آنحضرت (صلى الله عليه وآله): (ولو عصيت لهويتُ)" اگر میں بھی گناہ کرتا تو گر جاتا"۔

| |عدد القراءات : 447
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

آنحضرت (صلى الله عليه وآله): (ولو عصيت لهويتُ)([1])" اگر میں بھی گناہ کرتا تو گر جاتا"۔

پس ان لوگوں کی کیا قدر ہے جو اس(صلى الله عليه وآله)  کے نام پر تجارت کرتے ہیں جبکہ وہ اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟

جاہلیت کی علامتوں میں سے ایک اقدار کا فرق ہے جن کے توسط سے انسان  آپس میں ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے ہیں اور وہ عبارت ہیں اقدار الہی اور اقدار شیطانی سے۔ قرآن  فرماتا ہے: [إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ]( الحجرات: 13) "بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے"،[قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ]( يونس: 58)" کہہ دو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے سو اسی پر انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو جمع کرتے ہیں۔" جبکہ جاہلیت مال، شان وشوکت اور اولاد میں کثرت کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتی ہے۔[أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ، حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ]( التكاثر: 1-2)، "تمہیں حرص نے غافل کر دیا۔یہاں تک کہ قبریں جا دیکھیں۔" [وَقَالُوا نَحْنُ أكثر أَمْوَالاً وَأَوْلاداً وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ]( سبأ: 35)، "اور یہ بھی کہا کہ ہم مال اور اولاد میں تم سے بڑھ کر ہیں اور ہمیں کوئی عذاب نہ دیا جائے گا۔" اور یہ چیزیں اتنی واضح ہیں کہ مجھے مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے ، مندرجہ ذیل دو آیایتیں  اس تقابل کو  اور واضح کرتی ہیں: [زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ، قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ](آل عمران: 14 - 15). "لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔کہہ دے کیا میں تم کو اس سے بہتر بتاؤں، پرہیزگاروں کے لیے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک عورتیں ہیں اور اللہ کی رضا مندی ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔"اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَى إِلا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ جَزَاء الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ] (سبأ: 37)." اور تمہاے مال اور اولاد ایسی چیز نہیں جو تمہیں مرتبہ میں ہمارے قریب کر دے مگر جو ایمان لایا اور نیک کام کیے، پس وہی لوگ ہیں جن کے لیے دگنا بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا اور وہی بالاخانوں میں امن سے ہوں گے۔"

جاہلیت کی مشترکہ خصوصیات میں سے ایک اخلاقی برائیاں ہیں جن میں سے بہت زیادہ واضح شراب پینا، ناپ تول میں کمی کرنا، ملاوٹ، جھوٹ اور ہم جنس پرستی ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ]( العنكبوت: 29) "اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو،"،[وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ] (الأعراف: 85)، "سو ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو"۔[وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ، الَّذِينَ إذا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ]( المطففين: 1-3)،" کم تولنے والوں کے لیے تباہی ہے۔وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا کریں۔اور جب ان کےلیے ناپتے ہیں یا تولتے ہیں تو  گھٹاتے ہیں۔"بلکہ انصاف کرنے والے لوگوں کا  یہ مذاق اڑاتے ہیں:

[وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلاَّ أَن قَالُواْ أَخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ](الأعراف: 82)، "اور اس کی قوم نے کوئی جواب نہیں دیا مگر یہی کہا کہ انہیں اپنے شہر سے نکال دو، یہ لوگ بہت ہی پاک بننا چاہتے ہیں۔"

جعفر ابن ابی طالب نے تاریخ میں اپنا نام ثبت کروایا  کہ وہ ان افراد میں سے ہے جنہوں نے   زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر شراب اور زنا حرام قرار دیا تھا۔اخلاقی برائیوں میں سے بعض طاقتور کا  کمزور  پر ظلم کرنا، اخلاق کو نابود کرنا اور الہی نظریات کو چھوڑکر انسانی نظریات اور منافع شخصی ہیں۔آج کی تہذیب پوری کی پوری اقوام کو تباہ کررہی ہے،مصالح کے نام پر نسلوں کو برباد کررہی ہے اور یہ مفادات  ہر چیز سے زیادہ ان کےلیے اہم ہیں ، جبکہ ہدف حقیقی اللہ تعالی کی رضا  اور آخرت کی کامیابی ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کے بر خلاف اور جاہلیت کی طرف رجوع ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَطَآئِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لاَ يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ] (آل عمران: 154)، " اور بعضوں کو اپنی جان کی فکر خھا رہی تھی اللہ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے کر رہے تھے، کہتے تھے ہمارے ہاتھ میں کچھ کام (اختیار) ہے، کہہ دو کہ سب کام (اختیار) اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ اپنے دل میں چھپاتے ہیں جو تیرے سامنے ظاہر نہیں کرتے، کہتے ہیں اگر ہمارے ہاتھ میں کچھ کام (اختیار) ہوتا،"

