قرآن ہمارے امراض کا علاج ہے
قرآن ہمارے امراض کا علاج ہے
پس آیئے ہم سب مل کر انسانی امراض کے علاج معالجے اور انسان کو روحانی کمال تک پہنچانے کےلیے قرآن کی قابلیت اور قدرت سے استفادہ کریں، کیوں کہ قرآن ہمیشہ باقی رہنے والی وحی ہے اور روز قیامت تک بابرکت ہے، اور اس کے ابدی ہونے کی ایک دلیل اس کی بیماریوں کی تشخیص دینے کی اور ہر زمان و مکان میں ہر معاشرے کےلیے دواء مہیا کرنے کی قدرت ہے۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم قرآن کی ان صلاحیتوں کی طرف اشارہ کریں اور اس سے اپنے انفرادی اور اجتماعی امراض کےلیے دعا کی التماس کریں۔
جب امت تفرقہ اور انتشار کا شکار ہو تو اس کی دواء اللہ تعالی کا یہ قول ہے: [وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ](آل عمران: 103)،"اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔" البتہ اس معرفت کے بعد کہ حبل اللہ سے مراد حدیث شریف کے مطابق قرآن اور اہل البیت (عليهم السلام) ہیں۔
اور جب امت خود اور ڈر کا شکار ہو تو پھر اس کا علاج اللہ تعالی کا یہ قول ہے: [أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ] (النساء: 78)" تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو،"
،[قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فإنه مُلاقِيكُمْ](الجمعة: 8). " کہہ دو بے شک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو وہ تو ضرور تمہیں ملنے والی ہے۔"
لیکن اگر معاشرہ مصیبتوں اور بلاوں کا شکار ہو تو اس کی شفاء اللہ تعالی کے اس قول میں ہے: [أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ](البقرة: 214).
" کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔"
اور جب لوگ مایوسی کا شکار ہوں تو ان کا علاج اللہ تعالی کا یہ قول ہے: [وَلاَ تَيْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ] (يوسف: 87)،" اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔"
[وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ] (الحجر:56)،" کہا اپنے رب کی رحمت سے نا امید تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔"
[إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الأَشْهَادُ](غافر: 51). "ہم اپنے رسولوں اور ایمانداروں کے دنیا کی زندگی میں بھی مددگار ہیں اور اس دن جب کہ گواہ کھڑے ہوں گے۔"
اور اگر ہم دوسروں پر یا وقت پر انحراف اور ناانصافی کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ تعالی کا یہ قول پڑھنا چاہیے: [وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ]( النساء: 79) "اور تجھے جو برائی پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے"
[إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ](الرعد: 11)، "بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔"
[وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّهُ وَلَكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ](آل عمران: 117)." اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔"
اور اگر لوگ کثرت کے پیچھے بھاگیں اور انک حالت یہ ہو(حشر مع الناس عيد) بغیر کسی بصیرت اور نظریئے کے؛ تو اس کا جواب قرآن نے دیا ہے: [وَمَا أكثر النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ] (يوسف: 103) "اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں خواہ تو کتنا ہی چاہے۔"
[وَإِن تُطِعْ أكثر مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ](الأنعام: 116)" اور اگر تو اکثریت کا کہا مانے گا جو دنیا میں ہیں تو تجھے اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے، وہ تو اپنے خیال پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔"
[وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ] (يوسف: 106). " اور ان میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مانتے بھی ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔"
معاشرے کے امراض میں سے ایک جس کا قرآن نے علاج کیا ہے(افواہ)( ) ہے۔ یہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے جو معاشرے کو توڑ کر رکھ دیتی ہے،اس کے وجود کو ہلا دیتی ہے اور اس کے افکار کو الجھا دیتی ہے،پس اس کے بارے میں اور اس کے علاج کے بارے میں کہا گیا ہے: