[وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ، إِنَّ اللّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ]

| |عدد القراءات : 570
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

[وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ، إِنَّ اللّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ]


(النحل: 127 - 128)، "اور صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے، اور ان پر غم نہ کھا اور ان کے مکروں سے تنگ دل نہ ہو۔بے شک اللہ ان کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں۔"

[لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ أَذىً كَثِيراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فإن ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ] (آل عمران: 186)، "البتہ تم اپنے مالوں اور جانوں میں آزمائے جاؤ گے، اور البتہ پہلی کتاب والوں اور مشرکوں سے تم بہت بدگوئی سنو گے، اور اگر تم نے صبر کیا اور پرہیزگاری کی تو یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔"

سب سے لطیف تعبیر اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: [وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا] (الطور:48)،" اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر، کیونکہ بے شک آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔"

قرآن  کی بہت ساری سورتوں  کا ہدف نزول یہی تھا جیسے سورہ یوسف اس  وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ(صلى الله عليه وآله)  ہجرت  سے پہلے مکہ میں  ایک مشکل دور سے گزر رہے تھے جب ان کے یارو مدد گار ابو طالب اور حضرت خدیجہ(عليهما السلام) فوت ہوئے اور عملی طور پر قریش کے اسلام سے مایوس ہوگئے اور مکہ   کو چھوڑ کر کہیں اور پناہ لینے کی کوشش کی  جیسے طائف لیکن اس کی توفیق نہ ہوئی اور مومنین پر دنیا تنگ کر دی گئی، اس وقت ان پر سورہ یوسف نازل ہوگئی  اور ان کو یہ قصہ سنایاکہ کیسے  حضرت یوسف کے بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی کے خلاف سازش کی اور اسے گڑھے میں پھینک دیا ، جس کا مطلب فطری اسباب کے مطابق موت ہے۔ لیکن خداتعالیٰ ایک قافلہ بھیجتا ہے جو اسے بچاتا ہے اور اسے بادشاہ مصر کے گھر بیچا جاتا ہے پھر وہ عزیز مصر کی بیوی اور دوسری عورتوں کی سازش کا شکار ہوجاتا ہے پھر اسے زندان میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالی اسے زندان سے نجات دیتا ہے اور اسے خوابوں کی تعبیر سکھاتا ہے اور پھر اس کی برکت سے  وہ مصر کا خزانچی بن جاتا ہے اور بعد میں اپنے اچھے اخلاق اور حسن تدبیر سے مصر کا بادشاہ بن جاتا ہے، یہاں پر اس کے سازشی بھائی پہنچ جاتے ہیں، اس کے سامنے ذلیل ہوجاتے ہیں اور یہ اپنے  ،مہربان اور بڑے دل سے انہیں معاف کردیتا ہے اور ان سے کہتا ہے: [لاَ تَثْرَيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ] (يوسف: 92)، " کہا آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمہیں بخشے، اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔" اور خدا اسے اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ دوبارہ جوڑ دیتا ہے۔

رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) نے انہیں کلمات کا استعمال کیا  جب قریش نے ان کے ساتھ بھی یہی کیا  یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس کی مدد کی  اور اسے ان کے گھر مکہ میں ان پر  فتح نصیب کی تو  آنحضرت نے اپنے بھائی  یوسف کی بات دہرائی اور کہا(صلى الله عليه وآله): (لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء)" آج تمھارے اوپر کوئی الزام نہیں تم آزاد ہو۔" یہ ان سے پوچھنے کے بعد بولا کہ تم کیا سوچ رہے ہو کہ  میں تمھارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں تو انہوں نے کہا: (أخ كريم وابن عم كريم)( )، اور یہ ان کی طرف سے آنحضرت (صلى الله عليه وآله)کی بلند ذات کا اقرار تھا۔

۶۔  لوگوں کو  سیکھنے سکھانے اور سوچنے کی ترغیب دینا اور ہر اس چیز کی تشویق کرنا جو انسان کو اللہ تعالی کے قریب کردے اور اس کے علم میں اضافہ کردے۔کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں  پانچ سو  سے زیادہ  آیتیں ہیں جو  علم  اور تفکر کی  ترغیب دلاتی ہیں ، علماء کی تعریف کرتی ہیں اور  جہل و جاہلوں کی مذمت کرتی ہیں اور ان کے انجام کو بیان کرتی ہیں،یہاں تک کہ  قرآن نے  صفت علم ،فقہ اور اللہ تعالی کی معرفت کو  دشمنوں کے مقابلے میں مومنین کی قوت کو دس برابر قرار دیا ہے اور مندرجہ ذیل آیت سےاس بات کا استفادہ کیا گیا ہے: [يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ] (الأنفال: 65)" اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے۔" جبکہ صبرفتح کے اہم اراکین میں سے ہے اس کو  قوت میں ایک برابر اضافہ قرار دیا۔ اللہ تعالی کا قول ہے:

: [الآنَ خَفَّفَ اللّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً فإن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُواْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ](الأنفال: 66)." اب اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے، پس اگر تم سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر ہزار ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔"