قرآنی اصطلاح میں فقہ اور فقیہ
قرآنی اصطلاح میں فقہ اور فقیہ
ہم نے تھوڑی دیر پہلے قرآن کی اصطلاح میں جاہلیت کا مفہوم ،جاہل معاشرے کی صفات و خصوصیات اور ان کے مقابلے میں الہی صفات جنہیں قرآن بیان کرتا ہے، بیان کیا ۔اور اب میں حوزوی لفظ (الفقه) کی قرآنی فہم بیان کروں گا۔ہمارے نزدیک فقہ کا جو رائج معنی ہے وہ ہے احکام شرعیہ کا علم جبکہ قرآن کی اصطلاح میں فقہ سے مراد اللہ تعالی کی معرفت ہے اور ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا ملازمہ نہیں ہے ان کے درمیان نسبت عام و خاص من وجہ کی ہے۔
قرآن کی آیت ہے: [فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إذا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ([۱۲۲ سورہ توبہ) "سو کیوں نہ نکلا ہر فرقے میں سے ایک حصہ تاکہ دین میں سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو ان کو ڈرائیں تاکہ وہ بچتے رہیں۔"ہم جانتے ہیں کہ تقوی معرفت الہی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کا منشاء روح،نفس اور عقل ہے اور دل میں تقویٰ اورعلم کے حصول کے بعد ، وہ شرعی احکام کو سیکھنے اور اس کا اطلاق کرنے کی ترغیب دیتا ہے،آپ خود ہی اس کا تجربہ کرسکتے ہیں ۔فقہ کی کتابیں پڑھو اور شروع سے لے کر آخر تک اس میں دقیق غور وفکر کرو اور پھر دیکھو کہ اس سے کچھ حاصل ہو ا یا آپ کے تقوی میں کچھ اضافہ ہوا کہ نہیں؟ہم نے بہت سارے فقیہ دیکھے،اصطلاحی معنی میں، جو دنیا میں غرق تھے اور اللہ تعالی سے کوسوں دور۔
قرآن اس طرح کے فقیہ کے بارے میں قصہ بیان کرتا ہے: [وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِيَ آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ، وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ] (الأعراف: 175 - 176). " اور انہیں اس شخص کا حال سنا دے جسے ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں پھر وہ ان سے نکل گیا پھر اس کے پیچھے شیطان لگا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی برکت سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن وہ دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا، اس کا تو ایسا حال ہے جیسے کتا، اس پر تو سختی کرے تو بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تو بھی ہانپے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو یہ حالات بیان کر دے شاید کہ وہ فکر کریں۔"
شواہد بتا رہے ہیں کہ فقہ کا معنی اللہ تعالی کی معرفت ہے اور آیات شریفہ میں اس کا محل قلب بیان ہوا ہے، جبکہ احکام شرعیہ کا محل عقل ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: [رَضُواْ بِأَن يَكُونُواْ مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَ يَفْقَهُونَ] (التوبة: 87)، "وہ خوش ہیں کہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہ جائیں اور ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے سو وہ نہیں سمجھتے۔" اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: [لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا] (الأعراف: 179). "ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں۔"
لہذا آیت نے اس فقہ کو یعنی اللہ تعالی کی معرفت،مبدا اور معاد کی معرفت کو طاقت میں دس گنا اضافے کا سبب قرارر دیا۔اللہ تعالی کافرمان ہے: [يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ] (الأنفال: 65)." اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے۔"
رسول اللہ(صلى الله عليه وآله) کی حدیث بھی اسی معنی پر تاکید کرتی ہے، فرمایا: (ألا أخبركم بالفقيه حقاً؟ من لم يقنط الناس من رحمة الله ولم يؤمنهم من عذاب الله ولم يؤيسهم من روح الله، ولم يرخص في معاصي الله ولم يترك القرآن رغبة عنه إلى غيره، ألا لا خير في علم ليس فيه تفهم، ألا لا خير في قراءة ليس فيها تدبر، ألا لا خير في عبادة ليس فيها تفقه)([1])
" کیا میں تمھیں حققی فقیہ کے بارے میں نہ بتاوں؟ فقیہ ایسا شخص ہے جو لوگوں کو خدا سے مایوس نہیں کرتا،لوگوں کو عذاب الہی سے امن میں نہیں رکھتا،انہیں گناہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا،دوسری چیزوں میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے انہیں قرآن ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتا،پس ہوشیار رہو: جس علم میں فہم نہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے،ہوشیار رہو: جس پڑحائی میں تدبر نہ ہواس کا کوئی فائدہ نہیں،ہوشیار رہو جس عبادت میں تفقہ نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔"یہ کتاب وسائل میں تھی۔دوسرے مصادر ([2])میں اس حدیث کا بقیہ بھی ہے:
(فإنه إذا كان يوم القيامة نادى مناد: يا أيها الناس إن أقربكم من الله تعالى مجلساً أشدكم له خوفاً، وإن أحبكم إلى الله أحسنكم عملاً، وإن أعظمكم عند الله نصيباً أعظمكم فيما عنده رغبة، ثم يقول عز وجل: لا أجمع لكم اليوم خزي الدنيا وخزي الآخرة، فيأمر لهم بكراسي فيجلسون عليها، وأقبل عليهم الجبار بوجهه وهو راض عنهم وقد أحسن ثوابهم).
