منی لانڈرنگ (money laundering) کی حرمت
منی لانڈرنگ (money laundering) کی حرمت
مرجع دینی آیت اللہ العظمی شیخ محمد یعقوبی (دام ظلہ الوارف)
میں المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی قم میں ایم فل كا طالبعلم ہوں، اور میں نے فقہ اور قانون کے درمیان منی لانڈرنگ کے موضوع پر ایک تقارنی (comparative) بحث (thesis) لکھنی ہے۔ اور یہ آجکل کے جدید مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ میں نے اپنے علماء کے فتوووں اور استفتاءات میں کافی تلاش کیا لیکن اس کے بارے میں کوئی فقہی رائے نہیں ملی۔ اور میں نے حتما اس مسئلے میں شیعہ فقہاء کی رائے ذکر کرنی ہے۔ اسی طرح بحث "منی لانڈرنگ" میں فتوے کی فقہی دلیل بھی ذکر کرنی ہے۔
بسمہ تعالی
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
(منی لانڈرنگ) ملک کے اقتصاد کے لیئے ایک تخریبی عمل ہے اور يہ لوگوں کے اخلاق کو فاسد اور انکا دین سلب کرتا ہے، اور انحراف اور جرائم کے لیئے مناسب ماحول فراہم کرتا ہے۔ شروع میں یہ کام جرم مافیا اور فساد اور تخریب کے لیڈروں کے ہاتھ میں تھا، لیکن بعد میں یہ ایک عام اور تباہ کن مسئلہ بن گیا جسے بہت سارے سیاستدان، بیورکریٹس، تاجر اور عوام کی ثروت لوٹنے والوں نے اپنایا۔
اور ابھی دنیا اس مسئلے کے خطرے کی طرف متوجہ ہوگئی ہے اور بڑی سطح پر کانفرنسز اور سیمینارز منعقد ہونے لگے ہیں تاکہ اس مسئلے کی روک تھام کے لیئے مشورت کریں اور اس کو منظر عام پر لانے اور اسكا دائره تنگ کرنے کے لیئے مناسب طریقے تلاش کریں، مجرمین کے لیئے قوانین وضع کریں اور معاشرے کو اس کے خطرات اور اس پر ملنی والی سزا سے آگاہ کریں۔ اگرچہ ان کانفرنسز سے کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں ملا، حتی اعلی سطح پر منعقد ہونے والى کانفرنسوں سے بهى کچھ حاصل نہیں ہوا؛ چونکہ ان کو برگزار کرنے والے سنجیدہ اور مخلص نہیں تھے۔ بلکہ وہ خود اس مسئلے کو لیڈ (lead) کرتے تهے۔ اور ابھی تک یہ خبیث مسئلہ مختلف ممالک اور معاشروں میں تیزی سے پهيل رہا ہے۔
جہاں تک اس کی شرعی جہت ہے تو اس کے شرعی حکم میں تین عناصر موثر ہیں:
1۔ مغسول: یعنی وہ مال جو لانڈرنگ ميں مقصود ہو، اورکبھی اس کا مصدر (جہاں سے مال لیا گیا ہے) حرام ہوتا ہے، جیسےخصوصی وعمومی طور پر چوری کے زریعے کسب کیا ہوا مال، منشیات کی تجارت، تیل چوری، فعل حرام(زنا)، انسان کی سمگلنگ، رشوت، ذخیرہ اندوزی، جعلی کرنسی، ایجنٹ، جاسوسی کا صلہ، دہشتگردی، اور اغوا برائے تاوان کے زریعے کمایا ہوا مال (یہ سب حرام کا مال ہے)۔
اور غالبا منی لانڈرنگ کا ہدف بنکوں میں مال ٹرانسفر کرنے كے زریعے ان اموال کو قانونی حیثیت دینا ہوتا ہے۔ پس اگر لانڈرنگ کا مال حرام ہو تو اس سے مربوط سارے اعمال بھی حرام ہونگے۔
2۔ غاسل: یعنی وہ شخص یا جہت جو منی لانڈرنگ سے استفادہ کرتی ہے۔ اور کبھی كبهار اس جہت کے فائدے کے لیئے کام کرنا جائز نہیں ہوتا۔ جسیے دہشتگرد تنظیمیں، جرم مافیاز، وہ حاکم جو عوام کے اموال پر لوہے اور آگ کے زریعے مسلط ہوں، قانون سے باغی لوگ، اور معاشرے کو طائفیت اور عنصریت کے زریعے ظلم اور انتشار پر اکسانے والے وغیرہ۔ پس اگر منی لانڈرنگ سے استفادہ کرنے والے یہی لوگ ہوں جن کو تقویت دینا جائز نہیں، تو منی ٹرانسفر (اور منی لانڈرنگ) کا عمل حرام ہوگا۔ یہ اس عمل كے پہلے عنصر کے علاوہ ہے (جسکی حرمت بیان ہوگئی)۔
