قرآن پر توجہ دینے کی وجوہات

| |عدد القراءات : 468
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

قرآن پر توجہ دینے کی وجوہات

جو کچھ بیان ہوا   اس کی روشنی میں  قرآن کریم پر توجہ کرنے کی کئی وجوہات سامنے آئیں ہیں ، قرآن کی آیات اور احادیث  میں موجودنئے نکات کے ساتھ   ذیل میں ان نکات کو انشااللہ بیان کیا جائے گا:

۱۔ یہ انسانی ذہنی ، معاشرتی ، روحانی ، حتیٰ کہ جسمانی بیماریوں کا بھی کامیاب اور مکمل علاج ہے ، جیسا کہ کچھ احادیث میں ذکر ہوگا۔

۲۔  جو شخص بھی دنیا اور آخرت کی سعادت- جو کہ اصل ہدف ہے- کا طالب ہے  وہ اس کی ہدایت اور راستے سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔قرآن سے استفادہ جتنا زیادہ ہوگا انسان کی عظمت و بلندی اور اس کے  تکامل میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔

۳۔رسول اللہ (صلى الله عليه وآله) اور اہل بیت  )علیہم السلام( کی پیروی میں قرآن  پر توجہ کی ضرورت ہے جس کا ہمیں قرآن نے بھی حکم دیا ہے:  [لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً](الأحزاب:21)." البتہ تمہارے لیے رسول اللہ میں اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔"

۴۔ قرآن کریم محبوب کا پیغام ہے اور انسان اپنے محبوب کا پیغام بار بار پڑھنےاوراس پر غور کرنے سے تھکتا نہیں۔اللہ تبارک و تعالی محبوب حقیقی ہے چونکہ اس میں محبت کے سارے اسباب جمع ہیں، محبت یا انسان میں کسی کمال اور اس کے حسن کی وجہ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالی میں تمام صفات کمال اور اسماء حسنی جمع ہیں یا اس لیے کہ اس سے فضل و احسان صادر ہوتا ہے اور اللہ تعالی شروع ہی سے منعم ، منان اور متفضل ہے اس کے باوجود کہ ہم اس کی نعمتوں کے مستحق نہیں لیکن وہ ہمیں عطا کرتا ہے حتی اپنے گنہگار بندوں کو بھی وہ عطا کرتا ہے۔[وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا](النحل:18)، "اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو ان کا شمار نہیں کر سکو گے"۔

اور اسی سے مربوط امام صادق (عليه السلام) کی حدیث ہے: انہوں نے فرمایا: (القرآن عهد الله إلى خلقه فقد ينبغي للمرء المسلم أن ينظر في عهده وان يقرأ منه كل يوم خمسين آية) ' قرآن اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے ساتھ عہد ہے،مسلمان شخص کو چاہیے کہ اپنے عہد کی پاس داری کرے اور روزانہ اس سے ۵۰ آیتوں کی تلاوت کرے۔"

۵۔قاری اور متدبر قرآن   کےلیے لا محدود  ثواب عظیم اور اجر جزیل  ہے۔احادیث شریفہ میں اس کے بارے میں پڑھیں گے۔

