سارے جوانوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔اس جوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ(ص)! میرا دل تو رونے کو بہت کررہا تھا لیکن میری آنکھ سے کوئی آنسو کا قطرہ نہ ٹپکا۔
سرکار ختمی مرتبت(ص) نے فرمایا: میں دوبارہ اس آیت کو تمہارے لئے تلاوت کرتا ہوں جس نے بھی اپنا رونے جیسا منھ بنا لیا بہشت اس پر واجب ہوجائے گی اور پھر اسی آیت کو تلاوت فرمایا پھر سب جوان رونے لگے اور جوان نے رونے والی شکل بنائی اور سب کے سب جنت میں داخل ہوگئے۔"
علي (عليه السلام) سے روایت کی گئی ہے، ان سے کہا گیا: (هل عندكم شيء من الوحي؟ قال: لا، والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إلا أن يعطي الله عبداً فهماً في كتابه)([50])." کیا تمھارے پاس وحی ہے/ کیا آپ پر وحی نازل ہوتی ہے؟ فرمایا: نہیں، قسم اس کی جس نے دانے کو توڑا اور انسان کو پیدا کیا مگریہ کہ اللہ تعالی کسی بندے کو اپنی کتاب کی فہم عطا کرے۔"
إبراهيم بن العباس سے روایت ہے،کہا: (ما رأيت الرضا (عليه السلام) سئل عن شيء قط إلا علمه ولا رأيت أعلم منه بما كان في الزمان الأول إلى وقته وعصره وكان المأمون يمتحنه بالسؤال عن كل شيء فيجيب فيه، وكان كلامه كله وجوابه وتمثله انتزاعات من القرآن)([51])." میں نے رضا(عليه السلام) کو نہیں دیکھا کہ اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال پوچھا گیا ہو اور اس نے اس سوال کا جواب نہ دیا ہو اور میں نے پچھلے زمانے کے علماء اور معاصر علما میں اس سے زیادہ عالم کسی کو نہیں دیکھا،اور مامون ہر چیز کے بارے میں ان سے سوال پوچھتا تھا اور وہ اسے جواب دیتے تھے،اس کا کلام ،اس کے جوابات اور اس کی شاہد مثالیں، سب قرآن سے ہوتا تھا۔"
اور نھج البلاغہ میں: (ذلك القرآن فاستنطقوه ولن ينطق ولكن أخبركم عنه: ألا إنه فيه علم ما يأتي والحديث عن الماضي ودواء دائكم ونظم بينكم)([52])." یہ کتاب خدا ہے اس سے پوچھو اور یہ کھبی نہیں بولے گی لیکن میں آپ کو اس کے بارے میں بتاوں گا: آگاہ رہو اس میں آئندہ کے بارے میں علم ہے اورماضی کے بارے میں علم ہے، تمھاری بیماریوں کا علاج ہے اور جو کچھ تمھارے درمیان ہے اس کےلیے نظم ہے۔"
ابی عبداللہ(عليه السلام) سے روایت ہے، کہا: (لو قرأت الحمد على ميت سبعين مرة ثم ردت فيه الروح ما كان ذلك عجباً)([53]). " اگر مردے پر ۷۰ دفعہ الحمد پڑھی جائے اور اس کے جسم میں روح واپس آجائے تو تعجب والی بات نہیں۔"
رسول الله (صلى الله عليه وآله) سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا: (إن هذه القلوب لتصدأ كما يصدأ الحديد وإن جلاءها قراءة القرآن)([54]). ان دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے اوران کی جلاء قرآن کریم کی تلاوت ہے۔"
۳۶۔ ماہ مبارک رمضان میں قرآن کی کثرت سے تلاوت کرنا
امام باقر (عليه السلام) سے روایت ہے، فرمایا: (لكل شيء ربيع وربيع القرآن شهر رمضان)([55])." ہر چیز کی ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار رمضان کا مہینہ ہے ۔"
علي بن حمزة سے روایت ہے، کہا: (دخلت علي أبي عبد الله (عليه السلام) فقال له أبو بصير: جعلت فداك أقرأ القرآن في شهر رمضان في ليلة؟ فقال: لا، ففي ليلتين؟ فقال: لا، فقال: ففي ثلاث؟ فقال: ها وأشار بيده ثم قال: يا أبا محمد إن لرمضان حقاً وحرمة لا يشبهه شيء من الشهور)([56]).
