قرآن کے بعض اوصاف کی تشریح
قرآن کے بعض اوصاف کی تشریح
لیکن یہ مختصر اور اجمالی شرح قرآن کریم کی صفات کےلیے کافی نہیں ہے،لہذا میں ضروری سمجھتا ہوں ان صفات میں سے بعض کی میں تفصیل سے تشریح کروں اور بعض کو طولانی تفاسیر کےلیے چھوڑ دوں،وہ صفات جو کہ مذکورہ آیات میں بیان ہوئی ہیں۔اور یہ اوصاف میں صرف قرآن کے تعارف کےلیے بیان نہیں کرتا بلکہ اہل بیت (عليهم السلام) کے تعارف کےلیے بھی ذکر کررہا ہوں چونکہ یہ قرآن کا عدل ہیں اور درخت کی وہ دو شاخیں ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتیں اور جب قرآن حق بات کرتا ہے تو یہ حق کے ساتھ ہوتے ہیں اور حق ان کے ساتھ ہوتا ہے اور باطل ان کے پاس نہیں آتا چونکہ وہ معصوم ہیں اور اگر کتاب قیم اور مہیمن ہے تو ان کےلیے بھی لوگوں پر ولایت اور حکومت حاصل ہے، یہ ان کے امام اور رہبر ہیں ،ان سے زیادہ ان کا ان کے اوپر حق ہے وغیرہ:
مبارک
یعنی زیادہ برکت والا۔قرآن مجید کئی جہات سے با برکت ہے۔اپنے محل صدور کے اعتبار سے وہ مبارک ہے چونکہ خدا وند تبارک و تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے جو کہ متفضل، منان اور مفیض نعمات ہے جن نعمات کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ اور اسی طرح وہ محل نزول کے اعتبار سے بھی مبارک ہے جو کہ قلب رسول الله (صلى الله عليه وآله) ہے جسے خدا نے تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔اسی طرح سے قرآن کریم اپنے آثار میں بھی برکت والا ہے، اس میں ہدایت، نیکی اور دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔اس میں انسانی زندگی کا قوام اور نظام ہے اور اس میں انسانی زندگی کا تحفظ ہے،اس میں سلامتی اور طمانیت ہے۔اسی طرح سے اپنے حجم میں بھی یہ با برکت ہے، یہ ایک ہی کتاب ہے مگر تمام ارباب علم و معرفت اس سے سیراب ہوتے ہیں اور یہ کم نہیں ہوتا ؛ اصولی ،فقیہ،نحوی،ادیب،مفکر، سیاستدان،ماہر اقتصاد، سوشل سکالر، ڈاکٹر ،قانوندان اور حکمران سب اسی سے لیتے ہیں،اس کی آیتوں سے استدلال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ دیتا ہی رہتا ہے اور یہ دلیل ہے اس بات پر کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے، بے شک ممکن نہیں کہ یہ سارے مطالب اور علوم متعدد کتابوں میں بھی جمع ہوں، جن لوگوں نے اس سے ہدایت حاصل کی ان سب کےلیے یہ مبارک ہے، اس کی برکت سے ان کے دل و دماغ منور ہوگئے۔
عزیز
یعنی اس تک پہنچنا مشکل ہے چونکہ وہ کتاب مکنون میں ہے اور اس کے حقائق بہت بلند ہیں اور لوح محفوظ میں محفوظ ہیں اور یہ کلمات امثال ہیں ان معانی کو انسان کےاذہان کے قریب کرنے کےلیے جو کہ مادیات سے مانوس ہیں اور ان حقائق کا حصول ان کےلیے دشوار ہے، ہاں ، البتہ ان حقائق تک وہ پہنچ سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے پاک کیا ہے اور ان سے ہر قسم کی نجاست اور پلیدگی دور کی ہے اور وہ ہیں آل محمد (صلى الله عليه وآله)۔آپ نے امیر امومنین (عليه السلام) سے سنا ، وہ فرماتے ہیں:
إننا لا نملك علماً أكثر من فهم لهذا الكتاب، وهو عزيز بمعنى يندر وجود مثله وهو كذلك لأنه كلام من ليس كمثله شيء، وهو عزيز أي ممتنع عن أن ينال بسوء، فيكون بمعنى الآية الشريفة: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ] (الحجر:9)، وهو عزيز بمعنى أنه قاهر وغالب ومتسلط لأنه كلمة الله وكلمة الله هي العليا فهو يعلو ولا يعلى عليه وموقعه دائماً التسلط والحاكمية على العباد والتصرف في شؤونهم، وهو عزيز بمعنى مطلوب كما قيل كل موجود مملول وكل مفقود مطلوب، وهذا الكتاب مطلوب لكل من أراد الوصول إلى الله تبارك وتعالى.