یہی ان کا ہدف ہے اور اسی کےلیے وہ جی رہے ہیں۔

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک امر بمعروف اور نہی از منکر کو ترک کرنا ہے بلکہ یہ اصل سبب ہے جس کی طرف رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے  متوجہ کیا ہے: (كيف بكم إذا فسدت نساؤكم وفسق شبابكم ولم تأمروا بالمعروف ولم تنهوا عن المنكر؟ فقيل له: ويكون ذلك يا رسول الله؟ فقال: نعم، وشر من ذلك، كيف بكم إذا أمرتم بالمنكر ونهيتم عن المعروف؟ فقيل له يا رسول الله ويكون ذلك؟ فقال (صلى الله عليه وآله): وشر من ذلك، كيف بكم إذا رأيتم المعروف منكراً والمنكر معروفاً)([2]).

" آپ کا کیا حال ہوگا جب آپ کی خواتین فاسد ہوجایں گی، اور آپ کے جوان فاسق ہوجایں اور آپ امر بمعروف اور نہی از منکرسے دوری اختیار کرو گے؟ کہا گیا تو کیا ایسا ہوگا؟ آپ نے فرمایا:آپ کا کیا حال ہوگا جب آپ کو برائی کا حکم دیا جائے گا اور آپ کو اچھائی سے روکا جائے گا؟ کہا گیا یا رسول اللہ ایسا ہوگا؟ تو آپ (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: آپ کا کیا حال ہوگا جب برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برا سمجھا جائے گا؟"

آج کل کے معاشرے کا یہ حال ہوا ہے۔اس میں سب سے زیادہ قصور وار دینی علما  اور قرآنی تعبیر کے مطابق ربانی ہیں جنہو ں نے اپنا دینی وظیفہ انجام دینے میں کوتاہی کی ہے اور بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں،ربانیوں کا اتم مصداق آپ ہو اے حوزہ علمیہ کے طلبا اور فضلاء۔اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَتَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ، لَوْلاَ يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ] (المائدة: 62 - 63)، " اور تو ان میں سے اکثر کو دیکھے گا کہ گناہ پر اور ظلم پر اور حرام کھانے کے لیے دوڑتے ہیں، بہت برا ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔ان کے مشائخ اور علماء گناہ کی بات کہنے اور حرام مال کھانے سے انہیں کیوں نہیں منع کرتے، البتہ بری ہے وہ چیز جو وہ کرتے ہیں۔"

[كَانُواْ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ، تَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ](المائدة: 79-80)." آپس میں برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کر رہے تھے، کیسا ہی برا کام ہے جو وہ کرتے تھے۔تو دیکھے گا کہ ان میں سے بہت سے لوگ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں، انہوں نے کیسا ہی برا سامان اپنے نفسوں کے لیے آگے بھیجا اور وہ یہ کہ ان پر اللہ کا غضب ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔"

یہ اسلام سے دور معاشرے کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ کافروں سے دوستی ہے۔ اس تقصیر کے بارے میں امیر المومنین (عليه السلام) فرماتے ہیں: (أما بعد فإنه إنما هلك من كان قبلكم حيثما عملوا من المعاصي ولم ينههم الربانيون والأحبار عن ذلك، وأنهم لما تمادوا في المعاصي نزلت بهم العقوبات فأمروا بالمعروف ونهوا عن المنكر واعملوا أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لن يقربا أجلاً ولن يقطعا رزقاً)([3]). بے شک تم سے پہلے جنہوں نے گناہ کیے وہ ہلاک ہوگئے اور ربانیوں اور راہبوں نے اس سے نہیں روکا، اور جب یہ لوگ گناہوں میں حد سے آگے نکل گئے تو ان پر مصیبتیں نازل ہوگئیں تو انہوں نے اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اور یہ کریں چونکہ امر بمعروف اور نہی از منکر موت کو ہرگز قریب ہونے نہیں دیتے اور رزق کو ہرگز قطع ہونے نہیں دیتے۔"