"میں امام صادق (عليه السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا، پس ابو بصیر نے کہا: آپ پر قربان جاوں، کیا رمضان میں پورا قرآن ایک ہی رات میں پڑھ لوں؟ کہا نہیں، پھر پوچھا :دو راتوں میں؟ کہا، نہیں پھر کہا: تین راتوں میں؟ کہا، جی ، اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا پھر کہا:ائے ابا محمدبے شک رمضان کی اپنی ایک خاص حرمت اور حق ہے اور دوسرے مہینے اس کی طرح نہیں ہیں۔"
شعبان کے آخری جمعے کے خطبے میں نبی (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: (ومن تلا فيه - أي شهر رمضان - آية من القرآن كان له مثل أجر من ختم القرآن في غيره من الشهور)([57]). "اور جو بھی اس میں- ماہ ر مضان- قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا تواس کا ثواب اس شخص کے برابر ہے جو ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرے"۔
۳۷۔ قرآن کی تلاوت ایسے کرنا جس سے اس کا حق ادا ہوجائے
اللہ تعالی کے اس قول : [الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ](البقرة: 121) "وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے۔" کی تفسیر میں امام صادق (عليه السلام) فرماتے ہیں: (يرتلون آياته ويتفقهون به ويعملون بأحكامه ويرجون وعده، ويخافون وعيده ويعتبرون بقصصه، ويأتمرون بأوامره وينتهون بنواهيه، ما هو والله حفظ آياته ودرس حروفه وتلاوة سوره ودرس أعشاره وأخماسه. حفظوا حروفه وأضاعوا حدوده وإنما هو تدبر آياته والعمل بأحكامه قال تعالى:[كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ])([58]).
"وہ اس کی آیات کو واضح اور آہستہ پڑھتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ اس کے معنی کو سمجھیں، اس کے احکام و دستورات سے استفادہ کرتے ہیں اس کے وعدہ پر امید وار اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہیں۔ اس کی داستان کو نمونہ اور اس کی مثالوں سے نصیحتیں حاصل کرتے ہیں اوامر الٰہی کو بجا لاتے ہیں اور اس کےمنکر سے دوری اختیار کرتے ہیں۔خدا کی قسم قرآن کی تلاوت کا حق یہ نہیں ہے کہ اس کی آیات کو حفظ اور اس کے حروف و کلمات لگاتار پڑھتا رہے اور سوروں کی تلاوت اور اس کے حواشی کا مطالعہ کرتا رہے، حروف و کلمات کو تو پڑھتا رہے اور اس کے معانی و مفاہیم کو چھوڑ دے بلکہ حق یہ ہے کہ اس کی آیات میں تدبر و تفکر کیا جائے خداوند عالم فرماتا ہے:’’یہ مبارک کتاب ہے کہ جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے تاکہ اس کی آیات میں تدبر کرو‘‘۔
۳۸۔ قرآن سے علماء سیراب نہیں ہوتے
نبی (صلى الله عليه وآله) کا قرآن کی توصیف میں ارشاد گرامی ہے: (هو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم وهو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا يشبع منه العلماء ولا تلتبس منه الألسن ولا يخلق من الرد ولا تنقضي عجائبه من قال به صدق ومن حكم به عدل ومن عمل به أجر ومن دعا إليه هُدي إلى صراط مستقيم)([59])
. قرآن ہی حبل اللہ المتین (یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ )ہے! اور محکم نصیحت نامہ ہے ‘ اور وہی صراط مستقیم ہے‘ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور علم والے کبھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبرکاعمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گااور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا. بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علمِ قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہیں گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ‘ جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے)
اور وہ (قرآن) کثرتِ مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا(یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد اُن کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا‘ قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے‘ وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا!) اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہو ں گے،جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی‘ اور جس نے اس پر عمل کیا اس کو اجر ملا اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا ‘ اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی!‘‘
(وتعلموا القرآن فإنه أحسن الحديث وتفقهوا فيه فإنه ربيع القلوب واستشفوا بنوره فإنه شفاء الصدور وأحسنوا تلاوته فإنه أنفع القصص وإن العامل بغير علمه كالجاهل الحائر الذي لا يستفيق من جهله بل الحجة عليه أعظم والحسرة له ألزم وهو عند الله ألوم)([60]).
