قرآن مجید میں داستانیں دہرانے کا فائدہ
قرآن مجید میں داستانیں دہرانے کا فائدہ
امت کے افکار،عقاید اور سلوک میں اگر کوئی خلل موجود ہے یا کسی خراب حالت کو سدھارنا ہے یا کوئی نقص ہے اسے دور کرنا ہے تو اس پر مسلسل اور استمرا رکے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے،ایک دفعہ اس کے علاج معالجے پر توجہ دینا کافی نہیں، آپ کو قرآن میں بعض انبیاء کے قصے ملیں گے جو دس دس دفعہ تکرار ہوچکے ہیں لیکن ہر ایک کا ذائقہ، اثر اور کردار ھدف کے حصول میں مختلف ہے اگرچہ سب کا مضمون ایک ہی کیوں نہ ہو۔
جب ہم مردوں کےسامنے عورت کی بے پردگی کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں جو شیطان کا روپ دھار چکی ہے ، شیطان جو لوگوں کو اللہ تعالی کی اطاعت اور ذکر سے روک دیتا ہے،وہ ابلیس کے اس قول کی حقیقی مصداق بن چکی ہے: [لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ، ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ] (الأعراف: 16 - 17)،" کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا، اور تو اکثر کو ان میں سے شکرگزار نہیں پائے گا۔"
یہ فاسق اور فاحشہ عورتیں مردوں کو گمراہ کرنے کےلیے مختلف طریقے اپناتی ہیں اور انہیں گناہ میں ڈال دیتی ہیں، جیسے بن سنور کر راستے میں بیٹھ جانا،یونیورسٹیز کے اندر پرکشش حرکتیں،اپنے جسم کی نمائش،کھیل اور فن کے نام سے فحش مناظر پیش کرنا۔ جب ہم معاشرے کی اس مہلک بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اس کے علاج معالجہ کے اوپر کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے: منحرف معاشرتی مظاہر پر ایک کتاب، خواتین کے مسائل پر ایک کتاب ،معاشرے کی اخلاقیات کو ختم کرنے میں کھیل اور فن کے اثرات پر ایک کتاب، یونیورسٹی کے طلباء کے مسائل ، ان کے تحفظات اور امنگوں پر ایک کتاب ، جوانی پر انہی مضامین کے ساتھ ایک کتاب، خاندانی فقہ پر ایک کتاب جس میں شریعت کی تعلیمات کے مطابق خاندانی اور معاشرتی تعلقات شامل ہوں وغیرہ، کیونکہ یہ ایک بہت ہی سنگین مشکل ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں یہ موجود ہےاور ہر شعبے میں اس کی شکل و صورت دوسرے شعبے میں موجود شکل و صورت سے مختلف ہوتی ہے، معاشرے کے جن طبقات کو یہ کتابیں مخاطب کرتی ہیں ان سے یہ مشکلات کم نہیں، نتیجے کے طور پر جب تمام جہات سے اس پر کام ہوگا تو اس کی صورت بھی کامل اور واضح ہوجائے گی([1]).
۸۔ انسان کی ہدایت کےلیے مختلف طریقے استعمال کرنا اور چونکہ انسان کےلیے تین عالم ہیں ؛ نفس ،عقل اور قلب لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت انسان کبھی ان تینوں پر مسلط ہوجاتا ہے اور ان تینوں کے ذریعے کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو اللہ تعالی کی اطاعت کے قریب کردے اور میں نے اس حوالے سے اپنے دروس میں کافی کچھ بیان کیا ہے۔(پس قرآن کی طرف لپٹتے ہیں).
اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فطرت کے بارے میں بات کرتا ہے اور اس طرف متوجہ کرتا ہے اورکچھ احادیث میں قرآن کے نزول کی وجہ(ليستثير كوامن فطرتهم)،"انسان میں پوشید فطرت کو جگانا بتایا گیا ہے۔"وجدان اس کی واضح اور معتبر دلیل ہے اور اس میں کسی قسم کی بحث اور مناقشہ نہیں،،پس اللہ تعالی کی بات غور سے سنو جب وہ اثبات صانع کے سلسلے میں فطرت سے مخاطب ہے: [أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ، أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ]،[أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ، أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ]،[أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاء الَّذِي تَشْرَبُونَ، أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ]،[أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ، أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِؤُونَ](الواقعة: 58 - 72)،
"بھلا دیکھو (تو) (منی) جو تم ٹپکاتے ہو۔کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں۔بھلا دیکھو جو کچھ تم بوتے ہو۔کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔بھلا دیکھو تو سہی وہ پانی جو تم پیتے ہو۔کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں۔بھلا دیکھو تو سہی وہ آگ جو تم سلگاتے ہو۔کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔"
اللہ تعالی تعالی فرماتا ہے جب وہ گنہگار انسان کی مذمت کرتا ہے: [هَلْ جَزَاء الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ] (الرحمن: 60)،"اور جب انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے غافل ہوتا ہے تو فرماتا ہے : [وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا] (إبراهيم: 34)." اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے،"
([1]) تم إصدار كتيبات ونشرات تغطي كل هذه المحاور المذكورة بفضل الله تبارك وتعالى.