اس فریضہ کو انجام دیئے بغیر مومنوں کی اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کو ئی قیمت و اہمیت نہیں ہوگی بلکہ ان کے دشمنوں کے نزدیک بھی کوئی قیمت نہیں ہوگی، تو قریش میں توحید پرست تھے یہ لوگ احناف تھے جنہوں نے بتوں کی عبادت کو مسترد کردیا اور خود کو اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف کرلیا، لیکن مشرکین کے ہاں بھی ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور انہیں اپنی موجودگی کی کوئی بھی   پرواہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے یہ عظیم فریضہ چھوڑ دیا تھا۔

جبکہ حقیقت میں اس فریضے کو انجام دینا مسلم معاشرے کی صفات میں سے ہے: [كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ](آل عمران: 110) ، "تم سب امتوں میں سے بہتر ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہیں اچھے کاموں کا حکم کرتے رہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو،"

[وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ، الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأُمُورِ] (الحج: 40 - 41)، " اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا، بے شک اللہ زبردست غالب ہے۔وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں، اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔"

[وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ] (آل عمران: 104)، "اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے، اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔"

[وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ](التوبة: 71)، " اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔"

اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت ہیں لیکن ہم یہاں پر   انہیں تفصیل سے بیان کرنے کے مرحلے میں نہیں ہیں چونکہ یہ بحث صرف اشارات پر ہی مبنی ہے اور بس  ان امور میں  غور و فکر کےلیے ایک دروازہ کھولنے کےلیے ہے جو  اپنے آپ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے  ہزار باب اور کھول دے گا ۔

زمانہ جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک خرافات اور  جھوٹے افسانے ہیں ، مثلا  عرب کوے اور الو کو  نحس اور بد شگون سمجھتے تھے اور آج مغرب بغیر کسی وجہ کے ۱۳ نمبر کو بدشگون سمجھتا ہے اور مارکیٹ میں نجومیوں اور کاہنوں کا قبضہ ہے،آج ہم دیکھتے ہیں  کہ لوگ پامسٹس، نجومی, علم رمل جاننے والے اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا معاشرے میں استقبال کرتے ہیں اور یہ سادہ لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔

جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک مختلف طریقوں سے لوگوں کو قرآن سے دور کرنا ہے۔ النضر بن الحارث ان لوگوں میں سے ایک تھا  جو فارس  گئے وہاں پر بادشاہوں کے بارے میں  معلومات جمع کیں،وہ رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) کا پیچھا کرتا تھا جس  محفل میں رسول خدا گفتگو فرماتے تھے یہ بھی  بات کرتا تھا اور پھر لوگوں سے پوچھتا تھا میری باتیں زیادہ اچھی ہیں یا محمد کی؟وہ قرآن کے بارے میں کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں جنہیں اس نے لکھ کر رکھی ہیں پس وہی اس پر صبح اور شام پڑھی جاتی ہیں یا جھوٹی باتیں ہیں  یا جب رسول خدا (صلى الله عليه وآله)  قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے تو وہ زور سے تالیاں بجاتے تھے تاکہ اسے نہ سن سکیں اور قرآن ان کے موقف کی یوں توصیف کرتا ہے: [وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ]( فصلت: 26)، "اور کافروں نے کہا کہ تم اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں غل مچاؤ تاکہ تم غالب ہو جاؤ۔" اللہ تعالی فرماتا ہے: [وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ]( القمر: 2)، "اور اگر وہ کوئی معجزہ دیکھ لیں تو اس سے منہ موڑ لیں اور کہیں یہ تو ہمیشہ سے چلا آتا جادو ہے۔"