" قرآن مجید کا علم حاصل کرو کہ یہ بہترین کلام ہے اور اس میں غوروفکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ یہ دلوں کے لئے شفا ہے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرو کہ یہ مفید ترین قصوں کا مرکز ہے۔اوریاد رکھو کہ اپنے علم کے خلاف عمل کرنے والا عالم بھی حیران و سرگردان جاہل جیسا ہے جسے جہالت سے کبھی افاقہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر حجت خدا زیادہ عظیم تر ہوتی ہے اور اس کے لئے حسرت و اندوہ بھی زیادہ لازم ہوتا ہے اور وہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ قابل ملامت ہوتا ہے۔"
۴۰۔ قرآن مجید کی تکمیل پر امام سجاد علیہ السلام کی دعا
بارالٰہا ! تو نے اپنی کتاب کے ختم کرنے پر میری مدد فرمائی وہ کتاب جسے تو نے نور بناکر اتارا اور تمام کتب سماویہ پر اسے گواہ بنایا اور ہر اس کلام پر جسے تو نے بیان فرمایا اسے فوقیت بخشی اور (حق و باطل میں) حد فاصل قرار دیا جس کے ذریعہ شریعت کے احکام واضح کئے وہ کتاب جسے تو نے اپنے بندوں کے لیے شرح وتفصیل سے بیان کیا اور وہ وحی (آسمانی) جسے اپنے پیغمبر محمد پر نازل فرمایا، جسے وہ نور بنایا جس کی پیروی سے ہم گمراہی و جہالت کی تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتے ہیں اور اس شخص کے لیے اسے شفا قرار دیا جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوئے اسے سمجھنا چاہے اور خاموشی کے ساتھ اسے سنے اور وہ عدل و انصاف کا ترازو بنایا جس کا کانٹا حق سے ادھر ادھر نہیں ہوتا اوروہ نورِ ہدایت قرار دیا جس کی دلیل و برہان کی روشنی (توحید و نبوت کی) گواہی دینے والوں کے لیے بجھتی نہیں او ر وہ نجات کا نشان بنایا کہ جو اس کے سیدھے طریقہ پر چلنے کا ارادہ کرے۔وہ گمراہ نہیں ہوتا اور جو اس کی ریسماں کے بندھن سے وابستہ ہو۔ وہ (خوف و فقر و عذاب کی) ہلاکتوں کی دسترس سے باہر ہوجاتا ہے۔
بارالٰہا ! جب کہ تو نے اس کی تلاوت کے سلسلہ میں ہمیں مدد پہنچائی اور اس کے حسن ادائیگی کے لیے ہماری زبان کی گرہیں کھول دیں تو پھر ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی پوری طرح حفاظت و نگہداشت کرتے ہوں اور اس کی محکم آیتوں کے اعتراف و تسلیم کی پختگی کے ساتھ تیری اطاعت کرتے ہوں اور متشابہ آیتوں اور روشن و واضح دلیلوں کے اقرار کے سایہ میں پناہ لیتے ہوں۔
اے اللہ ! تو نے اسے اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اجمال کے طور پر اتارا اور اس کے عجائب و اسرار کا پورا پورا علم نہیں القا کیا اور اس کے علم تفصیلی کا ہمیں وارث قرار دیا اور جو اس کا علم نہیں رکھتے ان پر ہمیں فضیلت دی اور ا س کے مقتضیات پر عمل کرنے کی قوت بحشی تاکہ جو اس کے حقائق کے متحمل نہیںہوسکتے ان پر ہماری فوقیت و برتری ثابت کر دے۔
اے اللہ ! جس طرح تو نے ہمارے دلوں کو قرآن کا حامل بنایا اور اپنی رحمت سے اس کے فضل و شرف سے آگاہ کیا ،یونہی محمد (ص) پر جو قرآن کے خطبہ خواں اور ان کی آل (ع) پر جو قرآن کے خزینہ دار ہیں رحمت نازل فرما اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ تیری جانب سے ہے تاکہ اس کی تصدیق میں ہمیں شک و شبہ لا حق نہ ہو اور اس کے سیدھے راستہ سے روگردانی کا خیال بھی نہ آنے پائے۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی ریسماں سے وابستہ اور مشتبہ امور میں اس کی محکم پناہ گاہ کا سہارا لیتے اور اس کے پروں کے زیر سایہ منزل کرتے، اس کی صبح درخشاں کی روشنی سے ہدایت پاتے اور اس کے نور کی درخشندگی کی پیروی کرتے اور اس کے چراغ سے چراغ جلاتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے ہدایت کے طالب نہیں ہوتے۔