اس کی مثال یہ ہے کہ بعض لوگ دعوی کرتے ہیں كہ وہ فلاحی ادارے چلاتے ہیں، اور زکات، صدقات اور تبرعات کو جمع کرتے ہیں تاکہ اسے دہشتگرد تنظیموں کو بھیج دیں، اور دعوی کرتے ہیں كہ وہ مجاہد ہیں وغیرہ۔۔۔ پس یہ عمل لانڈرنگ کرنے والے کی جہت سے حرام ہے۔
3۔ لانڈرنگ (الغسل): وہ جہت، یا جہات جو منی لانڈرنگ، منی ٹرانسفرنگ کا کام کرتی ہیں اور اس عمل کا واسطہ بن جاتی ہیں، جیسے بنک اور ایجنٹ، یا کوئی مالی ادارہ۔ پس اس جہت کی نسبت بھی معاملہ حرام ہے؛ چونکہ جو منی ٹرانسفر کرتا ہے اس کا عمل غیر شرعی ہے، جیسے خیالی یا مشکوک کمپنیاں، یا جو فساد یا دہشتگردی کو سپورٹ کرتی ہیں یا ان میں کام کرنے والے فاسد لوگ ہیں۔
سابقہ باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حرمت کا سبب ان تین عناصر میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے چہ جائے کہ سب ایک جگہ جمع ہوں۔ اس کے علاوہ حرمت کے کئی اور اسباب بھی ہیں جن میں سے:
1۔ عقلاء اور متخصصین کا اجماع ہے کہ اس عمل میں اقتصاد وغیرہ کا نقصان ہے، اور یہ ناپسندیدہ وحرام کام ہے جسکو اور اس جیسے اعمال کو ہم نے اجتماعی منکرات کا نام دیا ہے۔ اسی لیئے وہ انفرادی منکرات کی طرح معروف نہیں جیسے شراب پینا یا زنا کرنا وغیرہ۔
2۔ اگر حکومتی ادارے- جیسے بنک- اس کام میں استعمال ہوجائیں- تو ان کا اور تمام عوامى املاك کا استعمال بھی جائز نہیں مگر یہ کہ فقیہ جامع جس میں مرجعیت اور قیادت کی شرائط موجود ہوں اجادت دے۔ وگرنہ اس میں تصرف حرام ہوگا۔ اور منی لانڈرنگ كى شريعت نے نہیں دى ہے۔
ہاں اضطراری صورت حال میں بعض حالتیں مستثنی ہونگی، جیسا کہ کوئی کسی دوسرے ملک میں آپریشن کرانے پر مجبور ہو اور اپنا قانونی مال ٹرانسفر کرنے کا محتاج ہو اور اس کا ملک اتنی مقدار میں رقم ٹرانسفر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جسکی وجہ سے وہ کئی افراد کے اکاوئنٹس میں بھیجتا ہے یا بعض قانونی کمزوریوں سے استفادہ کرتا ہے (تو اس صورت میں جائز ہے)۔ اور در اصل اس عمل پر منی لانڈرنگ کا عنوان ہی صدق نہیں کرتا۔ اور اسے ضرورت ہی جواز عطا کرتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ كہ اصل مال حلال ہو۔ خداوند متعال نے فرمایا: (پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں ، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔) (البقرہ/ 173) اور مشہور قول ہے (ضرورت کے وقت منع شدہ چیزیں مباح ہوتی ہیں)۔
پس اقتصادی اصطلاح میں منی لانڈرنگ کے لیئے یہی حالتیں متصور اور معروف ہیں۔
میں اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امت کو شعور دینا چاہتا ہوں اور اسے لانڈرنگ کی دیگر حالتوں کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں جو معروف اقتصادی اصطلاح کے مطابق منی لانڈرنگ میں داخل نہیں۔ لیکن اس کے معنی کو شامل ہے، اور وہ ہے مال کو ایک سے زیادہ واسطوں کے زریعے منتقل کرنا تاکہ قانونی اور شرعی رنگ دے کر کوئی خبیث ہدف پورا کرے۔