" بے شک قیامت کے دن ایک منادی آواز دے گا:ائے لوگو تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالی کے قریب وہ شخص ہے جو اللہ تعالی سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے اور تم میں سے سب سےزیادہ اللہ تعالی کو وہ شخص پسند جس کا عمل سب سے زیادہ اچھا ہو اور تمھارا نصیب اللہ تعالی کےپاس سب سے زیادہ اس چیز میں ہوگا جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہے،پھر اللہ تعالی فرمائے گا:آج میں آپ کو دنیا و آخرت کی ذلت نہیں دونگا ،پھر حکم دے گا ان کےلیے کرسیاں لے کر آو پھر وہ ان میں بیٹھ جائیں گے اور اللہ تعالی اس حال میں انکی طرف رخ کرے گاکہ وہ ان سے راضی ہوگا اور ان کو بہترین ثواب دے گا۔"
پس آپ نے دیکھا کہ ہر وہ چیز فقیہ کی صفات میں سے ہے جو اللہ کے قریب کردے،ایک اور حدیث میں امیر المومنین(عليهم السلام) نے فرمایا ہے: (كانت الفقهاء والحكماء إذا كاتب بعضهم بعضاً كتبوا ثلاثاً ليس معهن رابعة: من كانت الآخرة همته كفاه الله همه من الدنيا، ومن أصلح سريرته أصلح الله علانيته، ومن أصلح فيما بينه وبين الله عز وجل أصلح الله فيما بينه وبين الناس)([3]).
"فقہاء اور حکماء جب ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے تو اس میں تین چیزیں ضرور بیان کرتے تھے جن کی چھوتھی نہیں ہوتی تھی:جس شخص کا ہدف آخرت ہو خدا وند اس کے دنیوی اہداف خود پورے کرتا ہے، جوشخص اپنے باطن کی اصلاح کرتا ہے اللہ تعالی اس کے ظاہر کی اصلاح کرتا ہے،اور جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان معاملات کو ٹھیک رکھتا ہے اللہ تعالی اس کے اور لوگوں کے درمیان معاملات کو درست رکھتا ہے۔"
ابا الحسن (عليه السلام) سے حدیث ہے: (من علامات الفقه الحلم والعلم والصمت، إن الصمت باب من أبواب الحكمة وإن الصمت يكسب المحبة وإنه دليل على كل خير)([4]).
" فقاہت کی علامات میں سے بردباری،علم اور خاموشی ہے،یقینا خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، بے شک خاموشی محبت لے آتی ہے اور ہر نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔"
اور اس معنے کا استفادہ دوسری دو حدیثوں سے بھی ممکن ہے۔خصال میں رسول الله (صلى الله عليه واله وسلم سے نقل ہے: (صنفان من أمتي إذا صلحا صلحت أمتي وإذا فسدا فسدت أمتي: الأمراء والفقهاء)([5])" میری امت کے دو گروہ جب بھی ٹھیک ہونگے میری امت ٹھیک ہوگی اور اگر یہ دونوں فاسد ہوجائیں تو پوری امت فاسد ہوجائے گی، پوچھا گیا، وہ کون ہیں؟ فرمایا: فقہا اور حکمران۔"
اور وسائل میں امالی سے:علماء کی جگہ قراء آیا ہے، جب قراء کے ساتھ آنے والی حدیث کو شامل کریں گے تو ہمیں معنی مذکور مل جائے گا۔
پس واضح ہوگیا کہ قرآنی اصطلاح میں فقیہ اور حوزوی اصطلاح میں فقیہ کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت ہے۔ممکن ہے ایک شخص قرآنی اصطلاح میں فقیہ ہو لیکن حوزوی اصطلاح میں فقیہ نہ ہو کیونکہ بہت سارے عرفا ایسے ہیں جو صاحب کرامات ہیں لیکن علوم حوزوی میں اجتہاد کے درجے تک نہیں پہنچے اور کھبی اس کے برعکس پس ایک شخص ممکن ہے ایسا ہو جس کا دماغ اصولی ، عقلی، اورفقہی علوم سے بھرا ہو حتی دقیق مسائل میں وہ ماہر ہو لیکن اس کا دل یاد خدا سے خالی ہو، اگر اس سے آپ تہذیب نفس،سیر و سلوک الی اللہ ، تصفیہ باطن اور تطہیر قلب کے بارے میں پوچھیں گے تو حیران رہ جائے گا،اس کا بندہ قرآن کی اصلاح میں فقیہ نہیں ہے اور ان میں کامل وہ جس میں دونوں معنے اکھٹے ہوں جیسے ہمارے علما ہیں جو فقہ و اصول و عرفان میں بہت ہی بڑے مقام تک پہنچے ہیں اور اس حدیث شریف: (الفقهاء أمناء الرسل)([6]) میں فقہا سے مراد یہی فقہاء ہیں۔ اس قرآنی نظر کے ساتھ ، ہمیں احادیث کو سمجھنا چاہئے تاکہ ہم ان بلند معانی سے محروم نہ ہوں۔
([1]) بحار الأنوار: 2/49، باب: صفات العلماء وأصنافهم، حديث 8.
([2]) مدينة البلاغة: صفحة 98، عن كتاب الجعفريات.
([3]) الخصال: صفحة 129 باب الثلاثة.
([4]) الاختصاص: 232.
([5]) تقدم مصدره في بداية الكتاب.
([6]) بحار الأنوار: 2/36 حديث 38.