بارالٰہا جس طرح تو نے اس قرآن کے ذریعہ محمد(ص) کو اپنی رہنمائی کا نشان بنایا ہے اور ان کی آل (ع) کے ذریعہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہیں آشکارا کی ہیں یونہی محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمارے لیے قرآن کو عزت و بزرگی کی بلند پایہ منزلوں تک پہنچے کا وسیلہ اور سلامتی کے مقام تک بلند ہونے کا زینہ اور میدان حشر میں نجات کو جزا میں پانے کا سبب اور محل قیام ( جنت) کی نعمتوں تک پہنچے کا ذریعہ قرار دے۔
اے اللہ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ گناہوں کا بھاری بوجھ ہمارے سر سے اتارا دے اور نیکوکاروں کے اچھے خصائل و عادات ہمیں مرحمت فرما اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلا جو تیرے لیے رات کے لمحوں اور صبح و شام ( کی ساعتوں ) میں اسے اپنا دستوار العمل بناتے ہیں تاکہ اس کی تطہیر کے وسیلہ سے توہمیں ہر آلودگی سے پاک کر دے اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلائے ، جنہوں نے اس کے نور سے روشنی حاصل کی ہے اور امیدوں نے انہیں عمل سے غافل نہیں ہونے دیا کہ انہیں فریب کی نیزنگیوں سے تباہ کر دیں۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل رحمت نازل فرما اور قرآن کو رات کی تاریکیوں میں ہمارا مونس اور شیطان کے مفسدوں اور دل میں گزرنے والے وسوسوں سے نگہبانی کرنے اور ہمارے قدموں کو نافرمانیوں کی طرف بڑھنے سے روک دینے والا اور ہماری زبانوں کو باطل پیمائیوں سے بغیر کسی مرض کے گنگ کر دینے والا اور ہمارے اعضاو کو ارتکاب گناہ سے باز رکھنے والا اور ہماری غفلت و مدہوشی نے جس دفتر عبرت و پنداندوزی کو تہ رکھا ہے، اسے پھیلانے والا قرار دے تاکہ اس کے عجائب و رموز کی حقیقتوں اور اس کی متنبہ کرنے والی مثالوں کو کہ جنہیں اٹھانے سے پہاڑ اپنے استحکام کے باوجود عاجز آ چکے ہیں ہمارے دلوں میں اتار دے۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت ناز ل فرما اور قرآن کے ذریعہ ہمارے ظاہر کو ہمیشہ صلاح و رشد سے آراستہ رکھ اور ہمارے ضمیر کی فطری سلامتی سے غلط تصورات کی دخل دراندازی کو روک دے اور ہمارے دلوں کی کثافتوں اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھو دے اور اس کے ذریعہ ہمارے پراگندہ امور کی شیرازہ بندی کر اور میدان حشر میں ہماری جھلستی ہوئی دوپہروں کی تپش و تشنگی بجھا دے اور سخت خوف و ہراس کے دن جب قبروں سے اٹھیں تو ہمیں امن و عافیت کے جامے پہنا دے۔
محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ فقر و احتیاج کی وجہ سے ہماری خستگی و بدحالی کا تدارک فرما اور زندگی کی کشائش اور فراخ روزی کی آسودگی کا رخ ہماری جانب پھر دے اور بُرے عادات اور پست اخلاق سے ہمیں دور کردے اور کفر کے گڑھے (میں گرنے) اور نفاق انگیز چیزوں سے بچالے تاکہ وہ ہمیں قیامت میں تیری خوشنودی و جنت کی طرف بڑھانے والا اور دنیا میں تیری ناراضگی اور حدود شکنی سے روکنے والا ہو اور اس امر پر گواہ ہو کہ جو چیز تیرے نزدیک حلال تھی اسے حلال جانا اور جو حرام تھی اسے حرام سمجھا۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس قرآن کے وسیلہ سے موت کے ہنگام نزع کی اذیتوں، کراہنے