۶۔ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے اور بلا تفریق  ہر زمان اور ہر مکان کےلیے ہے ، لہذا جن حالات اور مشکلات کا یہ سامنا کرتی ہے اور ان کا علاج کرتی ہے یہ بھی کسی زمانے کے ساتھ مختص نہیں ہیں، پس نئی مشکلات اور مسائل کے حل کےلیے قرآن  سے استفادہ کیا جائے اور ان میں سے اکثر  کو   پرانے اور نئے جاہلوں کے درمیان مقایسہ کے عنوان سےبحث کے دوران  بیان کیا جائے گا،الحارث الاعور نے جو بیان کیا اس کا بھی یہی معنی ہے، اس نے کہا:" میں مسجد میں داخل ہوا اور میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد میں احادیث کے بارے میں بات کررہے ہیں، میں علی کے پاس گیا اور ان سے کہا کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ کچھ لوگ  مسجد میں احادیث کے بارے میں بات کررہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:ایسا ہی کیا ہے؟ میں نے کہا: جی، انہوں نے کہا:لیکن میں نے رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا ہے، انہوں نے کہا ہے: عنقریب فتنے ہونگے، میں نے کہا : ان سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا؟انہوں نے کہا: اللہ کی کتاب،اللہ تعالی کی کتاب جس میں تم سے پہلے والوں کی خبریں ہیں اور تم سے بعد میں آنے والوں کی خبریں ہیں-یہ آپ کے درمیان جو کچھ ہے اس پر حاکم ہے،اور اس کے فیصلے اور احکام قطعی ہیں مذاق نہیں، جو بھی جابر و ظالم اسے ترک  کرے گا اللہ تعالی اسے برباد کردے گا، جو ہدایت اس کے علاوہ کسی اور سے طلب کرے گا اللہ تعالی اسے گمراہ کردے گا،وہ اللہ تعالی کی مضبوط رسی ہے،وہ ذکر حکیم ہے اور وہ صراط مستقیم ہے۔

۷۔ اس میں جو علوم ومعارف اور اسرار پوشیدہ ہیں انہیں سیکھ لو، جیسا کہ علی (عليه السلام) جس کے علم کی تعریف میں عبد اللہ بن عباس جوکہ امت کی سیاہی اور ترجمان قرآن کے نام سے مشہور ہے،کہتے ہیں:میرا اور تمام اصحاب رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) کے علم کو جمع کردیا جائے تو یہ علی (عليه السلام) کے علم کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں قطرہ،ان سے جب پوچھا گیا: کیا  تمھارے پس کچھ وحی ہے؟ فرمایا: قسم اس کی جس نے دانہ توڑا اور انسان کو پیدا   مگر یہ کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنی کتاب کی سمجھ عطا کرے۔"

اس کتاب میں صحیح عقاید،اچھے اخلاق،خردمندانہ قوانین،بلاغی نکات اور  اچھا بیان ہے جو ہماری ہر ضرورت کو پورا کرتی-کتاب- ہے۔اس میں خلق کے اسرار  اور مخلوقات کے عجائب ہیں انسان کے جسم کے اندر ، کائنات اور طبیعت میں۔ اور اس میں  وہ ہے جس تک کشف کرنے والوں کی عقل نہیں پہنچ سکتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن فزکس ، کیمسٹری ، فلکیات یا طب کی کتاب ہے  کہ جس کی غلطیاں اور نقص اس پر عیاں ہوجائیں بلکہ یہ ہدایت  اور اصلاح کی کتاب ہےجو اپنے مقصد کے حصول کے لئے تمام ٹولز کا استعمال کرتی ہے ، یہ سارے علوم اس مقصد کے حصول کے لئے ہیں اور اس سے وہ مقدار لیتے ہیں  جس سے ان کی غرض پوری ہوجاتی ہے۔

۸۔قرآن کی شکایت سے بری الذمہ ہوجانا جیسا کہ گزشتہ حدیث(ثلاثة يشكون . . .) میں  اس کا ذکر ہوچکا ہے اور عند اللہ قرآن کی شکایت رد نہیں ہوسکتی، جیسا کہ حدیث شریف میں اس کا وصف بیان ہوا ہے: (ماحِلٌ مصدَّق)یعنی ایک ایسا مدعی جس کی تصدیق ہوچکی ہے اور اس کو اس کا حق دیا جائیگا اور اس دعوی کی رسول الله (صلى الله عليه وآله) کی شکایت بھی حمایت کرتی ہے جو کہ قرآن میں مذکور ہے:[وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً] (الفرقان: 30)." اور رسول کہے گا اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا۔"

۹۔ قرآن کی شفاعت کا حصول، جس کی حدیث نے بھی توصیف کی ہے کہ وہ: (شافع مشفّع) اور اس کی صفت شفاعت کے بارے میں حدیث کہتی ہے:

(وكان القرآن حجيزاً عنه - أي حاجزاً وساتراً عن قارئ القرآن - يوم القيامة، يقول: يا رب إن كل عامل أصاب أجر عمله غير عاملي فبلّغ به أكرم عطائك، قال: فيكسوه الله العزيز الجبار حلتين من حلل الجنة ويوضع على رأسه تاج الكرامة ثم يقال له: هل أرضيناك فيه؟ فيقول القرآن: يا رب قد كنت أرغب له فيما هو أفضل من هذين قال: فيُعطى الأمن بيمينه والخلد بيساره ثم يدخل الجنة فيقال له: اقرأ آية فاصعد درجة ثم يقال له هل بلغنا به وأرضيناك؟ فيقول: نعم)

" اور قیامت کے دن قرآن  مانع ہوگا یعنی قاری قرآن اور آتش جہنم کے درمیان حائل ہوگا،اور کہے گا: ائے میرے پروردگار ہر شخص کو اپنے عمل کا اجر مل چکا ہے مگر اس شخص کے  جس نے مجھ پر عمل کیا ہے پس اس کو بہترین اجر عطا فرما،، پس اللہ تعالی اس کو جنت کے دو لباس  پہنائے گا  اور تاج کرامت اس کے سر پر رکھے گا پھر اس سے کہے گا:کیا جو کچھ تمھارے اوپر عمل کرنے والے کو  ہم نے عطا کیا اس سے راضی ہو،قرآن کہے گا: پروردگارا  مجھ پر عمل کرنے والے کےلیے میں اس سے زیادہ چاہتا ہوں، پس خدا وند  اس کے دائیں ہاتھ میں  امن کا پروانہ  دے گا اور اس کے بائیں ہاتھ میں جنت میں ہمیشہ رہنے کا پروانہ دے گا، پھر وہ شخص بہشت میں داخل ہوگا اور اس سے کہا جائے گا قرآن پڑھو اور اس سے اوپر والا مرتبہ حاصل کرو،پھر اللہ تعالی قرآن سے کہے گا جو کچھ ہم نے تم پر عمل کرنے والے کو دیا اس سے راضی ہو،قرآن کہے گا ، ہاں۔"

ان کے علاوہ بھی قرآن کے  بہت سارے اور فواید ہیں۔اور آپ  جانتے ہیں کہ  ان میں سے بعض مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہیں بلکہ  بہت سارے دانشمند،علماء اور لیڈرز  قرآن سے استفادہ کرتے ہیں  اگرچہ وہ مسلمان نہیں۔

یہاں تک جو کچھ میں نے بیان کیا وہ انسان کو اس کتاب مقدس  کی طرف  راغب کرنے کےلیے کافی ہے تاکہ اس کا گوشت اور خون اس کے ساتھ مخلوط ہوجائے۔

اور  جو بھی سمجھتا ہے کہ میرا اس کے اوپر کوئی اخلاقی یا شرعی حق ہے، تو  سال میں دو دفعہ قرآن ختم کرنا میں اس کےلیے لازم  قرار دیتا ہوں۔اور یہ مقدار بہت ہی کم ہے اگر ہم ماہ مبارک رمضان کو مد نظر رکھیں ،صرف اس مہینے میں اس  مقدار کا نصف یا اس سے زیادہ قرآن پڑھا جاتا ہے۔

جو محرکات میں نے بیان کیے ہیں ان میں سےاہم وہ ہیں جو احادیث میں وارد ہوئے ہیں اور ان احادیث کا ایک مجموعہ سلف صالح کی پیروی  میں جنہوں نے بہت ساری کتابیں  علم کے مختلف شعبوں میں (چالیس حدیثیں) لکھی ہیں ،میں نے آپ کےلیے انتخاب کیا ہے جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔امید ہے ہم سب اس حدیث شریف کے مصداق قرار پائیں کہ رسول الله (صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: (من حفظ عني من أمتي أربعين حديثاً في أمر دينه يريد به وجه الله عز وجل والدار الآخرة بعثه الله يوم القيامة فقيها عالماً)۔ " میری امت سے جو بھی میری چالیس حدیثیں اپنے دین کے معاملے میں حفظ کرے گا اور اس کا مقصد اللہ تعالی کی رضایت اور آخرت ہو ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے فقیہ اور عالم اٹھائے گا۔"