اور ان اعمال میں سے بعض لوگوں کی دینی مرجعیت کے بارے میں سطحی تحلیلات ہیں جن کے زریعے سے وہ ایسے فتاوی یا استفتاءات اخذ کرتے ہیں جو انکے اہداف كو پورا کرتے ہیں۔ اور یہ کام وہ ڈائرکٹ نہیں کر سکتے اس لیئے کسی کو پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ حقوق شرعیہ کے عنوان سے اس مرجعیت تک پہونچائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس اس کے زریعے وہ خود کو مرجعیت كے سامنے متدین ثابت کرتا ہے اور اسکا اعتماد حاصل کرتا ہے۔ اور مرجعیت کے سامنے کوئی رائے یا طلب پیش کرتا ہے جبکہ پیسے دینے والا وہ خود ہى ہوتا ہے۔ اور مرجع اس کى نیک خواہش کو قبول کرتے ہوئے مطلوبہ موقف بیان کرتا ہے۔
یا کوئی جہت مسلمانوں کے درمیان تفرقہ چاہتی ہے اور طائفیت کی آگ بھڑکاتی ہے۔ اور اگر وہ یہ کام علی الاعلان کرے تو اس کی حقیقت آشكار ہوتی ہے اس لیئے وه کسی سادہ شخص کے پاس آتا ہے اور اسے کچھ مال ہدیہ کے عنوان سے عطا کرتا ہے یا دین کا لبادہ اوڑھتا ہے اور پیسے دیتا ہے تاکہ اس سے کوئی مجلس عزا برپا کرے یا کسی ایسے موضوع پر دینی جشن کا انعقاد کرے جس میں طائفیت کا رنگ ہو اور خرافاتی روایات سے اس کو ثابت کرے۔ اور وہ اور اس جیسے سادہ لوگ اس عمل کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور مال دینے والی جہات کا ہدف پورا کرتے ہیں۔
اور تاریخ میں منی لانڈرنگ کی مثال عبید اللہ بن زیاد کا فعل ہے جس کے زریعے اس نے کوفہ میں مسلم بن عقیل کا ٹھکانہ معلوم کیا۔ پس اس نے اپنے مشیر معقل کو وافر مقدار میں مال دیا اور اسے حكم ديا كہ مسلم کے اصحاب كے درمیان گھس جائے اور انکا اعتماد حاصل کرے پھر ان سے طلب کرے کہ اسے مسلم کے پاس لے جائیں تاکہ وه مال انکے حوالہ کرے۔ اور مسلم کی تحریک کو مال کی ضرورت تھی۔ اس ملعون نے اس منصوبے کو نافذ کیا اور اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کا ناٹک کیا اور در انجام مسلم بن عوسجہ نے اسے مسلم کے ٹھکانے کی طرف رہنمائی کی۔
بہتر ہے یہاں ایک اور قسم كى لانڈرنگ کی طرف اشارہ کریں جو شناخت یا عنوان یا شخصیت کے بارے میں ہے۔ اور اس کی مثال یہ ہے کہ بعض جہات ان سعودی دہشتگردوں کو سپلائی کرتی ہیں جنہوں نے عراق اور شام میں جنگ لڑی ہے اور اب اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں تاكہ اپنے ملک میں بادشاہی بخشش حاصل کریں ۔ پس ان کو پہلے انڈونیشیا نقل کرتے ہیں پھر ادھر سے انہیں مبلغین کے نام سے بھیجتے ہیں جنہوں نے ملک سے باہر اسلام کی دعوت اور ارشاد کا فریضہ انجام دیا ہے۔ انڈونیشیا کے بعض مسوولین نے مجھے بتایا کہ ابھی ان کی تعداد سو (100) سے زیادہ ہے۔
یہ مثال میں نے اس لیئے ذکر کی تاکہ معاشرہ اپنے بارے میں ہونی والی ان سازشوں اور چالاکیوں سے باخبر ہوجائے جو اس کو توڑنے، متفرق کرنے، بغض اور عداوت كو فروغ دینے اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لیئے کی جاتی ہیں تاکہ ان شیطانوں کے لیئے میدان خالی ہوجائے اور اپنے اہداف حاصل کریں۔
محمد يعقوبي
13/صفر/1436
بمطابق 6/12/2014