اربعین کی مخصوص زیارت کے وقت کے بارے میں استفتاء
اربعین کی مخصوص زیارت کے وقت کے بارے میں استفتاء
السلام علیکم
سرادر جنت، ابو الاحرار امام حسین اور انکے اہل بیت علیہم السلام کی شہادت کی مناسبت سے خدا آپ کے اجر وثواب میں اضافہ فرمائے۔
اما بعد! جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اربعین کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت مخصوص ہے لیکن ان جسیے ایام میں پرہجوم تعداد کی وجہ سے زائرین پیدل سفر کرتے ہیں اور زیارت کو مخصوص وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں انجام دیتے ہیں۔ پھر زیارت کے مخصوص وقت سے پہلے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاتے ہیں، کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ زیارت اربعین سے مشرف ہو چکے ہیں:
اب سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے جناب شیخ (خدا ان کا سایہ بلند رکھے) کی کیا رائے ہے، آیا اس کو امام علیہ السلام کی عام زیارات میں شمار کیا جائیگا یا یہ اربعین کی زیارت شمار ہوگی؟
خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔
بسمہ تعالی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اربعین کی مخصوص زیارت کے وقت کو 20 صفر کے دن تک ہونے کو بعید نہیں سمجھتا۔ (یعنی 20 صفر کا دن وقت زیارت میں داخل ہے) کیونکہ کربلاء کی موجودہ صورت حال اس بات کی متحمل نہیں کہ تمام زائرین- جن کی تعداد دس میلین سے زیادہ ہے- 20 صفر کے دن مراسم زیارت کو انجام دیں۔ لہذا اسکا وقت پچھلی اور اگلی دونوں راتوں کو شامل ہے (یعنی 20 اور 21 صفر کی راتیں)۔ بلکہ ممکن ہے کہ اگر زیارت کے دن تمام لوگ جمع ہونے لگے تو پچھلے دن (19 صفر) یا اس سے بھی زیادہ کو شامل ہو جائے۔
ہم نے اپنے انسائیکلوپیڈیا: فقہ الخلاف کی کتاب الحج میں بیان کیا ہے کہ جب کسی معین عبادت کا وقت تنگ ہو اور ہر کوئی اس کو اس کے مخصوص وقت میں بجا لانا چاہتا ہو تو بعید نہیں کہ اس کا شرعی وقت کسی اور دن تک پھیل جائے یا ایک سے زیادہ دنوں کو شامل ہو جائے جو اس (معین عبادت) کے محدود شرعی وقت سے زیادہ ہو۔
اور ہم نے اس بات کو معصوم علیہ السلام کی طرف سے بیان شدہ شرعی نص سے اخذ کیا ہے۔ یہ نص حاجیوں کے لیئے مزدلفہ میں جگہ تنگ پڑنے کی صورت میں، مأزمين یا پہاڑ پر وقوف کے جواز کو ثابت کرتی ہے جبکہ یہ دونوں مشعر الحرام میں وقوف کی مخصوص جگہ کی حدود سے باہر ہیں۔
اور اس حوالے سے سماعہ کی موثقہ بھی ذکر ہوئی ہے، اس نے کہا (میں نے ابو عبد اللہ الصادق (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا: جب لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے اور ان کے لیئے جگہ کم پڑ جائے تو وہ کیا کریں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: مأزمين کی طرف چلے جائیں)۔ اور اپنی دوسری موثقہ میں مزید اضافہ کیا ہے (میں نے کہا: جب وقوف کے وقت انکی تعداد زیادہ ہو جائے اور جگہ تنگ پڑ جائے تو وہ کیا کریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: پہاڑ کی طرف چلے جائیں)۔
ہم نے اس مطلب کو - اسکے خاص دائرے (خصوصیت) سے نکال کر- 9 ذی الحج کے دن عرفہ میں اس ملک کے سنی قاضیوں کے نزدیک، وقوف کے جواز کو سمجھنے کے لیئے نمونہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ اسکی تحدید میں انہوں نے ہمارے شرعی موازین کے مطابق ہماری مخالفت کی ہے۔
بہر حال، خدا وند متعال، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انکے اہل بیت کرام (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے بارے میں حسن ظن رکھنا بہتر ہے کہ وہ تقدیم اور تاخیر کے عذر کو قبول کرتے ہیں۔ ( بے شک کریم لوگوں کے نزدیک عذر مقبول ہے) تو کریم مطلق سبحانہ وتعالی کے بارے میں کہا جائے گا؟
اس کے علاوہ حدیث میں آیا ہے کہ (اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے) اور (جس نے کسی قوم کے عمل کو پسند کیا وہ انہیں کے ساتھ محشور ہوگا) اور ان کا اجر اسے بھی ملے گا۔
محمد الیعقوبی۔ 14 صفر