ہمیں اس کتاب کی فہم سے زیادہ کوئی اور علم نہیں ہے ،اور وہ عزیز ہے یعنی اس جیسا کم ہے اور وہ ایسا ہی ہے کیونکہ وہ اس کا کلام ہے جس کی مانند کوئی چیز نہیں، وہ عزیز ہے یعنی برائی اس تک نہیں پہنچ سکتی،چونکہ وہ اس آیت کا مصداق ہے: [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ] (الحجر:9)" بے شک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں" وہ عزیز ہے یعنی وہ قاہر، غالب اور متسلط ہے چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے،وہ سب پر غالب ہے اس پر کوئی چیز غالب نہیں، اس کا مقام ہمیشہ تسلط اور حاکمیت ہے، یہ ان کے امور میں تصرف کرتا ہے، وہ عزیز ہے یعنی مطلوب ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے جو بھی موجو د ہےسبب خستگی اور ناراحتی ہے اور جو کچھ کھوگیا ہے وہ مطلوب ہے اور یہ کتاب ہر اس شخص کےلیے مطلوب ہے جو اللہ تبارک و تعالی تک پہنچنا چاہتا ہے۔
مجید
راغب نے مفردات میں کہا ہے:المجد یعنی عظمت اور سخاوت میں وسعت، جب اونٹ کسی وسیع و عریض چراگاہ میں ہوتا ہے تو بولا جاتا ہے: (مَجدَتْ الإبل)،پس قرآن کو بھی مجید کہا جاتا ہے چونکہ اس میں کثرت سے تمام دینی اور دنیوی مکارم پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے اس کی ایک صفت کریم ہے: [إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ] ( الواقعة: 77).اس کے فیض کی وسعت اور اس کے وجود کی کثرت کی وجہ سے ہم نے صفت مبارک کی شرح میں ان وسیع آثار کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قيّم
قیم، قیمومہ سے ہے۔یہ کتاب قیم ہے تاکہ ان کی سرپرستی ، قیادت و رہبری کرے اور ان کے مصالح کی طرف ان کی رہنمائی کرے اور ان کےلیے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے سارے اسباب فراہم کرے جیسا کہ گھر کا سرپرست اپنی فیملی کےلیے یا معاشرے کےلیے کرتا ہے،اور قرآن کی سرپرستی تمام دوسری سرپرستیوں پر بھاری ہے عقاید میں بھی اور دوسرے احکام میں بھی،ان سب میں یہ ان پر مقدم ہے،ان کا قائد ہے اور وہ اس کے تابع اور ماتحت ہیں اور ان سب پر اس کو کنٹرول حاصل ہے،پس اس زندگی میں ولایت اور سرپرستی صرف قرآن کو حاصل ہے اگر یہ انسانیت اپنی سعادت اور کامیابی چاہتی ہے اور یہ کامیابی قرآن سے دوری اختیار کرکے اور عقل کو خواہشات نفسانی اور مفادات کی اسیر بناکر حاصل نہیں کی جاسکتی۔اور آیت:[وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا] (الكهف:1) نے اس قیمومیت کی یوں توصیف کی ہے کہ اس میں کسی قسم کا نحراف، نقص، کمی اور خلل نہیں ہے ، پس انسان پر قیمومیت کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دوسروں کو مکمل کرنے سے پہلے خود کو مکمل کرے چونکہ جیسا کہ جاتا ہے فاقد شئی معطی شئی نہیں ہوسکتا۔انسان پر ولایت صرف اس کو حاصل ہے جو ہر قسم کے نقص سے پاک ہو اور یہ صرف قرآن اور اہل بیت ہیں ، معاشرے کی سرپرستی ان کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں اور اس حوالے سے بہت ساری احادیث ہیں جو کہ قرآن اور اہل بیت کی امامت اور رہبری کو ہر چیز پر مقدم قرار دیتی ہیں۔
[وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فإن لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً] (طه: 124).جو بھی میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ ہوگی۔پس جو بھی اللہ تعالی کی یاد کو فراموش کرے گا ،قرآن سے خالی زندگی گزارے گا تو اس کی زندگی تنگ ہوگی، اس کی زندگی درد و الم اور تکلیف میں ہوگی چونکہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے دور ہوچکا ہے اور شہوات نفسانی کا شکار ہوگیا ہے اور اس کی یہ خواہشات بستر مرگ میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں، پس دنیا میں بھی نقصان اٹھاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، وہ موت سے ڈرتا ہے اور سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک جاتا ہے، جو حاصل کرتا ہے اس میں اپنی کامیابی اور خوشی تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ اس کےلیے کشف ہوجاتا ہے کہ یہ اس کا وہم تھا پھر ایک اور چیز کی تلاش میں نکل جاتا ہے،مثال