کی سختیوں اور جان کنی کی لگاتار ہچکیوں کو ہم پر آسان فرما جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے اور کہا جائے کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ( جو کچھ تدراک کرے) اور ملک الموت غیب کے پردے چیر کر قبض روح کے لیے سامنے آئے اور موت کی کمان میں فراق کی دہشت کے تیر جوڑ کر اپنے نشانے کی زد پر رکھ لے اور موت کے زہریلے جام میں زہر ہلاہل گھول دے اور آخرت کی طرف ہمارا چل چلاؤ اور کوچ قریب ہو اور ہمارے اعمال ہماری گردن کا طوق بن جائیں اور قبریں روز حشر کی ساعت تک آرام گاہ قرار پائیں۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور کہنگی و بوسیدگی کے گھر میں اترنے اور مٹی کی تہوں میں مدت تک پڑے رہنے کو ہمارے لیے مبارک کرنا اور دنیا سے منہ موڑنے کے بعد قبروں کو ہمارا اچھا گھر بنانا اور اپنی رحمت سے ہمارے لیے گور کی تنگی کو کشادہ کردینا اور حشر کے عام اجتماع کے سامنے ہمارے مہلک گناہوں کی وجہ سے ہمیں رسوانہ کرنا اور اعمال کے پیش ہونے کے مقام پر ہماری ذلت و خواری کی وضع پر رحم فرمانا اور جس دن جہنم کے پل پر سے گزرنا ہو گا تو اس کے لڑکھڑانے کے وقت ہمارے ڈکمگاتے ہوئے قدموں کو جما دینا اور قیامت کے دن ہمیں اس کے ذریعہ ہر اندوہ اور روز حشر کی سخت ہولناکیوں سے نجات دینا اور جبکہ حسرت و ندامت کے دن ظالموں کے چہرے سیاہ ہوں گے ہمارے چہروں کو نورانی کرنا اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کر دے اور زندگی کو ہمارے لیے دشوار گزارنہ بنا۔
اے اللہ ! محمد جو تیرے خاص بندے اور رسول ہیں ان پر رحمت نازل فرما جس طرح انہوں نے تیرا پیغام پہنچایا ، تیری شریعت کو واضح طور سے پیش کیا اور تیرے بندوں کو پندونصیحت کی۔
اے اللہ ! ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قیامت کے دن تمام نبیوں سے منزلت کے لحاظ سے قمرب تر، شفاعت کے لحاظ سے برتر، قدرو منزلت کے اعتبار سے بزرگ تر اور جاہ و مرتبت کے اعتبار سے ممتاز تر قرار دے۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ان کے ایوان (عزو شرف) کو بلند ، ان کی دلیل و برہان کو عظیم اور ان کے میزان (عمل کے پلہ) کو بھاری کر دے۔ ان کی شفاعت کو قبول فرما اور ان کی منزلت کو اپنے سے قریب کر، ان کے چہرے کو روشن ، ان کے نور کو کومل اور ان کے درجہ کو بلند فرما اور ہمیں انہی کے آئین پر زندہ رکھ اور انہی کے دین پر موت دے اور انہی کی شاہراہ پر گامزن کر اور انہی کے راستہ پر چلا اور ہمیں ان کے فرمانبرداروں میں قرار دے اور ان کی جماعت میں محشور کر اور ان کے حوض پر اتار اور ان کے ساغر سے سیراب فرما۔
اے اللہ! محمد اور ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جس کے ذریعہ انہیں بہترین نیکی ، فضل اور عزت تک پہنچا دے جس کے وہ امیدوار ہیں۔ اس لیے کہ تو وسیع رحمت اور عظیم فضل و احسان کا مالک ہے۔
اے اللہ ! انہوں نے جو تیرے پیغامات کی تبلیغ کی۔ تیری آیتوں کو پہنچایا۔ تیرے بندوں کو پند و نصیحت کی اور تیری راہ میں جہاد کیا ان سب کی انہیں جزا دے جو ہر اس جزا سے بہتر ہو جو تو نے مقرب فرشتوں اور برگزیدہ مرسل نبیوں کو عطا کی ، ان پر اور ان کی پاک و پاکیزہ آل پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال ہوں([61])
([1]) و(2) و(3) و(4) و(5) و(6) وسائل الشيعة: كتاب الصلاة، أبواب قراءة القرآن ولو في غير الصلاة، باب1، الأحاديث 4، 5، 6، 15، 11، 16 بحسب الترتيب.