قافلہ "ندائے اقصی" سے ملاقات کے دوران مرجع عالیقدر شیخ یعقوبی نے فرمایا

| |عدد القراءات : 558
قافلہ "ندائے اقصی" سے ملاقات کے دوران مرجع عالیقدر شیخ یعقوبی نے فرمایا
  • Post on Facebook
  • Share on WhatsApp
  • Share on Telegram
  • Twitter
  • Tumblr
  • Share on Pinterest
  • Share on Instagram
  • pdf
  • نسخة للطباعة
  • save

بسمہ تعالی

قافلہ "ندائے اقصی" سے ملاقات کے دوران مرجع عالیقدر شیخ یعقوبی نے فرمایا:

تمام میدانوں میں دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی آپشن کا کوئی بديل نہیں.

 

جناب مرجع عالیقدر شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ) نے نجف اشرف؛(1) میں موجود اپنے دفتر میں قافلہ "ندائے اقصی" سے ملاقات کی، اس قافلے میں فلسطین، شام اور لبنان کے شیعہ وسنی مجاہد علمائے دین موجود تھے، جنہوں نے زائرین امام حسین علیہ السلام کے لیے ایک موکب لگانے کا عزم کیا ہوا تھا تاکہ مومنین کو ذکر قدس برقرار رکھنے اور غصب شدہ زمینوں کو واپس لینے تک جہاد کو زندہ رکھنے پر زور دینا تھا. جب حاضرین نے اس اقدام کے اہداف بیان کر لیے اور فلسطینی عوام کی مشکلات اور ثابت قدمی ذکر کی تو اس کے بعد جناب شیخ (دام ظلہ) نے اپنے سخن کی ابتداء کی اور وفد کا خیر مقدم کیا اور اس بات کی طرف دہیان دلایا کہ یہ اللہ کی نعمت ہے جس نے آپ مہمانوں کو اس مخصوص جگہ میں جمع کیا جو کہ امیر المؤمنین (علیہ السلام) کا جوار ہے، یہ وہ ہستی ہے جس نے اسلامی جنگوں میں یہود کی سازشوں کو خاک میں ملا دیا.

یہ وقت بھی بہت بابرکت ہے  جوکہ قیام حسینی کی یاد منا رہے ہیں جو کہ جہاد، مقاومت، ظلم کی نفی، منتقمین کا رول ماڈل اور انسان کی آزادی کا رمز ہے. اس کے بعد جناب مرجع عالیقدر نے گفتگو کی جس میں فرمایا کہ:

بے شک اقصی پہلا قبلہ اور تیسرا حرم ہے اور صدر اسلام سے ہی مومنین کے دلوں میں اس کے لیے ایک خاص مقام پایا جاتا ہے، بتحقيق نجف اشرف کی دینی مرجعیت نے شروع سے ہی مسئلہ فلسطین اور قدس کو بڑی اہمیت دی ہے، اور دینی مرجع اور مصلح کبیر مرحوم شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء (قدس سری) بذات خود (1350ھ: 1931م) میں، قدس میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس میں شرکت کی، اس وقت معاہدہ بالفور در سال 1917م کے بعد یہود نے فلسطین کی طرف ہجرت کرنا شروع کی تھی.

اور جناب مرجع عالیقدر نے سال 1969 کو جب مسجد اقصی جلانے کا حادثہ پیش آیا اور جہادی عمل شروع ہوا تو نجف اشرف (2) میں دینی مرجعیت کی کارکردگی اور صیہونی وجود کے خلاف جہادی عمل کی سپورٹ کی طرف اشارہ کیا، اس وقت نجف اشرف کے اعلی دینی مرجع سید محسن الحکیم (قدس سرہ) نے اس اقدام کو مبارک جانا اور شرعی اموال جنہیں  مقلدین انہیں پیش کرتے ہیں، کو ان امور میں خرچ کرنے کی اجازت دے دی، اور دینی مرجعیت ہمیشہ دشمن کے مقابلے میں اسلامی آپشن اختیار کرنے کی دعوت دیتی تھی کیونکہ دشمن اپنے عقیدے کی بنیاد پر جنگ لڑتا ہے اور اسی کی خاطر اپنی جان قربان کرتا ہے، اسی لیے اس کا مقابلہ بھی عقیدے کے ساتھ ہونا چاہیے، لیکن بعض تنظیموں نے اپنے ایجنڈوں کے زریعے عربی قومیت کا نعرہ بلند کیا جو کہ قربانی کے لیے موثر سبب نہیں تھا، کیونکہ وہ عقیدہ اسلام سے متصل نہیں تھا، اسی وجہ سے وہ دوسری مسلمان قوموں کو اس لڑائی سے دور رکھنے میں کامیاب ہوئے کیونکہ انہوں نے باور کرایا کہ مسئلہ فلسطین کا آپ سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک خالص عربی قضیہ ہے.

جناب مرجع عالیقدر نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ سال 1987 میں حالات بدل گئے جب مجاہدین نے اسلام کا آپشن اپنایا اور تحریک مقاومت اسلامی وجود میں آگئی اور قوت مزید بڑھ گئی، اور اسی قوت کی طرف خداوند متعال نے اپنے کلام میں اشارہ کیا ہے  (اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ عِشۡرُوۡنَ صٰبِرُوۡنَ یَغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۚ وَ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ،  اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سو افراد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں) (سورہ انفال:65).

اسی طرح انہوں نے فرمایا کہ اب خدا وند متعال کے فضل سے طاقت کا میزان مجاہدین کے حق میں بدل گیا ہے، وہ پہلے اپنے صہیونی دشمن پر پتھروں سے حملہ کرتے تھے اور اپنے سینوں پر گولی کھاتے تھے لیکن تازہ معرکہ سیف القدس میں انہوں نے ہزاروں میزائل دشمن کے سروں پر گرا دیے یہاں تک صیہونی شہر نشانے پر آگئے.

اور مہمان وفد نے ملاقات کے آخر میں جناب مرجع عالیقدر سے ملاقات پر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جس نے ان کی امیدوں کو جلا بخشی کہ نجف کی مرجعیت قضیہ فلسطین کے لیے ایک تکیہ گاہ اور اساسی مددگار تھی اور ہے.

__________

(1) ملاقات کی تاریخ، بروز پیر 12 صفر 1443 بمطابق 20/9/2021.

(2) جناب مرجع یعقوبی کے مسئلہ فلسطین کی نسبت کئی مواقف ہیں ان میں سے کچھ کو ذکر کرتے ہیں:

ا. کتاب (نظرة في فلسفة الأحداث) یہ وہ مراسلات ہیں جنہیں اپنے استاد شہید صدر (قدس سرہ) کو گزشتہ صدی کی اسی کی دھائی میں بھیجے.

ب. بیان تأبين الشيخ أحمد ياسين

ج. عالمي يوم القدس کی مناسبت سے خطاب. اس کو ایک کتابچہ (فلسطین والقدس في ضمير النجف الأشرف) کے عنوان سے محفوظ کیا گیا ہے.