اور آج کی جدید جاہلیت بھی یہی کا م کرتی ہے، قرآن کو انہیں اوصاف سے متصف کرتی ہے کہ یہ محمد کا  کلام ہے یہ ایک فوق العادہ نابغہ انسان کی باتیں ہیں ، کوئی وحی الہی نہیں ہے۔ اور انہوں نے قرآن کے تضادات  تحریر کرنے کی کوشش کی لیکن جب اس کوشش میں ناکام ہوگئے اور قرآن نے انہیں پسپا کردیا اور اپنا وجود ان پر مسلط کردیا تو  پھر انہوں نے اپنی خباثت،مکاری اور دھوکہ دہی کا استعمال کرکے لوگوں کو قرآن کے مطالب اور اس کی حقیقت سے دور کردیا اور اس کی جہت  ہی تبدیل کردی اور اس کو ترانوں اور گانوں  کی شکل میں پڑھا اور سننے والے اس کو سن کر چیختے چلاتے (الله الله يا شيخ) ، اسی طرح قرآن سے تعویز بنا  کر گلے میں لٹکایا یا اپنے گھروں میں لٹکایا وغیرہ۔ اور یہ طریقہ النضر بن الحارث  اور اس جیسوں کے طریقے سے زیادہ خطرناک  ہے۔

جاہل لوگوں کی نمایاں حرکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ان رسوم و رواج کی پیروی نہیں چھوڑتے جو ان کو ان کے آباو اجداد سے وراثت میں ملی ہیں اور ان پر سختی سے پابند ہیں اور انہیں چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے چاہے ان کے خلاف دلیل و حجت بھی قائم ہو۔اور یہ نتیجہ  ہےان کے افکار کی شدت اور عدم سلامتی کا   اور ان کے جذبات کا جو کہ مسلسل  نسل در نسل  اپنے آباو اجدا کے رسوم و رواج کے کنٹرول میں ہیں اور س قدر ان کے لیے مقدس ہیں کہ ان  کا ترک کرنا ان کےلیے ناممکن ہوچکا ہے۔قرآن نے یہ معنی بہت زیادہ تکرار کیا ہے اس حد تک کہ ہم  اس سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس مشکل کا تقریبا تمام انبیائے کرام نے سامنا کیا ہے:

 [وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ] (البقرة: 170)" اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھی راہ پائی ہو؟"

 [إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءهُمْ ضَالِّينَ، فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ] (الصافات: 69 - 70)،" کیوں کہ انہوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا تھا۔پھر وہ ان کے پیچھے دوڑتے چلے گئے۔"

[قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ] (الأعراف: 70)،" انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم ایک اللہ کی بندگی کریں اور ہمارے باپ دادا جنہیں پوجتے رہے انہیں چھوڑ دیں، پس وہ چیز لے آ جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے اگر تو سچا ہے۔"

 [بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ، وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ، قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ آبَاءكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ]( الزخرف: 22 - 24)

"بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور انہیں کے ہم پیرو ہیں۔اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی گاؤں میں بھی کوئی ڈرانے والا بھیجا تو وہاں کے دولت مندوں نے (یہی) کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا اور ہم انہیں کے پیرو ہیں۔رسول نے کہا اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بھی بہتر طریقہ لاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا، انہوں نے کہا جو کچھ تو لایا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔"

آخری دو آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں  کہ اس مشکل اور پریشانی کا  ہر اس آدمی نے سامنا کیا ہے جس نے اپنے معاشرے کو آزادی دلانے کی کوشش کی  اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ تعالی  فرماتے ہیں:

[وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِك](الزخرف: 22-24)،

یہ صرف انبیاء کے ساتھ مختص نہیں تھا۔اس مسئلے میں  آج کی جاہلیت زمانہ جاہلیت کی جاہلیت سے مختلف نہیں۔اس کے اوپر شواہد بہت زیادہ ہیں اور ہمارے معاشروں نے اس کا سامنا کیا ہے،بقول ایک حوزوی مفکر کے (النزعة الاستصحابية) کا  بہت سامنا کیا ہے۔

جاہلیت کی علامتوں میں  سے ایک امام واقعی کی معرفت کا نہ ہونا ہے ،(من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية)([4]) " جو بھی مرا اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر تو جاہلیت کی موت مرا۔"۔ معرفت سے مرد فقط نام جاننا نہیں ہے بلکہ امام  کی نسبت اپنی ذمہداریوں کی  شناخت ہے اور ان پر عمل کرنا ہے اور اس حوالے سے  امام زمانہ(أرواحنا له الفداء) کی نسبت ہماری کوتاہی واضح ہے۔اس منقول دعا نے اس جاہلیت کو بیان کیا ہے:

 



([1]) بحار الأنوار: 22 / 467.

([2]) الكافي: 5/59، باب: الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر.

([3]) نهج البلاغة: الخطبة (27).

([4]) كمال الدين وتمام النعمة: 409.