قرآن کے کردار کو فعال کرنے میں حوزہ کی مسؤولیت
قرآن کے کردار کو فعال کرنے میں حوزہ کی مسؤولیت
میں یہاں پر صرف ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو معاشرے کی تعلیم و تربیت، رہنمائی اور اصلاح کے متعلق حوزہ علمیہ کی ذمہ داری بیان کرتی ہے۔رسول اللہ (صلى الله عليه واله وسلم) سے روایت ہے:
" انہوں نے خطاب کیا ،اللہ تعالی کی کی تعریف کی پھر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کا ذکرکیا ،ان کی تعریف کی ، پھر کہا:یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے ہمسایوں سے نہیں سیکھتے، ان کے بارے میں غور وفکر نہیں کرتے، انکی احوال پرسی نہیں کرتے؟ خدا کی قسم یا تو یہ اپنے ہمسائیوں کو تعلیم دیں،ان کی احوال پرسی کریں ، ان کی خبر رکھیں یا پھر اسی دنیا میں ان کو سخت سزا مل جائے گی، پھر وہ اترے اور اپنے گھر چلے گئے،اس کے بعد اصحاب رسول اللہ(صلى الله عليه وآله وسلم) نے کہا اس کلام سے مراد کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں البتہ اشعری فقہا اور علماء ہیں جنہیں اپنے ہمسایوں کی کوئی خبر نہیں۔ تو اشاعرہ کی ایک جماعت جمع ہوگئی اور رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) کے پاس آئی اور کہا: آپ نے مسلمانوں کے کچھ طائفوں کی تعریف کی اور ہماری ملامت کی ،بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی؟ پس رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے کہا:اپنے ہمسایوں کو تعلیم دو ،ان کی احوال پرسی کرو ، انہیں امر بمعروف اور نہی از منکر کرو وگرنہ اس دنیا میں ہی تمھیں سزا مل جائے گی، تو انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ہمیں ایک سال کی مہلت دو ،ایک سال میں ہم انہیں تعلیم دیں گے اور وہ تعلیم حاصل کریں گے، پس ان کو ایک سال کی مہلت دی پھر رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے اس آیت کی تلاوت کی: [لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ، كَانُواْ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ] )([1]).
" بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کی زبان سے لعنت کی گئی، یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔آپس میں برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کر رہے تھے، کیسا ہی برا کام ہے جو وہ کرتے تھے۔"
یہ کچھ تجاویز ہیں جو میں حوزہ علمیہ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، پابندی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور دن رات اس سے استفادہ کرنا سب کی مشترکہ زمہ داری ہے۔اس حوالے سے کچھ احادیث آگے بیان ہونگی جن سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
اور حوزہ کی یہ ذمہ داری صرف انہی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ ہم نے ان کو جو مخاطب کیا وہ اس لیے کہ دوسروں کی نسبت ان کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے، و گرنہ پورےمعاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اقدامات کی پیروی کرے، اور جو لوگ علمی حوالے سے کمزور ہیں وہ آسان تفاسیر پڑھنا شروع کریں جیسے تفسیر شبر۔
اور میں ہر مسلمان کو نصیحت کرتا ہوں- جو میں نے تجربہ کیا ہے- کہ اپنی زندگی کی شروعات قرآن سے کرے یعنی اس کی تلاوت کرے تفسیر کے ساتھ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تاکہ اس دوران اس کو قرآن کے مفردات کی سمجھ بھی آجائے، اور چند بار قرآن کو استمرار کے ساتھ ختم کرے۔پھر دوبارہ قرآن کی طرف رجوع کرے ، اس کی تلاوت کرے لیکن اس بار اپنی قابلیت بڑھانے کےلیے کچھ پیشرفتہ تفسیروں کا مطالعہ کرے جیسے میزان اور فی ظلال القرآن اور ایسی کتابیں پڑھے جو قرآن کے مفاہیم کی تشریح کرتی ہیں یا موضوعات کےمطابق اس کی تشریح کرتی ہیں، اس طرح سے کہ ایک موضوع کا انتخاب کرے پھر قرآن کا مطالعہ کرے اور اس موضوع سے متعلق جتنی بھی آیات ہیں ان کو جمع کرے پھر اس مجموع سے قرآنی نظریات اور تصورات کو اخذ کرے- میں ان فطری اصطلاحات کا استعمال کرتا ہوں تاکہ اذھان سے مانوس ہوجائیں البتہ بعض تحفظات کے ساتھ-جس موضوع کے انتخاب کا مقصد معاشرے کی کسی مشکل کو حل کرنا تھا چاہے وہ مشکل اخلاقی ہو، اعتقادی ہو یا فکری وغیرہ۔
بہتر ہوگا کہ اس سلسلے میں حوزہ علمیہ کے فضلا اور علمائے کرام کی پیروی کی جائے تاکہ وہ ان کی رہنمائی اور ہدایت کریں ، ان کے سوالوں کا جواب دیں جو ان کےلیے مفید ہو چونکہ معاشرہ اور حوزہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں؛ حوزہ معاشرے کی ہدایت کرتا ہے اور معاشرہ حوزہ پر پریشر ڈویلپ کرتا ہے تاکہ وہ اپنی مسوولیت زمانے کے تقاضے،امت کی امنگوں اور اس کی ضرورتوں کے مطابق انجام دے اور اس کی وجہ سے حوزہ کے صالح،نیک اور مناسب لوگ لوگوں کے سامنے آجائیں گے اور امت کو بھی ان کی شناخت ہوگی۔
قرآن کو سمجھنے کا حق ادا نہیں ہوتا مگر یہ کہ انسان اس کو ایک پیغام کے طور پر لے اس کے توسط سے اپنی اصلاح کرے،جو اس کے ارد گرد ہیں ان کی اصلاح کرے اور اسی کے ساتھ انسانیت کو نقصان اور منحرف کرنے والے عناصر کا مقابلہ کرے، تب وہ اسی حالت میں رہے گا جس میں وہ اترا تھا ، اور پھر اس کے اسرار اس کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ صرف تبرک کی خاطر ا س کی تلاوت کرنا کافی نہیں اگرچہ اس بات کا انکار نہیں کہ اس کی بھی فضیلت ہے۔
اور ضروری ہے کہ قرآن مجید کا ایک دورہ اس کی آیات کے نزول کی تاریخ کےمطابق کریں اگرچہ اس کا تفصیلی علم حاصل کرنا کافی سخت کام ہے کیونکہ اس پر کوئی قطعی دلیل موجود نہیں مگر کچھ مصادر کا حصول علم ممکن ہے اور معاشرے کی اصلاح کےلیے قرآن مجید نے جو اقدامات کیے ہیں ان کی معرفت حاصل ہوگی اس اعتبار سے کہ قرآن واقعات اور حادثات کے مطابق تدریجا نازل ہوا ہے۔
قرآن مجید کا ایک ہی دفعہ نزول کے بجائے تدریجی نازل ہونا اہمیت کا حامل ہے چونکہ یہ جن حالات کا علاج و معالجہ کرتا ہے ان پر براہ راست اثر انداز ہوجاتا ہے،اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلاً] (الإسراء: 106)، "اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ تو مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ اتارا ہے۔"
چونکہ یہ ہدایت،تربیت اور زندگی دینے والی کتاب ہےتو اس حساب سے اس کا تدریجی ہونا لازمی ہے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے یہ کتاب صحیح وقت میں صحیح خوراک کے ساتھ نہ کم نہ زیادہ، نہ وقت سے پہلے نہ وقت کے بعد علاج کرتی ہے،اسی طرح آہستہ سے قرآن مجید کا اس امت کے ہاتھ کو تھام لینا یہ سبب بنے گا کہ یہ امت دو دہائیوں بعد اپنے آپ کو عزت،کمال ،عظمت اور طاقت کی بلند پر پائے گی۔
([1]) الميزان في تفسير القرآن: 6 / 84 في تفسير الآية، عن كتاب الدر المنثور.