کے طور پر وہ گمان کرتا ہے کہ اس کی سعادت مال و دولت میں ہے پس وہ میلینز کے حساب سے پیسہ اکھٹا کرتا ہے لیکن اس کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوتی، پھر گمان کرتا ہے اس کی خوشی اور کامیابی بڑے بڑے خوبصورت فلیٹس بنانے میں ہے پس وہ اتنے خوبصورت فلیٹس تعمیر کرواتا ہے کہ کسی آنکھ نے دیکھے نہ ہوں لیکن اس سے بھی اس کوسعادت حاصل نہیں ہوتی، پھر گمان کرتا ہے کہ اس کی خوشی اور سعادت عورتوں میں ہے پھر جتنا ممکن ہے ان سے لذت اٹھا تا ہے پھر بھی اس کو سعادت حاصل نہیں ہوتی اور وہ ایک بند گلی میں پہنچ جاتا ہے اور اس پر اللہ تعالی کا یہ قول صادق آتا ہے: [فَلَمَّآ رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي] یہاں پر قمر کنایہ ہے مال سے، وہ گمان کرتا ہے کہ یہ اس کا رب ہے اور اس کی سعادت کی ضمانت ہے[فَلَمَّا أَفَلَ] اور جب وہ غروب کرتا ہے تو اس کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں [قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ]، اور وہ کہتا ہے ، میں غروب کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ،[فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً] اور جب سورج طلوع کرتا ہے ، یہ کنایہ ہے دوسرے دنیوی امور سے،[قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَآ أَكْبَرُ]، تو کہتا ہے یہ بڑا ہے یہ میرا رب ہے، مجھے اس سے سعادت مل جائے گی اور اطمنان قلب مل جائے گا چونکہ یہ بڑا ہے[هَذَآ أَكْبَرُ].
اور جب یہ غروب کرتا ہے تو اس کا نیا رب بھی اس کو خوشی دینے میں ناکام ہوجاتا ہے،پھر کہتا ہے[قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ] میں غروب کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور یہ نامکمل خدا خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بھی مالک نہیں ہیں ، نہ ہی نقصان دہ اور نہ ہی فائدہ مند ہیں ،پس اس کے بعد اگر وہ حقیقت کی تلاش میں مخلص ہے تو اس کےلیے ہدایت لکھی جاتی ہے اور مومنین کی بات کہتا ہے: [قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ، إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ] (الأنعام: 76-79)، تو کہا اے میری قوم! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو۔سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔
اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کےلیے شقاوت لکھ دی جاتی ہے اور اس کا جواب ہوتا ہے: [وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاء حَتَّى إذا جَاءهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ واللهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ] (النور:39). اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے جنگل میں چمکتی ہوئی ریت ہو جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا اور اللہ ہی کو اپنے پاس پاتا ہے پھر اللہ نے اس کا حساب پورا کر دیا، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
وہ اسی طرح شقاوت اور سختی میں موت اور حرص وطمع کے درمیان جھولتا رہتا ہے اور کسی بھی وقت موت اسے دبوچ سکتی ہے[وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ] (البقرة:96)،" اور آپ انہیں زندگی پر سب لوگوں سے زیادہ حریص پائیں گے۔"
اور آپ دیکھتے ہیں زیادہ تر خود کشیاں ان ممالک میں ہوتی ہیں جہاں پر لوگ اقتصادی طورپر مضبوط اور خوشحال ہیں جنہیں بھوک نہ لگنے کی بیماری ہے اور اس قتل و غارتگری اور خودکشیوں کی وجہ روحانی بیماریوں کا شکار ہونا ہے۔
[قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ، يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ] (المائدة: 15-16)، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔اللہ سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور انہیں سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔
وہ نور ہے جو کہ پہلے مومن کے دل میں روشن ہوتا ہے اور اس کو تمام گناہوں اور کدورتوں سے پاک کرتا ہے،اس کو جلا بخشتا ہے اور اس کو تجلیات حق کےلیے تیار کرتا ہے، یہ امت اور معاشرے کےلیے نور ہے اور ایک ایسے نظام کی طرف انسان کی رہنمائی کرتا ہے جو کہ اس کی سعادت کا کفیل ہے۔
قرآن کی لطیف تعبیرات میں سے ہے کہ اس نے لفظ نور کو مفرد استعمال کیا ہے اور ظلمات کو جمع استعمال کیا ہے چونکہ حق کا راستہ ایک ہی ہے متعدد نہیں اگرچہ مصادیق متعدد ہوسکتے ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا: [اهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ](الفاتحة:6)، جبکہ ظلمات یعنی تاریکیاں متعدد ہیں اور اللہ تعالی سے دور کرنے والے خدا بھی بہت ہیں۔
قرآن کریم اور اس کی برکتوں کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جو امن کی راہوں پر قادر مطلق خدا کی رضا پر چلتے ہیں اور اس سے جو پہلا امن حاصل ہوتا ہے وہ روح کی سلامتی ، دل کا سکون صفاء ذہن ہے۔[أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ](الرعد:28)، خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل تسکین پاتے ہیں۔اس کے بعد فیملی کے اندر امن ہے وہ فیملی جس کی بنیاد اسلام اور تعلیمات قرآن ہیں [وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ](الروم:21)، اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ پھر جب معاشرے کے افراد اسلام کے آداب پر راضی ہوں تو ان کے مابین امن ہے۔[فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً](آل عمران: 103) پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے۔)،[مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ ](الفتح:29)، محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں۔
[وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ](الحشر:9). اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو۔
قول ثقيل
ثقل قول سے مراد انسان کے نفس پر اس کا ثقیل ہونا ہے کیونکہ وہ نفس کو اس کی خواہشات سمیت کنٹرول کرتا ہے اور اسے آزاد نہیں چھوڑتا ہے بلکہ اسے تہذیب سکھاتا ہے، اس کو قوام بخشتا ہے اور اس کی رہبری کرتا ہے۔وہ عقل پر بھاری ہے چونکہ وہ جن اسرار کو متضمن ہے عقول کا انہیں تحمل کرنا سخت ہے۔وہ روح پر بھاری ہے چونکہ اس میں ذمہ داریاں اور علوم سخت ہیں اور اس طرف (صلى الله عليه وآله) نے اشارہ کیا ہے کہ ھود اور واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا چونکہ اس میں اللہ کی طرف سےمقاومت کا حکم ہے اور رسول خدا اس امر کی سنگینی کے بارے میں جانتے ہیں۔
اور اس قول کے سنگین اور بھاری ہونے کی وجہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کا صدور ہے، لہذا سیرت کی کتابوں نے نزول وحی کے وقت آنحضرت(صلى الله عليه وآله)کی حالت نقل کی ہے اور قرآن کریم نے اپنے ثقل کو یوں بیان کیا ہے: [لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ](الحشر:21). اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے جھک کر پھٹ جاتا، اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔
یہ ثقیل و سنگین ہے اس اعتبار سے کہ اس کے حامل اور معاشرے میں اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنے والے کو بہت سی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
[المص، كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلاَ يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ] (ایہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے تاکہ تو اس کے ذریعہ سے ڈرائے اور اس سے تیرے دل میں تنگی نہیں ہونی چاہیے اور یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے۔لأعراف:1-2)
اسی وجہ سے آنحضرت(صلى الله عليه وآله)نے رات کو قیام کرنے ،اللہ تعالی سے ارتباط قوی کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس قول ثقیل اور عظیم ذمہ داری کو وصول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور اللہ تعالی نے بھی ان نتائج کے حصول کا وعدہ کیا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں: [وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوداً](الإسراء:79). اور کسی وقت رات میں تہجد پڑھا کرو جو تیرے لیے زائد چیز ہے، قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہنچا دے۔